نمازی کے آگے سترہ نہ ہو تو کتنے فاصلے سے گزرنا جائز ہے؟
یہ تحریر محترم قاضی ابراھیم شریف کی مرتب کردہ کتاب سترہ کے مختصر احکام و مسائل سے ماخوذ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے آگے سے گزرنے سے منع فرمایا ہے اور اس کی کوئی مسافت متعین نہیں فرمائی۔
ابو جہیم عبد اللہ بن حارث الانصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان ان يقف اربعين خيرا له من ان يمر بين يديه
صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب اثم المار بین يدي المصلی (510)
”اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو علم ہو جائے کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو اس کے لیے چالیس (سال) تک کھڑا رہنا گزرنے سے بہتر ہو گا۔“
حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ:
ان كعب الاحبار قال لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان ان يخسف به خيرا له من ان يمر بين يديه
”جو شخص نمازی کے سامنے سے گزرتا ہے اگر اس کو اس فعل کا عذاب معلوم ہو جائے تو اس کا زمین میں دھنس جانا بہتر معلوم ہو اس سے کہ وہ نماز کے سامنے سے گزر جائے۔“
موطا امام مالک بروایۃ یحییٰ بن یحییٰ اندلسی: 385
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کے آگے سے مطلق طور پر گزرنے سے منع فرمایا ہے اور گزرنے والے کے لیے سخت وعید فرمائی ہے، تو اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا یہی ہے کہ نمازی کے آگے سے کسی بھی صورت میں نہ گزرا جائے۔ سنن ابو داؤد، سنن الکبریٰ للبیہقی
ابوداؤد: 704، سنن الکبریٰ: 907
کی ایک ضعیف حدیث يجزئ عنه اذا مروا بين يديه على قذفة بحجر میں ہے کہ پتھر پھینکنے کے فاصلے کے بقدر جگہ چھوڑ کر نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے، بعض علماء نے کہا ہے کہ تین صف کے بقدر فاصلے پر گزرنا ناجائز ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اتنے فاصلے سے گزرنا جائز ہے، جہاں پر نمازی کی نظر نہ پڑے، لیکن اس حد بندی کے متعلق کوئی بھی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے