سوال:
کچھ لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث شریف میں آتا ہے:
"سورج طلوع ہوتے وقت نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے”
((فإنها تلطع بين قرنى الشيطان.))
ان کے بقول یہ بات سائنسی مشاہدات کے خلاف ہے، کیونکہ مختلف ممالک میں سورج طلوع و غروب ہونے کے اوقات الگ الگ ہوتے ہیں، جیسے کہ پاکستان میں سورج، عرب ممالک کی نسبت 2 سے 2.5 گھنٹے پہلے طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ پھر یہ لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ:
"کیا ایک ہی شیطان دنیا بھر میں ہر جگہ سورج کو اپنے سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہونے دیتا ہے؟”
یہ سوچ کر وہ حدیث کو جھوٹا قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
جواب:
ایسے اعتراضات کے جواب سے پہلے ایک بنیادی بات واضح ہونی چاہیے:
-
اسلام کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ایک مومن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی ہر صحیح، معتبر بات پر کامل ایمان اور یقین رکھے۔
-
اگر کوئی شخص قرآن و سنت کی صحیح اور معتبر باتوں پر ایمان نہ رکھے تو وہ اسلام سے خارج ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَٱلَّذِينَ جَـٰهَدُوا۟ فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾
(العنکبوت: ٦٩)
"جو ہماری راہ میں کوشش کرتا ہے ہم ضرور انھیں اپنی راہیں دکھاتے ہیں۔”
❖ اعتراض کرنے والوں کا باطنی تعصب
-
جو لوگ دل میں بغض رکھتے ہیں، ان کی نگاہوں پر تعصب کی عینک چڑھی ہوتی ہے۔
-
ایسے افراد کو حق اور حقیقت نظر نہیں آتی، کیونکہ ان کی آنکھیں نہیں بلکہ دل اندھے ہو چکے ہوتے ہیں۔
قرآن فرماتا ہے:
﴿فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ﴾
(الحج: ٤٦)
"بے شک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔”
❖ شیطان کا مفہوم: ابلیس نہیں، ہر گمراہ کن مخلوق
-
اعتراض کی بنیاد اس بات پر ہے کہ حدیث میں لفظ "شیطان” آیا ہے، اور وہ اسے "ابلیس” سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ یہ غلط مفہوم ہے۔
-
"شیطان” کا مطلب ہے ہر وہ سرکش مخلوق جو گمراہی کا ذریعہ ہو، خواہ وہ انسان ہو یا جن۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا﴾
(الأنعام: ١١٢)
"ہم نے ہر نبی کے لیے دشمن مقرر کیے، انسانوں اور جنوں کے شیاطین، جو ایک دوسرے کو دھوکہ دینے کے لیے خوشنما باتیں سکھاتے ہیں۔”
مزید فرمایا:
﴿وَإِذَا خَلَوْا۟ إِلَىٰ شَيَـٰطِينِهِمْ قَالُوٓا۟ إِنَّا مَعَكُمْ﴾
(البقرة: ١٤)
"جب وہ اپنے شیاطین (یعنی کافر دوستوں) کے پاس تنہائی میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم تمہارے ساتھ ہیں۔”
حدیثِ قرنِ شیطان کی وضاحت
حدیثِ مبارک میں یہ الفاظ ہیں:
((فإنها تلطع بين قرنى الشيطان))
"کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔”
اکثر لوگ یہاں "شیطان” کا مطلب ابلیس لیتے ہیں، جبکہ یہاں "شیطان” کا مطلب کوئی عام سرکش شیطان ہے، جو ابلیس کے حکم سے مخصوص علاقوں میں فتنہ انگیزی پر مامور ہوتے ہیں۔
یہ لفظ "الشیطان” میں جو "ال” (الف لام) ہے، وہ بھی عہدی ہے، یعنی وہ مخصوص شیطان جو ابلیس کی طرف سے ہر ملک یا علاقے کے لیے مقرر ہوتا ہے۔
❖ شیطان صرف ابلیس نہیں
-
یہ بات قابل فہم ہے کہ ابلیس کے ساتھ ایک بڑا لشکر ہے۔
-
جیسے انسانوں کا ایک باپ (آدم علیہ السلام) ہے، اسی طرح جنات کا باپ ابلیس ہے، لیکن اس کے بعد بے شمار جنات اور شیاطین وجود میں آئے۔
قرآن مجید فرماتا ہے:
﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَـٰمَعْشَرَ ٱلْجِنِّ قَدِ ٱسْتَكْثَرْتُم مِّنَ ٱلْإِنسِ﴾
(الأنعام: ١٢٨)
"اور جس دن اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا کرے گا (تو فرمائے گا): اے گروہِ جنات! تم نے انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی پیروی میں لیا۔”
مزید فرمایا:
﴿إِنَّهُۥ يَرَىٰكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُۥ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ﴾
(الأعراف: ٢٧)
"وہ (ابلیس) اور اس کا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انہیں نہیں دیکھ سکتے۔”
❖ ابلیس کا نظام اور اس کے کارندے
-
صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ابلیس پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے، اور اس کے چیلے آ کر روزانہ اپنی کارگزاری سناتے ہیں:
-
کوئی کہتا ہے: "میں نے فلاں شخص سے زنا کرایا”
-
کوئی کہتا ہے: "میں نے فلاں سے قتل کروایا”
-
لیکن ابلیس کسی کو خاص اہمیت نہیں دیتا، جب تک کہ ایک آ کر کہے: "میں نے فلاں میاں بیوی میں طلاق کروا دی”
-
اس پر ابلیس اسے گلے لگا کر شاباش دیتا ہے
-
📖 (بحوالہ: صحیح مسلم، کتاب صفۃ القیامۃ، حدیث نمبر: 2813)
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ابلیس خود ہر جگہ نہیں جاتا، بلکہ اس نے مختلف جگہوں پر اپنے ماتحت شیاطین مقرر کیے ہوئے ہیں جو اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔
❖ حدیث کا مفہوم اور سورج کی پوجا کا پس منظر
-
ہر ملک یا علاقے کے لیے الگ شیطان مقرر ہے، جو سورج کے طلوع اور غروب کے وقت اس طرح کھڑا ہوتا ہے کہ دور سے سورج اس کے دو کندھوں کے درمیان آہستہ آہستہ طلوع یا غروب ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
-
یہ شیطان سورج کی پرستش کرنے والوں کے سامنے آ کر کھڑا ہوتا ہے تاکہ لوگ گویا اسے سجدہ کر رہے ہوں۔
یہی وہ مشابہت ہے جس کی بنا پر نبی کریم ﷺ نے سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔
❖ اعتراض کا خلاصہ: کیا ایک شیطان ہر جگہ موجود ہو سکتا ہے؟
بعض منکرین حدیث یا سادہ لوح افراد اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ:
"اگر ہر جگہ مختلف اوقات میں سورج طلوع ہوتا ہے، تو کیا ایک ہی شیطان دنیا کے تمام خطوں میں ایک ہی وقت میں موجود ہو کر سورج کو اپنے سینگوں کے درمیان طلوع و غروب ہونے دیتا ہے؟”
یہ اعتراض حقیقت میں علمی کمزوری، ناسمجھی اور تعصب پر مبنی ہے، کیونکہ:
-
حدیث میں یہ نہیں کہا گیا کہ ہر جگہ ایک ہی شیطان ہوتا ہے۔
-
بلکہ ہر ملک و مقام کے لیے الگ الگ شیطان مقرر ہوتے ہیں، اور ہر ایک ابلیس کا نمائندہ ہوتا ہے۔
❖ سینگوں کے درمیان طلوع کا مطلب
-
حدیث میں سورج کے شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع یا غروب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ شیطان سورج کے آگے کھڑا ہوتا ہے، اور چونکہ سورج کی پوجا کرنے والے اسی وقت عبادت کرتے ہیں، تو وہ گویا شیطان کو سجدہ کر رہے ہوتے ہیں۔
-
حدیث کا مقصد نماز کو مشرکانہ عبادت سے ممتاز کرنا ہے، تاکہ مسلمان سورج کے پجاریوں سے مشابہت نہ کریں۔
❖ سینگوں سے مراد کیا ہے؟
-
"سینگ” یہاں حقیقی بھی ہو سکتے ہیں اور مجازی بھی۔
-
بعض شارحین کے مطابق شیطان کے دونوں کندھے دور سے دیکھنے پر سینگوں کی مانند لگتے ہیں اور سورج اس کے درمیان طلوع یا غروب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
📌 مطلب یہ کہ:
-
سورج کا سینگوں کے درمیان آنا ظاہری منظر کی کیفیت ہے، جو شیطانی اثرات اور مشرکانہ اعمال کے پس منظر میں بیان کی گئی ہے۔
-
حقیقت میں سورج ایک عظیم سیارہ ہے، مگر آنکھوں کو وہ ایک تھال کی طرح دکھائی دیتا ہے، اس لیے دور سے سینگوں کے درمیان آتا محسوس ہوتا ہے۔
❖ اعتراض کرنے والوں کی علمی خیانت
-
منکرین حدیث ہمیشہ حدیث کے الفاظ کو اپنے ناقص فہم کے مطابق موڑتے ہیں۔
-
وہ ہر جگہ شیطان کا مطلب ابلیس لیتے ہیں، اور جب مفہوم نہ سمجھ سکیں تو سراسر انکار کر دیتے ہیں۔
-
یہ طرز عمل علمی دیانت نہیں بلکہ خیانت ہے۔
جیسا کہ کہا گیا:
"اک لپی کون کبڑ خان چنڈ ڈتو”
(یعنی جس کے پاس آنکھ ہی نہیں، وہ چاند دیکھنے چلا گیا!)
❖ نبی کریم ﷺ کی حدیث پر اعتراض کرنا؟
-
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ بے عمل، کور فہم لوگ آج نبی کریم ﷺ کے فرمودات پر اعتراض کرنے لگے ہیں۔
-
ایسے لوگ حدیث کی حقیقت کو نہ سمجھتے ہیں اور نہ سمجھنا چاہتے ہیں، اور صرف دشمنی اور ضد میں آ کر مقدس کلام کو نشانہ بناتے ہیں۔
قرآن فرماتا ہے:
﴿فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَـٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ﴾
(الحج: ٤٦)
"بے شک آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔”
📌 اور ہم دعا کرتے ہیں:
"اللهم أعذنا من عمى القلوب”
(اے اللہ! ہمیں دل کی اندھیائی سے محفوظ فرما)
حاصلِ کلام اور واضح نتیجہ
مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ:
-
حدیث مبارکہ کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ایک ہی شیطان دنیا بھر میں سورج کو سینگوں کے درمیان طلوع کرتا ہے۔
-
بلکہ ابلیس نے ہر ملک و خطے کے لیے مخصوص شیاطین مقرر کیے ہیں جو طلوع و غروب کے وقت مخصوص مقام پر موجود ہوتے ہیں۔
اس حدیث کا اصل مقصد:
-
مسلمانوں کو سورج کے پجاریوں کی مشابہت سے بچانا ہے۔
-
اور نماز کو شرک آلود عبادات سے ممتاز کرنا ہے۔
❖ حدیث و مشاہدہ میں کوئی تضاد نہیں
-
بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ مختلف ملکوں میں سورج مختلف اوقات میں طلوع و غروب ہوتا ہے، اس لیے حدیث خلافِ مشاہدہ ہے۔
-
لیکن یہ کہنا بے بنیاد ہے، کیونکہ:
✅ سورج ہر ملک میں الگ وقت پر نکلتا ضرور ہے،
✅ مگر ہر جگہ ابلیس کا الگ نمائندہ شیطان موجود ہوتا ہے،
✅ جو اپنے اپنے مقام پر سورج کی پرستش کرنے والوں کو گمراہ کرتا ہے۔
📌 اس طرح سائنس، مشاہدہ اور حدیث میں کوئی ٹکراؤ نہیں رہتا۔
❖ حدیث پر اعتراض: علمی خیانت
-
جو لوگ حدیث پر اعتراض کرتے ہیں، وہ دراصل:
❌ نہ قرآن کو سمجھتے ہیں
❌ نہ حدیث کے رموز سے واقف ہیں
❌ نہ ان کے پاس کوئی شرعی یا علمی بنیاد ہے -
صرف اپنی اندھی رائے اور کم فہمی سے حدیث کو رد کرنا دراصل رسول اللہ ﷺ کی دشمنی ہے۔
جیسا کہ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا﴾
(الأنعام: ١١٢)
"ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنات میں سے دشمن مقرر کیے، جو ایک دوسرے کو دھوکہ دینے والی باتیں سکھاتے ہیں۔”
❖ حاصلِ کلام
-
حدیثِ قرنِ شیطان بالکل صحیح اور واضح ہے۔
-
اس میں کوئی تضاد، تعارض یا سائنسی مشاہدے کے خلاف بات نہیں۔
-
جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں، وہ دراصل علمی خیانت، جہالت اور تعصب کا شکار ہیں۔
-
ایسے افراد کو چاہیے کہ پہلے علم حاصل کریں، پھر گفتگو کریں۔