نمازِ ظہر سے پہلے چار سنتوں کے احکام
سوال:
نمازِ ظہر سے پہلے جو چار رکعت سنتیں پڑھی جاتی ہیں، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اگر کسی وجہ سے یہ سنتیں فرض نماز سے پہلے نہ پڑھی جا سکیں، تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟ (عبدالمتین، آسٹریلیا)
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول الله، أما بعد!
نبی کریم ﷺ کی ظہر سے پہلے چار رکعت سنتوں کی پابندی
◈ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
"نبی کریم ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔”
(صحیح بخاری: 1182)
◈ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ:
"آپ ﷺ گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں ادا فرماتے تھے، پھر باہر جاکر لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔”
(صحیح مسلم: 730 (1699))
زوال کے بعد ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھنے کا ذکر
◈ حضرت عبداللہ بن السائب بن صیفی المخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
"رسول اللہ ﷺ زوال کے بعد، ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور فرماتے تھے: ’اس وقت آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں، اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے نیک اعمال اللہ کے دربار میں پیش ہوں۔‘”
(سنن الترمذی: 478، کہا: "حسن غریب” و سندہ صحیح)
ظہر سے پہلے اور بعد کی سنتوں پر عمل
◈ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
"رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور بعد میں دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔”
(سنن الترمذی: 598، 599، ملخصاً، کہا: "ھذا حدیث حسن”، و سندہ حسن)
◈ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مَنْ حَافَظَ عَلَى أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ قَبْلَ الظُّهْرِ وَأَرْبَعٍ بَعْدَهَا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ”
"جو شخص ظہر سے پہلے چار اور بعد میں چار رکعتیں پابندی سے ادا کرے، اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ پر حرام کر دیتا ہے۔”
(سنن الترمذی: 428، کہا: "ھذا حدیث حسن صحیح غریب من ھذالوجہ”، و سندہ حسن، شرح السنۃ للبغوی 3/464 ح 889، المعجم الکبیر للطبرانی 23،235 ح 453، مسند الشامین: 1524)
حدیث کی صحت اور راویوں کی حیثیت
◈ اس حدیث کی سند "حسن لذاتہ” ہے، اور اس کے متعدد شواہد بھی موجود ہیں، جن کی بنیاد پر یہ حدیث "صحیح لغیرہ” قرار دی گئی ہے۔
◈ حدیث کے راوی قاسم بن عبدالرحمٰن الدمشقی جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں۔
(عمدۃ القاری 7/146 ح 1103، تحقیقی مقالات 3/400)
◈ ان کے شاگرد علاء بن حارث الدمشقی بھی ثقہ و صدوق ہیں اور ان کی روایات صحیح مسلم میں موجود ہیں۔
راویوں پر وارد اعتراضات کی حقیقت:
➊ اختلاط کا اعتراض:
یہ اعتراض غیر ثابت ہے اور ناقابل قبول ہے۔ راوی ابوعبید الآجری مجہول الحال ہیں۔
➋ قدریت کا اعتراض:
کسی صحیح سند سے یہ ثابت نہیں کہ وہ تقدیر کے منکر تھے، اس لیے یہ اعتراض مردود ہے۔
دیگر صحابہ کرام اور تابعین کی عمل کی شہادتیں
◈ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعتیں پڑھتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 2/199 ح 5942 و 5945، سندہ صحیح)
◈ عبدالرحمان بن عبد القاری سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ظہر سے پہلے نفل نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، تو آپ نے فرمایا:
"یہ رات کی نماز (تہجد) ہے جو رہ گئی تھی، اب پڑھ رہا ہوں۔”
(تہذیب الآثار لابن جریر الطبری، مسند عمر، القسم الثانی، ص 96، ح 2863، سندہ صحیح)
◈ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:
"جو شخص اپنے اذکار یا اس کا کوئی حصہ رات کو نہ پڑھ سکے، وہ فجر اور ظہر کے درمیان پڑھ لے، اسے رات والا ہی اجر ملے گا۔”
(صحیح مسلم 747 (1745))
◈ تابعی عمرو بن میمون الاوودی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں کبھی ترک نہیں کرتے تھے۔”
(ابن ابی شیبہ: 5943، سندہ صحیح)
سنتِ ظہر کی رکعات کی تعداد کے حوالے سے وضاحت
◈ نبی کریم ﷺ سے ظہر سے پہلے دو رکعتیں پڑھنا بھی ثابت ہے۔
(صحیح بخاری 1180، صحیح مسلم 729 (1698))
◈ ایک حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا:
"ہر دو اذانوں کے درمیان نفل نماز ہے۔”
پھر فرمایا:
((لِمَنْ شَاءَ))
"جو چاہے۔”
(صحیح بخاری: 627، صحیح مسلم: 838 (1940، 1941))
اس حدیث سے معلوم ہوا:
◈ اگر کوئی شخص ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھ سکے تو دو رکعتیں بھی کافی ہیں۔
◈ اگر وقت کی قلت یا کسی وجہ سے سنتیں رہ جائیں تو بعد میں ادا کی جا سکتی ہیں۔
سنتوں کی ادائیگی کا طریقہ
◈ دو دو رکعتوں کی صورت میں پڑھنا افضل و مسنون ہے۔
_(حدیث: "صلاة الليل والنهار مثنى مثنى”)_
(توضیح الاحکام 1/424)
◈ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی پر عمل کرتے تھے۔
(بحوالہ مسائل احمد و اسحاق، روایت الکوسج 433، 405)
◈ اگر کوئی شخص چار رکعتیں ایک سلام سے پڑھ لے تو یہ بھی جائز ہے۔
(مصنف عبدالرزاق: 4225، الاوسط لابن المنذر، 5/236، سندہ حسن)
سوال کی دوسری شق: سنتیں رہ جائیں تو کیا کیا جائے؟
◈ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ:
"نبی کریم ﷺ جب ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہ پڑھ پاتے، تو بعد میں پڑھ لیتے تھے۔”
(سنن ترمذی 426، کہا: حسن غریب، و سندہ صحیح)
◈ ایک اور روایت میں ہے:
"رسول اللہ ﷺ یہ چار رکعتیں نمازِ ظہر کے بعد، دو سنتوں کے بعد پڑھا کرتے تھے۔”
(سنن ابن ماجہ: 1158)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ راوی قیس بن الربیع کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے، اس لیے اس ترتیب کی پابندی لازمی نہیں۔
◈ اگر کوئی شخص ظہر کی پہلی سنتیں کسی وجہ سے بعد میں پڑھے، تو یہ بھی حدیث ((لِمَنْ شَاءَ)) کی روشنی میں جائز ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب