نمازِ جنازہ میں سورۃ فاتحہ سے متعلق احناف کے 15دلائل
یہ اقتباس ڈاکٹر حافظ ابو یحییٰ نورپوری کی کتاب نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ فرض*مستحب* یا مکروہ تحریمی* سے ماخوذ ہے۔

دلائل احناف کا منصفانہ تجزیہ

قارئین نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث، صحابہ کرام کا عمل اور جمہور تابعین کا مذہب معلوم کر چکے ہیں۔ ان دلائل سے یہ بات بھی بالکل عیاں ہے کہ یہ سارے کے سارے دلائل سند کے اعتبار سے بالکل صحیح ہیں اور خاص سورۃ فاتحہ کے بارے میں ہیں۔ کوئی ایک بھی دلیل ایسی نہیں جو بے سند یا بے جوڑ ہو۔ اب قارئین احناف کے دلائل بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ان میں سے اکثر دلائل کا حال یہ ہے کہ وہ یا تو بالکل بے سند ہیں یا سند موجود ہے تو وہ اصولِ محدثین کی روشنی میں پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔ جو دلائل سند کے اعتبار سے صحیح ہیں ان میں سے اکثر سورۃ فاتحہ سے متعلق ہی نہیں۔ آئیے ملاحظہ فرمائیے اور خود فیصلہ کیجیے کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت منع ہے یا فرض۔

”تحقیقی“ شاہکار بے سروپا دلائل

سند معیار حق ہے۔ سند ہی کے ذریعے کسی روایت کی صحت کا علم ہوتا ہے۔ جس روایت کی سند معلوم نہ ہو، وہ سراسر باطل ہوتی ہے۔ ایسی روایات سے کوئی مسلمان اپنا مذہب ثابت نہیں کر سکتا۔ لیکن بعض مسلمان جانتے بوجھتے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق بنتے ہوئے اپنے خود ساختہ مذہب کے ثبوت کے لیے ایسے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ ایسی ہی چند کاوشیں ملاحظہ فرمائیں:

① سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بے سند روایت !

جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
روي عن ابن مسعود أنه سئل عن صلاة الجنازة : هل يقرأ فيها؟ فقال : لم يوقت لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم قولا ولا قراءة، وفي رواية : دعاء ولا قراءة، كبر ما كبر الإمام واختر ما شئت، وفي رواية : واختر من الدعاء أطيبه . (بدائع الصنائع : 313/1، مغني ابن قدامة : 485/2)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے نماز جنازہ میں قراءت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے کوئی خاص کلام اور قراءت مقرر نہیں فرمائی۔ ایک روایت میں ہے کہ کوئی خاص دعا اور قراءت مقرر نہیں فرمائی۔ جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جو اچھے سے اچھا کلامِ ثناء و دعا وغیرہ چاہو اختیار کرو اور ایک روایت میں ہے کہ جو بہتر سے بہتر دعا ہو وہ اختیار کرو۔ (حدیث اور اہل حدیث ، ص : 863)
تجزیہ
● یہ انوار صاحب کی تحقیق کا ایک شاہکار ہے کہ انہوں نے بغیر سند و ماخذ ذکر کی گئی روایت کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لیا۔ ایک محقق کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی دلیل کا حوالہ بنیادی ماخذ سے دے، جہاں اس کی سند موجود ہو۔
طبرانی کبیر (9606،9604) میں جہاں اس کی سند مذکور ہے، وہاں جابر جعفی کذاب اور شریک مدلس و مختلط کا واسطہ موجود ہے۔
کہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام سے ثابت عمل اور کہاں ایک صحابی کی طرف منسوب جھوٹی بات ! کیا دلائل کی دنیا میں ایسی باتوں کی کوئی شنوائی ہے؟

◈ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ثابت فرمان اللہ عرش پر

● سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ سے منع کرنا تو ثابت نہیں ہو سکا، البتہ ان کے اس صحیح فرمان کو دیوبندی بھائی ضرور ملحوظ رکھیں :
و الله على العرش ، ويعلم أعمالكم .
اللہ تعالیٰ عرش کے اوپر ہے اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے۔
(كتاب التوحيد لابن خزيمة : 242/1-243 ، الرقم : 149، الرد على الجهمية الدارمي : 81، الردّ على المريسي للدارمي : 422/1 ، المعجم الكبير للطبراني : 202/9 ، العظمة لأبي الشيخ : 888/2-689 ، التمهيد لابن عبد البر : 139/7، الأسماء والصفات للبيهقي : 851 ، وسنده حسن)
جو لوگ ذاتِ باری تعالیٰ کے ہر جگہ موجود ہونے کے قائل اور استویٰ علی العرش کے منکر ہیں، انہیں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ٹینشن کا اجماع امت کے عین مطابق صحیح ثابت عقیدہ چھوڑ کر ان کی طرف منسوب جھوٹی باتیں پیش کرنے کا بھلا کیا حق ہے؟

② عبد الرحمن بن عوف اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بے سند روایت

جناب انوار خورشید صاحب پانچویں دلیل یوں دیتے ہیں :
روي عن عبد الرحمن بن عوف وابن عمر أنهما قالا : ليس فيها قرائة شيء من القرآن . (بدائع الصنائع : 313/1)
حضرت عبد الرحمن بن عوف اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان دونوں بزرگوں نے فرمایا : نماز جنازہ میں قرآن کے کسی حصے کی بھی قراءت نہیں ہے۔ (حدیث اور اہل حدیث ،ص : 865 )
تجزیہ
● یہ روایت بھی بے سند ہے۔ آج تک ذخیرہ حدیث سے اس کی کوئی سند دریافت نہیں ہو سکی۔ اگر جناب انوار خورشید صاحب ہمت کر کے اس کی کوئی سند پیش کر دیں تو وہ تحقیقی میدان میں داد وصول کر سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو سکے تو ہمارے دیوبندی بھائی خود فیصلہ کر لیں کہ جس فقہ کا مدار بے سند روایات پر ہے، وہ قرآن و سنت کا نچوڑ ہے یا ….؟
● سیدنا عبد الرحمن بن عوف اور سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نماز جنازہ میں قراءت کی ممانعت تو ثابت نہیں ہو سکی البتہ ان دونوں بزرگوں کا ایک ایک قول ہم دیوبندی بھائیوں کی خدمت میں پیش کریں گے۔ معلوم ہو جائے گا کہ وہ صحابہ کرام کے اقوال و افعال پر عمل کرنے میں کتنے مخلص ہیں۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں :

◈ سیدنا ابن عوف رضی اللہ عنہ اور نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں

زر بن حبیش بیان کرتے ہیں :
إن أبى بن كعب وعبد الرحمن بن عوف كانا يصليان قبل المغرب ركعتين، ركعتين .
بلاشبہ سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہما دونوں بزرگ نماز مغرب سے پہلے دو دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔
(مصنف عبد الرزاق : 434/2 ، مصنف ابن أبي شيبة : 356/2، شرح مشكل الآثار للطحاوي : 121/14 ، وسنده حسن)
جناب انوار صاحب نے صحابہ کی طرف منسوب بے سند و بے سروپا روایت پیش کی ہے جبکہ ہم نے صحابہ کرام سے ثابت شدہ فعل بیان کیا ہے۔ کیا اب دیوبندی بھائی صحابہ کرام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں ادا کرنے کی ہمت کریں گے ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟

◈ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ایک وتر

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی ممانعت تو ثابت نہیں ہو سکی البتہ ان سے ایک رکعت وتر بالکل صحیح ثابت ہے ۔ آپ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
صلاة الليل مثنى مثنى ، والوتر واحدة .
رات (تہجد) کی نماز دو دو رکعت ہے اور وتر ایک رکعت ہے۔
(مصنف ابن أبي شيبة : 292/2 ، وسنده صحيح)
اگر ہمارے مقلدین بھائی سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حقیقی محبت رکھتے ہیں اور ان کے اقوال و افعال کو واقعی حجت سمجھتے ہیں تو ذرا ہمت کر کے ان کے اس فتوے پر زندگی میں ایک دفعہ عمل کر لیں! اگر وہ ایسا کر لیں گے تو ان شاء اللہ اہل حدیث بن جائیں گے۔ اگر اتنی ہمت نہ کر سکیں تو خود ہی فیصلہ کریں کہ ہمارے خلاف ان کے بے سند اور بے سروپا اقوال پیش کرنا بھلا انصاف کی بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو تلاش کرنے اور اس پر ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے ۔

③ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثری عمل !

علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب بغیر کسی حوالے کے لکھتے ہیں :
ولا ريب فى أن أكثر عمله صلى الله عليه وسلم كان على الترك .
بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر معمول ( جنازہ میں فاتحہ کو ) چھوڑنے کا تھا۔
(فيض الباري : 474/2)
تجزیہ
● علامہ کشمیری صاحب تو فوت ہو چکے، اب دیوبندی بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اکثر اوقات تو کجا زندگی میں ایک مرتبہ بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کا چھوڑنا صحیح سند کے ساتھ ثابت کر دیں، ورنہ تسلیم کر لیں کہ ان کے علماء اپنی فقہ کو بچانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی غیر ذمہ دارانہ باتیں کہنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔
● رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کا چھوڑنا تو کوئی حنفی ثابت نہیں کر سکا، جبکہ ہم باب اوّل میں صحیح احادیث سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کا سنت ہونا ثابت کر چکے ہیں۔ ہم حنفی بھائیوں کو دعوت دیتے ہیں کہ جب تک انہیں نماز جنازہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سورۃ فاتحہ چھوڑنے کی حدیث نہیں ملتی ، اس وقت تک وہ ان احادیث پر تو عمل کریں جن میں نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت سنتِ رسول سے ثابت ہو چکی ہے۔

④ جمہور سلف کا بے سند عمل !

علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب جمہور سلف سے سورۃ فاتحہ چھوڑنے کا عمل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وصرح ابن تيمية رحمه الله أن جمهور السلف كانوا يكتفون بالدعاء، ولا يقرؤون الفاتحة.
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ جمہور سلف دعا ہی پر اکتفا کرتے تھے، وہ فاتحہ کی قراءت نہیں کرتے تھے۔
(فيض الباري : 474/2)
تجزیہ
● شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مطلق طور پر نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کہی بلکہ انہوں نے قبرستان میں قرآن کریم کی قراءت کے حوالے سے یہ بات کہی ہے ، وہ فرماتے ہیں:
لم يقل أحد من العلماء بأنه يستحب قصد القبر دائما للقرائة عنده، إذ قد علم بالاضطرار من دين الإسلام أن ذلك ليس مما شرعه النبى صلى الله عليه وسلم لأمته، لكن اختلفوا فى القرائة عند القبور، هل هي مكروهة أم لا تكره؟ والمسأله مشهورة، وفيها ثلاث روايات عن أحمد؛ إحداها أن ذلك لا بأس به، وهى اختيار الخلال وصاحبه وأكثر المتأخرين من أصحابه، وقالوا : هي الرواية المتأخرة عن أحمد، وقول جماعة من أصحاب أبى حنيفة والثانية أن ذلك مكروه، حتى اختلف هؤلاء : هل تقرأ الفاتحة فى صلاة الجنازة إذا صلى عليها فى المقبرة؟ وفيه عن أحمد روايتان؛ وهذه الرواية هي التى رواها أكثر أصحابه عنه، وعليها قدماء أصحابه الذين صحبوه، كعبد الوهاب الوراق وأبي بكر المروزي ونحوهما، وهى مذهب جمهور السلف كأبي حنيفة ومالك وهشيم بن بشير وغيرهم
علمائے کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ہمیشہ قراءت کے لیے کسی قبر کا قصد کرنا مستحب ہے، کیونکہ دین اسلام میں یقینی طور پر یہ معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی امت کے لیے مشروع قرار نہیں دیا۔ البتہ اس بات میں علمائے کرام کا اختلاف ہوا ہے کہ قبروں کے پاس قراءت کرنا مکروہ ہے یا نہیں۔ یہ مشہور مسئلہ ہے اور اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ سے تین طرح کی روایات ملتی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ خلال، ان کے شاگرد اور ان کے متاخرین اصحاب کا یہی خیال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کی آخری روایت یہی ہے اور اصحاب ابو حنیفہ میں سے ایک جماعت کا یہی موقف ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ قبروں کے پاس قرآن کی قراءت مکروہ ہے، حتی کہ علمائے کرام میں اس بات میں بھی اختلاف پیدا ہو گیا کہ جب قبرستان میں نماز جنازہ ادا کی جائے تو اس میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کی جائے گی یا نہیں۔ اس بارے میں امام احمد رحمہ اللہ سے دو طرح کی روایات ملی ہیں۔ ان کے اکثر اصحاب نے ان سے یہی روایت کیا ہے اور ان کے قدیم اصحاب جو ان کے ساتھ رہے ہیں جیسا کہ عبدالوہاب وراق، ابو بکر مروزی وغیرہما ہیں، اسی بات پر قائم ہیں ( کہ قبرستان میں نماز جنازہ پڑھی جائے تو سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے)۔ جمہور سلف مثلاً امام ابو حنیفہ، امام مالک ہشیم بن بشیر وغیرہم کا بھی یہی مذہب ہے۔
(اقتضاء الصراط المستقيم، ص : 380)
معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے امام احمد بن حنبل کی ایک روایت، ان کے قدیم اصحاب کا موقف اور جمہور سلف کے حوالے سے قبرستان میں نماز جنازہ کی صورت میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کو مکروہ کہا ہے۔ عام طور پر نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ بقول ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی جمہور سلف کے ہاں مکروہ نہیں۔
● جمہور سلف کے بارے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ قول بے سند ہے۔ انہوں نے اس بارے میں کوئی سند یا حوالہ ذکر نہیں کیا۔ ہم باب اوّل میں امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور سلف سے صحیح سند کے ساتھ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت ثابت کر چکے ہیں۔ کیا صحابہ کرام اور جمہور تابعین حنفی بھائیوں کے ہاں جمہور سلف نہیں بنتے اور کیا صحیح سند سے جمہور سلف کا موقف ثابت ہونے کے بعد بھی حنفی بھائی ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بے سند قول پر اعتماد کرتے رہیں گے؟
● خود شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ چند سطور کے بعد لکھتے ہیں :
ومعلوم أن القرائة فى الصلاة ليس المقصود بها القرائة عند القبر .
یہ بات تو معلوم ہے کہ ( قبر پر نماز جنازہ کی صورت میں ) نماز میں قراءت سے مراد قبر پر قراءت نہیں۔
(اقتضاء الصراط المستقیم، ص : 380)
لہذا اگر بالفرض تھوڑی دیر کے لیے یہ بات مان لی جائے کہ جمہور سلف قبرستان میں نماز جنازہ کی صورت میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کو مکروہ سمجھتے تھے تو بھی ان کی یہ بات ناقابل التفات ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس سبب سے انہوں نے اسے مکروہ سمجھا، وہ یہاں مفقود ہے، کیونکہ نماز میں قراءت ، قبر پر قراءت متصور نہیں ہوگی۔

کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بے جوڑ دلائل

دین اسلام ایک واضح اور روشن مذہب ہے۔ اس نے زندگی کا کوئی گوشہ تشنہ ومخفی نہیں چھوڑا۔ تمام احکام و مسائل کے بارے میں اس کی واضح راہنمائی موجود ہے۔ لیکن بعض لوگ اسلام کی اس وضاحتی پالیسی کے برعکس اپنی فقہ کی ڈوبتی ناؤ کو بچانے کے لیے ایسے دلائل پیش کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جن کا اصل مسئلہ سے تعلق ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ سے روکنے کے لیے احناف نے بھی بہت سے ایسے ہی دلائل ذکر کیے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے:

① نماز جنازہ دراصل دعا ہے!

سب سے پہلی دلیل جو نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کو ناجائز قرار دینے کے لیے دی جاتی ہے، وہ درج ذیل ہے :
عن أبى هريرة أن النبى صلى الله عليه وسلم قال : إذا صليتم على الميت فأخلصوا له الدعاء .
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم نماز جنازہ پڑھو تو میت کے لیے نہایت خلوص کے ساتھ دعا کرو۔
(سنن أبي داود : 3199، سنن ابن ماجه : 1497 ، صحیح ابن حبان: 347/7، وهنا صرح ابن إسحاق بالسماع، وسنده صحيح)
جناب امین اوکاڑوی صاحب، جناب انوار خورشید صاحب اور دیگر بہت سے حنفی علماء نے اس حدیث کو اپنی سب سے پہلی دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے۔ یہ ان کی سب سے مضبوط دلیل ہے۔ لیکن قارئین کرام اس کا تجزیہ پڑھ کر خود ہی فیصلہ فرمائیں کہ بھلا اس سے احناف نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی ممانعت ثابت کر پائے ہیں؟
تجزیہ
● نماز جنازہ کے میت کے لیے دعا ہونے کا سو بار اقرار لیکن یہ صحیح حدیث کسی طرح سے بھی جنازہ میں سورۃ فاتحہ سے منع نہیں کرتی، کیونکہ جنازہ بہر حال نماز ہے۔ اسے میت کے لیے دعا قرار دے کر اس کے نماز ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خود فقہ حنفی کی معتبر کتب میں جنازے کے لیے نماز کی نیت کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فتاوی عالمگیری کی عبارت ملاحظہ ہو:
وفي صلاة الجنازة ينوي الصلاة لله تعالى والدعاء للميت .
نماز جنازہ میں آدمی اللہ تعالیٰ کے لیے نماز اور میت کے لیے دعا کی نیت کرے۔
(الفتاوى الهندية : 66/1)
یہی بات الاشباہ والنظائر وغیرہ میں بھی درج ہے۔
جب جنازہ نماز ہے تو نماز میں سورۃ فاتحہ کی قراءت سے ممانعت کیوں؟ لہذا جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرنے سے مانع نہیں۔ سورۃ فاتحہ کی قراءت پہلی تکبیر کے بعد کی جاتی ہے، جبکہ میت کے لیے دعا تیسری تکبیر کے بعد ہوتی ہے۔ خود حنفی حضرات کو اس بات کا اعتراف ہے۔ جناب اوکاڑوی صاحب نے بھی لکھا ہے کہ میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کا جو حکم ہے، اس کا تعلق تیسری تکبیر کے بعد سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
اس حدیث سے مراد وہ دعا ہے جو نماز جنازہ کے اندر تیسری اور چوتھی تکبیر کے درمیان پڑھی جاتی ہے۔ ( مجموعہ رسائل : 252/1 )
جناب اوکاڑوی صاحب نے یہ بات ملاعلی قاری حنفی کی کتاب مرقاۃ المفاتیح اور فتاوی سعدیہ عین الہدایہ کے حوالے سے بھی نقل کی ہے۔ لیکن نہ جانے پھر کیوں انہوں نے اس حدیث کو نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کی ممانعت میں پیش کر دیا ہے جو کہ صرف پہلی تکبیر کے بعد کی جاتی ہے؟ کیا یہ بے تکی بات نہیں؟
اس سے بھی بڑی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ نماز جنازہ میں اخلاص کے ساتھ دعا والی حدیث کی پامالی بھی احناف ہی کی طرف سے کی جاتی ہے، جو چند سیکنڈ پر مشتمل جنازہ پڑھاتے ہیں، اس حدیث پر عمل بھی اہل حدیث ہی کرتے ہیں اور نماز جنازہ کو لمبا کر کے اخلاص کے ساتھ دعا کرتے ہیں۔ والحمد لله على ذلك

◈ علامہ تقی عثمانی صاحب کی انصاف پسندی

صرف ہمیں ہی نہیں بلکہ علامہ تقی عثمانی دیوبندی صاحب کو بھی اس بات سے گلہ ہے، وہ کہتے ہیں :
لیکن اس سے استدلال درست نہیں کیونکہ اس کا مطلب اخلاص کے ساتھ دعا کرنا ہے نہ یہ کہ فاتحہ نہ پڑھی جائے۔ (درس ترمذی: 304/3-305)
● اگر نماز جنازہ میں قراءت سے اس لیے روکا جاتا ہے کہ یہ میت کے لیے دعا کے واسطے ہوتی ہے۔ تو پھر نماز عید بھی تو شکر کے لیے ہوتی ہے، نماز کسوف و خسوف اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے لیے ہوتی ہے اور نماز استسقاء بارش طلب کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ ان نمازوں میں بھی قراءت نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بھی دعا اور خاص مقاصد کے حصول کے لیے ہوتی ہیں۔

◈ محمد بن اسحاق کے بارے میں احناف کا دوہرا معیار

● اس حدیث کی سند کو بیان کرنے والے وہی محمد بن اسحاق راوی ہیں جنہوں نے امام کی اقتدا میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کی حدیث بیان کی تو معاصرین علمائے احناف نے ان کو غیر معتبر ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور صفحات پر صفحات سیاہ کیے ہیں۔
مثلاً مولانا سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
محدثین اور ارباب جرح و تعدیل کا تقریباً پچانوے فیصد گروہ اس بات پر متفق ہے کہ روایت حدیث میں اور خاص طور پر سنن اور احکام میں ان کی روایات کسی طرح بھی حجت نہیں ہوسکتیں اور اس لحاظ سے ان کی روایات کا وجود اور عدم بالکل برابر ہے۔ (احسن الکلام : 77/2)
نیز لکھتے ہیں :
حافظ ابن حجر نے نہایت ضعیف اور رکیک تاویلیں کرنے کی بے جاسعی کی ہے تا کہ ابن اسحاق کو قابل اعتبار بنانے کی کوشش کامیاب ہو سکے … مگر یہ سب کوشش بے کار اور کالعدم ہے۔ (احسن الکلام : 80/2)
اب انصاف کی اپیل قارئین کرام سے کی جاتی ہے، وہ ملاحظہ فرمائیں کہ کہاں ان کی روایت کا وجود اور عدم بالکل برابر اور وہ بالکل نا قابل اعتبار ، خصوصا سنن اور احکام میں ناقابل حجت ہیں اور کہاں ان کی روایت سے صرف استدلال ہی نہیں کیا جا رہا بلکہ سب سے پہلی دلیل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
کیا انصاف پسندی اس کا نام ہے کہ امام کی اقتدا میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے اثبات میں جب محمد بن اسحاق کی حدیث آئے تو اسے کذاب، دجال اور نا قابل اعتبار ثابت کرنے کی کوشش کی جائے لیکن جب وہی محمد بن اسحاق جب نماز جنازہ میں میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرنے کی حدیث بیان کریں تو وہاں ان کو سینے سے لگا لیا جائے حالانکہ باعتراف احناف بھی اس حدیث سے سورۃ فاتحہ کی ممانعت ثابت نہیں ہوتی؟

◈ اسلاف امت کا فہم

● خیر القرون کے کسی محدث یا فقیہ نے اس حدیث سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کی ممانعت ثابت نہیں کی۔ اگر اس کی یہی مراد ہوتی تو خیر القرون کے محدثین وفقہائے کرام کو ضرور معلوم ہوتا۔
محدثین اور فقہائے کرام نے تو اس حدیث کو بطور دلیل پیش کرنے والوں کا سختی سے رد کیا ہے، جیسا کہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (456 ھ ) لکھتے ہیں :
إنه ليس فى إخلاص الدعاء للميت نهي عن القرائة، ونحن نخلص له الدعاء ونقرأ كما أمرنا .
یہ یقینی بات ہے کہ میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرنے کے حکم میں قراءت سے ممانعت نہیں ہوتی۔ ہم میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا بھی کرتے ہیں اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) ہمیں جو حکم دیا گیا ہے، اس کے مطابق قراءت بھی کرتے ہیں۔(المحلی : 130/5)
● اگر سورۃ فاتحہ کو اس لیے چھوڑا جا رہا ہے کہ اس میں میت کے لیے دعا نہیں تو پھر حنفی لوگ درود شریف سے بھی منع کیا کریں کہ اس میں بھی میت کے لیے کوئی دعا نہیں۔ نیز ہمارا سوال ہے کہ ان کی خود ساختہ جل ثنائك والی ثناء میں میت کے لیے کون سی دعا ہے؟ وہ میت کے لیے دعا نہ ہونے کے ساتھ ساتھ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت بھی نہیں ہے۔ وہ اسے کیوں اپنائے ہوئے ہیں؟
یہ تھی دیوبندی اور حنفی بھائیوں کی سب سے بڑی دلیل جو ان کے خیال میں نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت سے منع کرتی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ ان کے پاس کوئی صحیح و صریح حدیث نہیں ہے جس سے وہ ثابت کر سکیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتے تھے یا اس سے منع کرتے تھے۔ اگر کوئی ایسی دلیل ہوتی تو وہ یقیناً اس حدیث کو کبھی پیش نہ کرتے جو خود ان کے محققین کے ہاں بھی اس مسئلے میں ان کی دلیل نہیں بنتی۔

② سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور جنازہ میں قراءت !

نافع تابعی بیان کرتے ہیں :
إن عبد الله بن عمر كان لا يقرأ فى الصلاة على الجنازة .
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز جنازہ میں قراءت نہیں کرتے تھے۔
(الموطا للإمام مالك : 228/1 ، الرقم : 537 ، وسنده صحيح)
اس روایت کو تقریباً تمام حنفی علماء نے اپنی کتب میں نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی ممانعت کے لیے بڑی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
تجزیہ
● سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس ذاتی فعل میں نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ سے ممانعت کی کوئی بات نہیں۔ صرف اتنی بات ہے کہ آپ نماز جنازہ میں قراءت نہیں کرتے تھے۔ نماز جنازہ میں دو قسم کی قراءت کی جاتی ہے۔ ایک قراءت سورۃ فاتحہ کی اور دوسری سورۃ فاتحہ کے علاوہ کسی اور سورت کی ۔ ہم دلائل شرعیہ کی روشنی سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ اگر سورۃ فاتحہ کے علاوہ کوئی قراءت نہ بھی کی جائے تو نماز جنازہ ادا ہو جائے گی۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کون سی قراءت چھوڑتے تھے ؟ حنفی بھائی آج تک یہ ثابت نہیں کر سکے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سورۃ فاتحہ کی قراءت چھوڑتے تھے۔ ممکن ہے کہ وہ آہستہ قراءت کرتے ہوں۔

◈ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کا قول فیصل

پانچویں صدی ہجری میں حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا:
وقالوا : … وعن ابن عمر أنه كان لا يقرأ فى صلاة الجنازة، فقلنا : ليس عن واحد من هؤلاء أنه قال : لا يقرأ فيها بأم القرآن، ونعم نحن نقول : لا يقرأ فيها بشيء من القرآن إلا بأم القرآن، فلا يصح خلاف بين هؤلاء وبين من صرح بقرائة القرآن من الصحابة رضي الله عنهم…. فبطل أن يكون لهم به متعلق .
ان (مانعین فاتحہ ) کا کہنا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، آپ نماز جنازہ میں قراءت نہیں کرتے تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ کسی ایک صحابی سے بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت نہ کرتے ہوں۔ یہ تو ہم بھی کہتے ہیں کہ نماز جنازہ میں قرآن کی قراءت نہیں کی جائے گی سوائے سورۃ فاتحہ کے۔ لہذا اس روایت کو بنیاد بنا کر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ان صحابہ کے درمیان اختلاف نہیں بنایا جائے گا جنہوں نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کو واضح طور پر بیان کیا ہے . یوں اس روایت سے ان لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ (المحلی : 131/5)
جناب اوکاڑوی صاحب نے اس روایت کا ترجمہ کرتے ہوئے اپنی طرف سے فاتحہ کا لفظ بڑھا دیا ہے۔ حالانکہ اس روایت میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس کا معنی فاتحہ ہو۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک بھی اوکاڑوی صاحب کی یہ حرکت درست نہیں۔
● اگر یہ فرض کر بھی لیا جائے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سورۃ فاتحہ کی قراءت چھوڑتے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ کرام کے مقابلے میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بات کا اعتبار نہیں ہو گا۔ اسی بات کو حافظ ابن حزم رحمہ اللہ یوں بیان کرتے ہیں:
فكيف، ولو صح عنهم فى ذلك خلاف؛ لوجب الرد عند تنازعهم إلى ما أمر الله تعالى بالرجوع إليه من القرآن والسنة، وقد قال عليه السلام : لا صلاة لمن لم يقرأ بأم القرآن
کیسے (سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی اس روایت سے جنازہ میں فاتحہ کے ترک پر استدلال ہو سکتا ہے) حالانکہ اگر اس بارے میں صحابہ کرام کے درمیان کوئی اختلاف ثابت ہو بھی جائے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صحابہ کرام کے اختلاف کو قرآن وسنت کی میزان پر پیش کیا جائے گا۔ اور اس مسئلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ جس شخص نے سورۃ فاتحہ کی قراءت نہیں کی ، اس کی کوئی نماز نہیں۔ (المحلی : 131/5)

◈ رفع الیدین سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا صریح عمل

● سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگرد رشید نافع تابعی بیان کرتے ہیں:
إن ابن عمر كان إذا دخل فى الصلاة؛ كبر ورفع يديه، وإذا ركع؛ رفع يديه، وإذا قال : سمع الله لمن حمده؛ رفع يديه، وإذا قام من الركعتين؛ رفع يديه، ورفع ذلك ابن عمر إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز شروع کرتے تو تکبیر کہتے اور رفع الیدین کرتے ۔ جب رکوع جاتے تو رفع الیدین کرتے ۔ جب سمع الله لمن حمده کہتے تو رفع الیدین کرتے اور جب دو رکعتوں کے بعد اٹھتے تو رفع الیدین کرتے اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس عمل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل قرار دیا۔(صحیح البخاري : 739)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا رفع الیدین کرنا اور اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار دینا اس بات کی روشن دلیل ہے کہ نماز میں رکوع جاتے ، رکوع سے سر اٹھاتے اور تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا، بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات اس پر عمل درآمد کیا ہے۔ ہمارے حنفی بھائی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت سے روکنے کے لیے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا عمل تو پیش کرتے ہیں، حالانکہ اس میں سورۃ فاتحہ کی بات ہی نہیں لیکن کیا وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے رفع الیدین والے اس واضح عمل کو اپنانے کے لیے تیار ہوں گے؟ اگر نہیں تو وہ خود فیصلہ کریں کہ ان کے لینے اور دینے کے باٹ جدا جدا کیوں ہیں؟

◈ کیا دیگر صحابہ کا عمل قابل قبول نہیں؟

● ہم باب دوم کی فصل اول میں سیدنا عبد اللہ بن عباس ، سیدنا ابو امامہ بن سہل ، سیدنا سہل بن حنیف اور سیدنا حبیب بن مسلمہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت بالکل صحیح سند سے ثابت کر چکے ہیں۔ اگر حنفی بھائیوں کے ہاں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا ایسا عمل دلیل ہے جس میں سورۃ فاتحہ کا ذکر تک نہیں تو مذکورہ کئی صحابہ کرام کا واضح طور پر نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کرنا ان کے لیے دلیل کیوں نہیں؟ دینی معاملات میں یہ دوہرا معیار کیوں؟

③ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا عمل جس میں سورۃ فاتحہ کا ذکر نہیں!

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ آپ نماز جنازہ کیسے ادا کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے فرمایا :
أنا لعمر الله أخبرك، أتبعها من أهلها، فإذا وضعت؛ كبرت وحمدت الله وصليت على نبيه، ثم أقول : اللهم إنه عبدك .
اللہ کی قسم میں تمہیں ضرور بتاتا ہوں۔ میں جنازے والے گھر سے ہی جنازے کے ساتھ ہو لیتا ہوں۔ جب جنازہ (نماز کے لیے ) رکھا جاتا ہے تو میں تکبیر کہہ کر حمد و ثناء کرتا ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہوں۔ پھر میں یہ دعا پڑھتا ہوں : اللهم إنه عبدك (الموطا للإمام مالك : 228/1 ، الرقم : 535)
اس روایت سے بہت سے علمائے احناف نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت نہ کرنے کی دلیل لی ہے۔
تجزیہ
● اس روایت میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت سے نہ تو منع فرمایا ہے نہ خود اس سے رکے ہیں۔اس کے برعکس اس روایت میں ان کے حمد و ثناء کرنے کا ذکر ہے۔ سورۃ فاتحہ اللہ تعالیٰ کی حمد بھی ہے اور ثناء بھی۔ یہ بات ہماری ساخته و پرداختہ نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :
فإذا قال العبد : الحمد لله رب العالمين ، قال الله تعالى : حمدني عبدي، وإذا قال: الرحمن الرحيم، قال الله تعالى : أثنى على عبدي
جب بندہ (نماز میں) کہتا ہے کہ الحمد لله رب العالمين تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد کی ہے اور جب بندہ الرحمن الرحيم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثناء کی ہے۔ (صحیح مسلم : 395/38)
اگر کوئی حنفی بھائی کہے کہ حمد و ثناء سے سبحانك الله مراد ہے تو عرض ہے کہ نماز جنازہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی سے یہ ثناء پڑھنا ثابت نہیں۔سیدنا ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہ نے جب نماز جنازہ کا مسنون طریقہ بیان کیا تو پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ کا ہی ذکر کیا ہے۔
تفصیلی طور پر یہ بات فصل سوم میں بیان ہو چکی ہے۔

◈ عدم ذکر ، عدم وجود کی دلیل نہیں ہوتا

● اگر کوئی حنفی بھائی یہ کہے کہ اس روایت میں صریح طور پر تو سورۃ فاتحہ کے لفظ نہیں ہیں، تو ہم اس سے گزارش کریں گے کہ معروف فقہی قاعدہ ہے کہ عدم ذکر عدم وجود کی دلیل نہیں بنتا۔ اسی روایت کو لے لیں تو اس میں تو صرف پہلی تکبیر کا ذکر ہے۔ دوسری ، تیسری اور چوتھی تکبیر کا بھی ذکر نہیں۔ نیز اس روایت میں سلام پھیرنے کا بھی تذکرہ نہیں ملتا۔ اگر صریح طور پر سورۃ فاتحہ کا ذکر نہ ہونے سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے تو پھر باقی تکبیروں اور سلام سے بھی احناف کو رک جانا چاہیے، حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا کہ اس روایت میں احناف کی کوئی دلیل نہیں۔ حافظ ابنِ حزم رحمہ اللہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
وقالوا : قد روي عن أبى هريرة أنه سئل عن الصلاة على الجنازة، فذكر دعاء، ولم يذكر قراءة، وأبو هريرة لم يذكر تكبيرا ولا تسليما، فبطل أن يكون لهم به متعلق
ان کا کہنا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ان سے نماز جنازہ کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے دعا کا ذکر کیا، قراءت کا نہیں … سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے تو ( پہلی کے علاوہ ) کسی تکبیر اور سلام کا بھی ذکر نہیں کیا۔ معلوم ہوا کہ ان کا اس روایت سے استدلال باطل ہے۔(المحلی : 131/5)

◈ مقتدی کی قراءت ؛ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت عمل

● سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا : ہم امام کی اقتدا میں نماز ادا کر رہے ہوں تو کیا سورۃ فاتحہ پڑھیں گے؟ انہوں نے فرمایا:
اقرأ بها فى نفسك، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : قال الله تعالى.
اپنے دل میں اس کی قراءت کرو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔۔ (صحیح مسلم : 395/38)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ سے منع کرنا یا چھوڑنا تو ثابت نہیں ہوا لیکن کیا کوئی حنفی بھائی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس صحیح و صریح فتوے پر عمل کرے گا ؟

④ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور جنازہ میں فاتحہ

جناب انوار خورشید صاحب نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث بھی اپنے استدلال میں پیش کی ہے جسے ہم باب اول کی فصل دوم میں اپنی دوسری بڑی دلیل کے طور پر پیش کر چکے ہیں۔ ہمارے دلائل ہمارے خلاف پیش کرنا اس بات کی بہت واضح دلیل ہے کہ اس مسئلے میں احناف کا دامن دلائل سے بالکل خالی ہے۔اس حدیث کو انوار صاحب کا اپنی دلیل کے طور پر پیش کرنا کس حد تک انصاف پر مبنی ہے؟ یہ فیصلہ تو قارئین کرام باب اول کی فصل دوم کا مطالعہ کرنے سے خود ہی کر لیں گے،البتہ یہاں مختصراً کچھ تبصرہ کریں گے۔ جناب انوار صاحب لکھتے ہیں :
حضرت طلحہ بن عبد اللہ کا آپ سے اس طرح سوال کرنا بتلا رہا ہے کہ ان کے نزدیک یہ ایک نئی اور عجیب بات تھی جو رواج کے بالکل خلاف تھی جس کا بالکل اتہ پتہ نہ تھا۔ ( حدیث اور اہل حدیث ، ص : 873)
تجزیہ
● جناب انوار صاحب کی خدمت میں خصوصاً اور دوسرے دیوبندی بھائیوں کی خدمت میں عموماً عرض ہے کہ :

◈ ہر سوال عدم علم کی بنا پرنہیں ہوتا

ہر سوال تعجب اور عدم علم کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ کئی اور مقاصد کے لیے بھی سوال کیا جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں اس تعجب والے معنی کی ایجاد کا سہرا جناب احمد یار خان نعیمی گجراتی بریلوی صاحب کے سر ہے۔ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
آپ کے سورۃ فاتحہ پڑھنے پر سارے حاضرین صحابہ و تابعین کو سخت تعجب ہوا تب ہی آپ نے معذرت کے طور پر کہا کہ میں نے یہ عمل اس لیے کیا کہ تم جان لو یہ سنت ہے۔ پتہ چلا کہ صحابہ کرام نہ تو پڑھتے تھے اور نہ اسے سنت جانتے تھے اس لیے آپ کو یہ معذرت کرنا پڑی ۔۔ (جاء الحق، حصہ دوم ص : 242)
اپنی تائید میں ہونے کی وجہ سے جناب انوار خورشید اور جناب اوکاڑوی صاحبان نے اسلاف امت کے خلاف اس عجیب و غریب معنی کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔
علم بلاغت اور علم حدیث سے اگر ان حضرات کو کوئی مس ہوتا تو وہ قطعاً ایسی بات نہ کرتے ۔ حدیث کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ بعض اوقات سائل کو متعلقہ مسئلہ کے بارے میں مکمل علم ہوتا ہے، وہ سوال صرف اس لیے کرتا ہے کہ جواب سن کر دوسرے لوگوں کو بھی اس کا علم ہو جائے جیسا کہ حدیث جبریل میں جبریل امین علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان، اسلام اور احسان کے متعلق سوال کیا تھا۔ اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ جبریل علیہ السلام کا یہ سوال اس لیے نہیں تھا کہ ان کو ایمان ، اسلام اور احسان کے بارے میں علم نہ تھا یا وہ تعجب کا شکار تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوالات کا مقصد ان کے جانے کے بعد یوں بیان کیا تھا:
هذا جبريل جاء يعلم الناس دينهم .
یہ جبریل علیہ السلام تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔
(صحيح البخاري : 50)
لہذا محض طلحہ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کے سوال کی بنا پر نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کا انکار کرنا ہٹ دھرمی ہے۔ کیا جناب انوار صاحب کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ جواب نظر نہیں آیا :
إنها سنة .
یہ سنت ہے۔ (صحيح البخاري : 1335)

◈ فقہ حنفی اور خیر القرون کا عمل

● نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام اور تابعین سے ثابت ہے۔ جسے شبہ ہو وہ باب اول کی فصل ششم کا دوبارہ مطالعہ کر لے۔ پھر انوار صاحب کا یہ کہنا کہ اس کا کوئی اتہ پتہ نہ تھا، انتہائی نامناسب بات ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر ہم ان سے عرض کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کے کتنے ہی ایسے مسائل ہیں جن کا خیر القرون میں کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔ بانیان فقہ حنفی سے پہلے دنیا کے کسی مسلمان کو ان باتوں کا خواب بھی نہ آیا تھا۔ اس کے باوجود وہ قرآن وسنت کا نچوڑ ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ و تابعین کے معمول یہ کام کو اتہ پتہ نہ ہونے کا غلط لیبل لگا کر رد کیا جا رہا ہے۔ آئیے اس کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : غزوہ احد کے دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جہاد کی اجازت کے لیے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غزوے میں شرکت کی اجازت نہیں دی۔ پھر غزوہ خندق کے موقع پر مجھے پیش کیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔ اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔
اس حدیث کے راوی امام نافع رحمہ اللہ بتاتے ہیں کہ میں خلیفہ راشد سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے پاس تھا۔ میں نے ان کی یہی حدیث بیان کی تو انہوں نے فرمایا : یہ ( پندرہ سال کی عمر ) بالغ اور نابالغ کے درمیان حد ہے۔ (صحيح البخاري : 2664 ، صحیح مسلم : 1868)
اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والعمل على هذا عند أهل العلم، وبه يقول سفيان التوري وابن المبارك والشافعي وأحمد وإسحاق، يرون أن الغلام إذا استكمل خمس عشرة سنة؛ فحكمه حكم الرجال، وإن احتلم قبل خمس عشرة، فحكمه حكم الرجال
اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ امام سفیان ثوری، امام عبد اللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ اسی کے مطابق فتوی دیتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ بچہ جب پندرہ سال مکمل کر لے تو اس کا حکم مردوں کا ہوتا ہے۔ اگر پندرہ سال سے پہلے اسے احتلام ہو جائے تو بھی اس کا حکم مردوں کا ہو جاتا ہے۔
(جامع الترمذي، تحت الحديث : 1361)
اس حدیث اور محدثین کرام کے اس پر تبصرے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی نشانی ظاہر نہ بھی ہو تو پندرہ سال کی عمر میں بچہ بالغ ہو جاتا ہے اور اس پر مردوں والے احکام لاغو ہو جاتے ہیں۔ یہ امت مسلمہ کا اتفاقی فیصلہ تھا لیکن احناف نے اس کی مخالفت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے یہ فتوی نقل کیا ہے کہ لڑکے کی عمر بلوغت اٹھارہ سال اور لڑکی کی عمر بلوغت سترہ سال ہے۔
(بدائع الصنائع : 172/7، فتح القدير : 270/1 ، فتاوی عالمگیری : 61/5)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابن منذر رحمہ اللہ (242-319ھ) فرماتے ہیں :
وكان النعمان يقول : حد بلوغ الغلام ثماني عشرة سنة، والجارية سبع عشرة سنة، وهذا خلاف ما ذكرنا من السنن الثابتة وقول من ذكرنا من أهل العلم، ولا نعلم أحدا سبقه إلى هذا القول، وليس له فيما قال حجة .
نعمان (امام ابو حنیفہ) کہتے تھے کہ لڑکے کی عمر بلوغت اٹھارہ سال ہے اور لڑکی کی سترہ سال۔ ان کی یہ بات ہماری ذکر کردہ صحیح و ثابت احادیث اور اہل علم کے اقوال کے خلاف ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ امام صاحب سے پہلے کسی نے یہ بات کہی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کے پاس اس بارے میں کوئی دلیل بھی نہیں۔
(الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف : 389/4)
اب انوار صاحب بتائیں کہ امام صاحب کے اس قول کا بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام کے دور میں کوئی اتہ پتہ تھا؟ اگر تھا تو اس کی سند پیش فرمائیں۔
قارئین ہی فیصلہ فرمائیں کہ ایک طرف تو سنت رسول اور معمول صحابہ کو لا پتہ قرار دے کر رد کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف اندھی تقلید میں ایسا قول بھی قابل تعظیم سمجھے لیا گیا ہے جس کی نہ قرآن وسنت میں کوئی دلیل ہے نہ صحابہ و تابعین میں سے کسی نے یہ فتویٰ دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس حدیث پر انوار صاحب کا اعتراض محض بھولی بھالی حنفی عوام کو طفل تسلیاں دینے کے لیے ہے، ورنہ وہ اپنے امام کے اس قول پر بھی لاپتہ ہونے کا فتویٰ لگاتے ہوئے دیوار پر دے ماریں اور کتاب وسنت کا اتباع قبول کر کے تقلید کے گرداب سے باہر آجائیں۔
اس سلسلے میں مزید تفصیل کے لیے باب اول کی فصل دوم کا مطالعہ فرمائیں۔

⑤ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منسوب ضعیف روایت

جناب انوار صاحب لکھتے ہیں :
عن على أنه كان إذا صلى على ميت يبدأ بحمد الله ويصلي على النبى صلى الله عليه وسلم، ثم يقول : اللهم اغفر لأحيائنا وأمواتنا، وألف بين قلوبنا، وأصلح ذات بيننا، واجعل قلوبنا على قلوب خيارنا (مصنف ابن أبي شيبة : 295/3)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ جب کسی میت کی نماز جنازہ پڑھاتے تو اللہ کی حمد و ثناء سے ابتدا کرتے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتے۔ پھر یہ دعا مانگتے : اللهم اغفر لأحيائنا وأمواتنا، وألف بين قلوبنا، وأصلح ذات بيننا، واجعل قلوبنا على قلوب خيارنا
(حدیث اور اہل حدیث ، ص : 864 )
تجزیہ
● اس کی سند ضعیف ہے کیونکہ مسیب بن رافع کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں لہذا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف اس بات کی نسبت ہی درست نہیں۔

◈ فاتحہ میں حمد و ثناء ہی تو ہے

● اس بے ثبوت روایت کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ کا آغاز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء سے کرتے تھے اور ہم گزشتہ صفحات میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ سورہ فاتحہ کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی حمد بھی کہا ہے اور ثناء بھی قرار دیا ہے۔ اس روایت سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی ممانعت کا استدلال اس مسئلے میں احناف کی انتہائی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔

◈ عدم ذکر، عدم وجود کو مستلزم نہیں ہوتا

● اگر اس روایت میں محض سورہ فاتحہ کے ذکر نہ ہونے سے جنازہ میں فاتحہ کی ممانعت ثابت ہو جاتی ہے تو پھر اس میں کسی تکبیر اور سلام کا بھی ذکر نہیں۔ کیا دیوبندی اور حنفی بھائی نماز جنازہ میں تکبیروں اور سلام کو بھی ممنوع قرار دے دیں گے؟ اگر نہیں تو فاتحہ سے اتنی عداوت کیوں؟

◈ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور فقہ حنفی

● سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی ممانعت تو ثابت نہیں ہو سکی البتہ اُن کا یہ فرمان بلاشبہ ثابت ہے:
الأيم امرأة نكحت بغير إذن وليها، فنكاحها باطل، لا نكاح إلا بإذن ولي .
جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح کالعدم ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔
(السنن الكبرى للبيهقي: 111/7، وسنده صحيح)
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
هذا إسناد صحيح .
یہ سند صحیح ہے۔
اس کے برعکس فقہ حنفی کا” مفتی بہ“ قول یہ ہے کہ بالغ لڑکی اپنا نکاح خود کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اسے اپنے اولیاء سے اجازت حاصل کرنا ضروری اور لازم نہیں۔ (البحر الرائق لابن نجيم الحنفي: 117/3، بدائع الصنائع للكاساني: 247/2)
فقہ حنفی کے اس انمول فتوے سے فائدہ اُٹھا کر کتنی ہی لڑکیاں اپنے والدین اور خاندان کی عزت داغدار کر کے عدالت میں نکاح کر چکی ہیں۔ اگر لڑکیوں کے والدین ایسے معاملے میں عدالت سے رجوع کرتے ہیں تو فقہ حنفی مفرور لڑکیوں کو پورا پورا تحفظ فراہم کرتی ہے۔ کیا ہمارے دیوبندی اور حنفی بھائی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے اس صحیح و ثابت فتوے کو سینے سے لگا کر معاشرے سے اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے تیار ہوں گے؟ اگر وہ تیار نہیں تو وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ”ضعیف“ روایات کو ہمارے خلاف کیوں پیش کرتے ہیں؟ اللہ تعالٰی ہمیں حق کو قبول کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔

⑥ شعبی رحمہ اللہ سے منسوب ضعیف روایت

جناب انوار خورشید صاحب لکھتے ہیں:
عن الشعبي قال: فى التكبيرة الأولى يبدأ بحمد الله والثناء عليه، والثانية صلاة على النبى صلى الله عليه وسلم، والثالثة دعاء للميت، والرابعة للتسليم (مصنف ابن أبي شيبة: 295/3، مصنف عبد الرزاق: 491/3)
حضرت امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نماز جنازہ میں پہلی تکبیر میں اللہ کی حمد و ثناء سے ابتدا کرے، دوسری تکبیر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے، تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دُعا کرے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرے۔( حدیث اور اہلحدیث، ص: 865,864)
تجزیہ
● امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف اس بات کی نسبت درست نہیں کیونکہ ایک تو اس کی سند میں اشعث بن سوار راوی موجود ہے جو جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔ دوسرے حفص بن غیاث نامی راوی مدلس بھی ہیں۔ انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔
● اس ضعیف روایت میں بھی جنازہ میں فاتحہ سے کوئی ممانعت نہیں بلکہ اس میں تو پہلی تکبیر کے بعد حمد و ثناء کا ذکر ہے اور سورہ فاتحہ خود اللہ تعالٰی کے فرمان کے مطابق اللہ کی حمد بھی ہے اور ثناء بھی۔

◈ شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا ثابت عمل… امام کے پیچھے قراءت

● امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے جنازے میں فاتحہ کی ممانعت تو ثابت نہیں ہو سکی البتہ امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اُن کے بارے میں یہ بات بھی بیان کی ہے:
حدثنا وكيع، قال: حدثنا مالك بن مغول، قال: سمعت الشعبي يحسن القراءة خلف الإمام
ہمیں امام وکیع رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا اور کہا: ہمیں مالک بن مغول رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا اور کہا: میں نے امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کو سنا۔ آپ امام کی اقتدا میں قراءت کو بہت اچھا کام خیال کرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 375/1، وسنده صحيح)
کیا حنفی و دیو بندی بھائی امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کی اس ثابت بات پر عمل پیرا ہوں گے؟

◈ جنازہ میں عام قراءت سے روکنے والی ضعیف روایات

جو لوگ نماز جنازہ میں قراءت سے منع کرتے ہیں ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو کجا کسی صحابی یا تابعی سے بھی کوئی ایسی بات نہیں ملتی جس سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت ممنوع ثابت ہوتی ہو۔ البتہ وہ کچھ صحابہ و تابعین کے ”ضعیف“ اور عمومی آثار پیش کرتے ہیں جن میں یا تو سرے سے قراءت کی بات ہی نہیں یا پھر نماز جنازہ میں عام قراءت کی بات ہے حالانکہ اصل نزاع نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے بارے میں ہے، عام قراءت کے بارے میں نہیں۔ اگر چہ ان دلائل سے بحث کرنا خلط مبحث ہے لیکن ہم ان کا بھی تجزیہ کریں گے تاکہ قارئین کو معلوم ہو کہ ایک تو یہ دلائل اس مسئلے سے تعلق نہیں رکھتے، دوسرے ان کی استنادی حیثیت بھی اس پائے کی نہیں کہ ان سے استدلال کیا جا سکے۔ آئیے ملاحظہ فرمائیں:

⑦ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کی عام قراءت سے متعلق روایت

جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
عن موسى بن علي، عن أبيه، قال: قلت لفضالة بن عبيد: هل يقرأ على الميت بشيء؟ قال: لا (مصنف ابن أبي شيبة: 299/3)
حضرت موسیٰ بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فضالہ بن عبید سے دریافت کیا کہ میت پر نماز جنازہ میں قراءت کی جاتی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ (حدیث اور اہل حدیث، ص: 867)
تجزيہ
● اس روایت میں سورہ فاتحہ کی ممانعت تو کجا نماز جنازہ ہی کا ذکر تک نہیں۔ اس میں تو میت کے پاس کھڑے ہو کر قرآنِ کریم کی کوئی قراءت کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو صحابی رسول نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب نے خوامخواہ اس روایت کا ترجمہ کرتے ہوئے اس میں نماز جنازہ کا لفظ گھسیڑ دیا ہے، حالانکہ اس روایت میں ایسی کوئی بات نہیں۔
ہم پہلے باب میں بیان کر چکے ہیں کہ نماز جنازہ ایک مستقل نماز ہے، سورہ فاتحہ کو بھی اللہ تعالٰی نے نماز کہا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث ہے کہ اس کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔ نیز نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ ایسے صریح دلائل کے مقابلے میں اس طرح کی مبہم روایات پیش کرنا کوئی انصاف نہیں۔

◈ صحابہ کرام کا صریح عمل کیوں قبول نہیں؟

اگر کسی صحابی کے قول و فعل پر ہی اعتماد کرنا ہے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا ابوامامہ بن سہل رضی اللہ عنہما، سیدنا حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کیوں اعتماد نہیں کیا گیا جنہوں نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کو اپنے قول یا فعل سے ثابت کیا ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہما نے تو اسے صریحاً سنت بھی قرار دیا ہے؟ کیا یہ انصاف ہے کہ کئی صحابہ کرام اگر نماز جنازہ میں خاص سورہ فاتحہ کا نام بھی لیں اور اسے قولاً یا فعلاً سنت بھی کہیں تو ان پر اعتماد نہ کیا جائے اور سورۂ فاتحہ کو سنت قرار نہ دیا جائے لیکن اگر ایک صحابی کسی میت کے پاس کھڑے ہو کر عمومی قراءت کی نفی کرے تو اس پر بھر پور اعتماد کرتے ہوئے اسے نماز جنازہ میں خاص سورہ فاتحہ کی ممانعت کی دلیل بنالیا جائے؟

⑧ امام شعبی سے منسوب ایک اور ضعیف روایت!

جناب انوار صاحب مزید لکھتے ہیں:
عن عبد الله بن إياس، عن إبراهيم، وعن أبى الحصين، عن الشعبي قالا: ليس فى الجنازة قراءة (مصنف ابن أبي شيبة: 299/3)
ابراہیم نخعی اور امام شعبی فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں قراءت نہیں۔ (حدیث اور اہلحدیث، ص: 865)
تجزیہ
● یہ روایت بھی امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ اور ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں کیونکہ عبداللہ بن ایاس راوی کی توثیق معلوم نہیں ہو سکی۔
● اس غیر ثابت شدہ روایت میں بھی جنازے میں فاتحہ کی ممانعت کی کوئی بات نہیں بلکہ مطلق قراءت کی بات ہے۔ فاتحہ کے علاوہ جنازے میں کسی قراءت کو ہم بھی فرض نہیں کہتے۔
● رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واضح سنت، صحابہ کرام کے اقوال و افعال اور تابعین و اسلاف کے عملی تواتر کے خلاف اس طرح کی ”ضعیف“ اور مبہم روایات بھلا لائق حجت کیسے بن سکتی ہیں؟

⑨ امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق ضعیف روایت!

جناب محمد امین اوکاڑوی صاحب وغیرہ نے یہ دلیل بھی پیش کی ہے:
باب دلائل احناف کا منصفانہ تجزیہ
عن حجاج، قال: سألت عطاء عن القراءة على الجنازة، فقال: ما سمعنا بهذا . (مصنف ابن أبي شيبة: 299/3)
حجاج بن ارطاۃ کہتے ہیں کہ میں نے امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے جنازے پر قراءت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ہم نے اس بارے میں نہیں سنا۔ (مجموعہ رسائل: 255/1)
تجزیہ
● یہ بات امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں کیونکہ ایک تو اس کی سند میں حفص بن غیاث راوی مدلس ہیں، انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ دوسرے حجاج بن ارطاۃ راوی ضعیف اور مختلط ہے۔ اس روایت سے استدلال کرنا اوکاڑوی صاحب اور ان کے ہم نواؤں کا ہی حوصلہ ہے۔
● زیر بحث مسئلہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کے بارے میں ہے نہ کہ عام قراءت کے بارے میں سورۃ فاتحہ تو بقول رب العالمین نماز ہے اور بقولِ رحمۃ للعالمین اس کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی، جبکہ عام قراءت قرآن وسنت کی رُو سے نہ نماز ہے نہ نماز کے لیے شرط صحت۔

◈ امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ اور فقہ حنفی

● امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کی ممانعت تو ثابت نہیں ہو سکی البتہ اُن کا یہ فتوئی صحیح ثابت ہے کہ نماز میں ہنسنے والے شخص کی نماز تو ٹوٹتی ہے وضو نہیں ٹوٹتا۔ (مصنف ابن أبي شيبة: 387/1، وسنده صحيح)
امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت میں بغیر دلیل کے فقہ حنفی کا فتویٰ ہے کہ نماز میں ہنسنے سے نماز بھی ٹوٹتی ہے اور وضو بھی۔ کیا دیو بندی اور حنفی بھائی امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کے اس فتوے کو تسلیم کریں گے جو کہ قرآن وسنت کے عین موافق بھی ہے اور ان سے صحیح ثابت بھی ہے؟

◈ امام عطاء رحمۃ اللہ علیہ اور اوکاڑوی صاحب کی تضاد بیانی

جناب اوکاڑوی صاحب نماز میں اونچی آواز سے آمین کہنے کے بارے میں ایک خود ساختہ و جعلی مناظرہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
(اہل حدیث) کہنے لگا: عطاء نے دو سو صحابہ کو آمین کہتے دیکھا۔ میں اوکاڑوی) نے کہا: سرے سے یہ ہی ثابت نہیں کہ عطاء کی ملاقات دوسو صحابہ سے ہوئی ہو۔ (مجموعہ رسائل: 140/1)
لیکن جب نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے بارے میں اپنے موقف کے مطابق اوکاڑوی صاحب کو ایک ضعیف روایت مل گئی تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کا مصداق بنتے ہوئے وہ کہنے لگے:
مکہ مکرمہ بھی اسلام اور مسلمانوں کا مرکز ہے۔ حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ یہاں کے مفتی ہیں۔ دو سو صحابہ کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہے۔ خود جلیل القدر تابعی ہیں اور آپ کے شاگرد تبع تابعین ہیں۔ پورا خیر القرون ان کی نظر میں ہے۔ (مجموعہ رسائل: 255/1)
سبحان اللہ! یہ ہے اوکاڑوی صاحب کی انصاف پسندی کہ اپنے خلاف کوئی بات آئے تو عطاء رحمۃ اللہ علیہ کی دو سو صحابہ سے ملاقات سرے سے ہی ثابت نہ ہو لیکن اسی کتاب میں صرف چند صفحات بعد جب اپنے موافق ضعیف روایت بھی مل جائے تو فوراً عطاء رحمۃ اللہ علیہ کو دو سو صحابہ کرام سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جائے۔ اب فیصلہ دیو بندی بھائیوں کے ہاتھ میں ہے، وہ بتائیں کہ کیا یہ تعصب مذہبی اور تضاد بیانی نہیں؟ کیا اسے دین اسلام کی خدمت کا نام دیا جا سکتا ہے؟

⑩ طاؤس اور عطاء رحمۃ اللہ علیہما سے متعلق ضعیف روایت

جناب انوار خورشید صاحب لکھتے ہیں:
عن ابن طاوس، عن أبيه وعطاء أنهما ينكران القراءة على الجنازة (مصنف ابن أبي شيبة: 299/3)
حضرت ابن طاؤس اپنے والد طاؤس اور حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت کرتے ہیں کہ یہ دونوں بزرگ نماز جنازہ میں قراءت کا انکار کرتے تھے۔ (حدیث اور اہلحدیث، ص: 866,865)
تجزیہ
● یہ بات امام طاؤس اور عطاء بن ابی رباح سے ثابت نہیں کیونکہ اس کی سند میں زمعہ بن صالح راوی ضعیف ہے۔
● گزشتہ صفحات میں ہمارے دیو بندی بھائی یہ جان چکے ہیں کہ وہ امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کی وہ بات نہیں مانتے جو اُن سے صحیح ثابت ہوتی ہے۔ اس کی مثال بھی ہم عرض کر چکے ہیں۔ پھر اُن کی طرف منسوب ”ضعیف“ اور مبہم روایات کو ہمارے خلاف پیش کرنے سے بھلا کیا فائدہ ہوگا؟

⑪ بکر بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی ضعیف روایت!

جناب انوار خورشید صاحب لکھتے ہیں:
عن بكر بن عبد الله، قال: لا أعلم فيها قراءة . ( مصنف ابن أبي شيبة: 299/3)
حضرت بکر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نماز جنازہ میں قراءت کو نہیں جانتا۔ (حدیث اور اہلحدیث، ص: 866)
تجزیہ
● یہ بات بکر بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت نہیں کیونکہ ان سے بیان کرنے والے راوی اسحاق بن سوید کا اُن سے سماع ثابت نہیں۔
● اگر بالفرض انہیں علم نہیں ہو سکا تو کیا ہوا؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام کو جو علم تھا کیا وہ کافی نہیں؟ کیا اس مسئلے میں بکر بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کا علم حجت بن گیا ہے؟
● اس ضعیف روایت میں بھی سورہ فاتحہ کی قراءت کی کوئی بات نہیں۔
زیر بحث خاص سورہ فاتحہ کی قراءت ہے نہ کہ عام قراءت، لہذا ایسی مبہم دلیلیں کام نہیں دیں گی۔

⑫ میمون بن مہران کی ضعیف روایت!

جناب انوار خورشید صاحب لکھتے ہیں:
عن مفضل، قال: سألت ميمونا على الجنازة قراءة أو صلاة على النبى صلى الله عليه وسلم؟ قال: ما علمت (مصنف ابن أبي شيبة: 299/3)
حضرت مفضل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت میمون رحمۃ اللہ علیہ سے نماز جنازہ میں قراءت یا درود کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔( حدیث اور اہل حدیث، ص: 866)
تجزیہ
● اس سند میں مفضل نہیں بلکہ معقل راوی ہے، جیسا کہ تہذیب الآثار (الجزء المفقود، الرقم: 260) میں ہے۔ بعض جگہ غلطی سے مفضل چھپ گیا ہے اور اس طرح ہو جانا کچھ بعید نہیں لیکن جس شخص نے تحقیق کی غرض سے سند کی پڑتال کرنی ہو اور صحت وضعف کا التزام کرنا ہو، اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ آنکھیں بند کر کے مکھی پر مکھی مارے جائے اور اتنا غور بھی نہ کرے کہ مفضل نامی راوی نہ تو امام عبدالرحمن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ کے اساتذہ میں موجود ہے جو یہاں شاگرد ہیں، نہ مفضل نامی کوئی شخص میمون بن مہران رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں موجود ہے جو یہاں استاذ ہیں۔
اس کے برعکس معقل بن عبید اللہ جزری راوی کتب رجال میں میمون بن مہران کے شاگردوں کی فہرست میں موجود ہیں، اسی طرح میمون بن مہران معقل بن عبید اللہ کے اساتذہ کی فہرست میں موجود ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ میمون بن مہران رحمۃ اللہ علیہ نسبت کے لحاظ سے جزری ہیں اور معقل بن عبید اللہ بھی جزری ہیں۔
اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو محقق اس غلطی پر متنبہ ہو سکتا ہے۔ مکتبہ الرشد سے شائع شدہ نسخے میں محققین نے یہ صراحت کر بھی دی ہے لیکن جناب انوار صاحب نے صرف ٹائٹل پر لفظ تحقیق لکھ کر تحقیق والا فرض ادا کر لیا تھا۔ بعد میں وہ اس شجر ممنوعہ کے قریب تک نہیں گئے۔ پوری کتاب میں کہیں تحقیق کا دُور دُور تک نشان نظر نہیں آتا۔ جگہ جگہ بے سند اور من گھڑت روایات ہماری اس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہیں۔
● اس روایت کی سند متصل نہیں کیونکہ امام عبد الرحمن بن مہدی کا معقل بن عبید اللہ جزری سے سماع ثابت نہیں ہو سکا۔

◈ دیوبندی بھائیوں کا دوہرا معیار

● اس غیر ثابت روایت میں امام میمون بن مہران رحمۃ اللہ علیہ قراءت کے ساتھ ساتھ درود سے بھی لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں، یعنی اگر اس روایت کو صحیح تسلیم کیا جائے تو میمون بن مہران رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ میں درود کے حوالے سے بھی کوئی بات نہیں سنی تھی۔ اُدھر طلحہ بن عبد اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان کے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں پوچھیں تو جناب انوار صاحب کہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دور میں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کا کوئی اتہ پتہ نہ تھا اور اوکاڑوی صاحب کہیں کہ اُس دور میں کوئی ایسا کرتا نہ تھا، اس لیے یہ سوال ہوا لیکن اب وہ خود ایسی روایت پیش کر رہے ہیں جس میں درود کے حوالے سے ایک تابعی لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ نماز جنازہ میں درود کو بھی یہ کہہ کر منع کر دیں کہ تابعین کے دور میں کسی کو اس کا اتہ پتہ نہ تھا۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر ﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ﴾ کے مصداق بن کر آدھی بات کو کیوں مانتے ہیں؟

⑬ سالم تابعی کی روایت!

جناب انوار خورشید دیو بندی صاحب لکھتے ہیں:
عن محمد بن عبد الله بن أبى سارة، قال: سألت سالما، فقلت: القراءة على الجنازة؟ فقال: لا قراءة على الجنازة . (مصنف ابن أبي شيبة: 299/3)
حضرت محمد بن عبداللہ بن ابی سارہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سالم سے دریافت کیا کہ نماز جنازہ میں قراءت کروں؟ تو آپ نے فرمایا: نماز جنازہ میں قراءت نہیں ہے۔ (حدیث اور اہل حدیث، ص: 866)
تجزیہ
● اس روایت میں بھی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ اس سے مراد سورہ فاتحہ کے علاوہ والی قراءت ہی ہوگی جیسا کہ دوسری روایات سے عیاں ہے۔ اگر سالم رحمۃ اللہ علیہ کی مراد نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی نفی ہے تو ان کی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے خلاف ہے، جسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔

⑭ ابراہیم نخعی کے متعلق ایک ضعیف روایت

جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
عن حماد، عن إبراهيم، قال: سألته: أيقرأ على الميت بشيء إذا صلى عليه؟ قال: لا (مصنف عبد الرزاق: 491/3)
حضرت حماد کہتے ہیں کہ انہوں نے ابراہیم نخعی سے دریافت کیا کہ کیا نماز جنازہ میں قراءت کی جا سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں۔ (حدیث اور اہل حدیث، ص: 868,867)
تجزیہ
● یہ بات امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت ہی نہیں کیونکہ اس کی سند میں ایک تو امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی تصریح سماع موجود نہیں، دوسرے حماد بن ابی سلیمان مختلط بھی ہیں۔
● اس ضعیف روایت میں بھی سورۃ فاتحہ کی ممانعت کا اشارہ تک نہیں۔
کسی تابعی کے عام قراءت کی نفی کرنے سے خاص سورۃ فاتحہ کی ممانعت ثابت نہیں ہو سکتی، خصوصاً جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام اور جمہور تابعین سے نماز جنازہ میں صراحتاً سورہ فاتحہ کی قراءت ثابت ہو۔

⑮ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا قول!

جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
قال سحنون: قلت لعبد الرحمن بن القاسم: أى شيء يقال على الميت فى قول مالك؟ قال: الدعاء للميت، قلت: فهل يقرأ على الجنازة، فما قول مالك؟ قال: لا… ابن وهب عن رجال من أهل العلم، عن عمر بن الخطاب، وعلي بن أبى طالب، وعبد الله بن عمر، وعبيد بن فضالة، وأبي هريرة، وجابر بن عبد الله، ووائلة بن الأسقع، والقاسم، وسالم بن عبد الله، وابن المسيب، وربيعة، وعطاء، ويحيى بن سعيد، أنهم لم يكونوا يقرؤون فى الصلاة على الميت، وقال مالك: ليس ذلك بمعمول به، إنما هو الدعاء، أدركت أهل بلادنا على ذلك . (المدونة الكبرى: 174/1)
حضرت سحنون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبد الرحمن بن قاسم سے دریافت کیا کہ حضرت امام مالک کے قول میں میت پر کیا پڑھنا چاہیے؟ فرمایا: میت کے لیے دعا، میں نے کہا: کیا امام مالک کے قول کے مطابق نماز جنازہ میں قراءت ہوتی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ ابن وہب کہتے ہیں کہ بہت سے اہل علم، مثلاً حضرت عمر بن خطاب، حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت عبداللہ بن عمر ، حضرت عبید بن فضالہ ، حضرت واثلہ بن اسقع ، حضرت قاسم بن محمد ، حضرت سالم بن عبداللہ ، حضرت سعید بن مسیب ، حضرت عطاء بن ابی رباح ، حضرت یحیی بن سعید نماز جنازہ میں قراءت نہیں کیا کرتے تھے۔ ابن وہب فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک نے فرمایا: ہمارے شہر مدینہ طیبہ میں اس پر عمل نہیں۔ نماز جنازہ صرف دعا ہے۔ میں نے اپنے شہر کے اہل علم کو اسی پر پایا ہے۔ (حدیث اور اہلحدیث، ص: 870,869)
تجزيہ
● اس عبارت میں سورہ فاتحہ کی ممانعت کے بارے میں کوئی ایک لفظ بھی نہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نماز جنازہ کو دعا قرار دے کر عام قراءت سے لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں، سورہ فاتحہ پوری کی پوری دُعا ہی تو ہے۔ حدیث قدسی میں سورہ فاتحہ کو نماز اور دعا قرار دیا جا چکا ہے۔ اس پر تفصیل درکار ہو تو وہ باب اول میں گزر چکی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام سے نماز جنازہ میں خاص سورہ فاتحہ کے سنت ثابت ہو جانے کے بعد امام مالک اور دیگر اہل علم سے منقول عام قراءت والی روایات پیش کرنے سے کیا فائدہ ہوگا، سوائے اس کے کہ اپنے ساتھیوں کو طفل تسلی دی جا سکے۔

◈ دیگر ائمہ دین کا صریح عمل کیوں قبول نہیں؟

● امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت سے ممانعت تو ثابت نہیں ہو سکی، البتہ ہم نے باب اوّل کی پانچویں فصل میں امام شافعی ، امام احمد بن حنبل، امام اسحاق بن راہویہ ، امام ابن منذر ، امام دارقطنی ، امام بیہقی وغیرہم سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ نماز جنازہ میں خاص سورہ فاتحہ کی قراءت کے قائل تھے۔ کیا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی مبہم بات پیش کرنے والے حنفی بھائی مذکورہ ائمہ دین کی صریح اور صحیح بات ماننے کے لیے تیار ہوں گے؟
● اس عبارت میں بغیر سند کے بہت سے صحابہ کرام کی طرف نماز جنازہ میں قراءت کی ممانعت منسوب کی گئی ہے۔ احناف کے دلائل کے ضمن میں ان صحابہ کرام کی روایات کی جو اسانید لی ہیں، ان پر تفصیلی بحث کر دی گئی ہے، اس سلسلے میں وہیں رجوع کر لیا جائے۔

◈ اہل مدینہ کا عمل اور احناف!

اس مسئلہ میں جناب اوکاڑوی صاحب اور ان کے فیض یافتہ جناب انوار خورشید صاحب نے اہل مدینہ کا عمل بڑے پر تپاک انداز میں پیش کیا ہے اور اس پر سرخیاں جمائی ہیں، حالانکہ خود احناف اہل مدینہ کے عمل کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کے بیسیوں ایسے عمل پیش کیے جا سکتے ہیں، جن میں وہ حدیث نبوی اور اہل مدینہ کے عمل کے سراسر خلاف ہیں۔ یہیں پر بس نہیں، بلکہ احناف اصولی طور پر اہل مدینہ کو کوئی وقعت ہی نہیں دیتے، جیسا کہ؛
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (728ھ) فرماتے ہیں:
إن سائر أمصار المسلمين غير الكوفة كانوا منقادين لعلم أهل المدينة، لا يعدون أنفسهم أكفاء فى العلم .
اہل کوفہ (احناف) کے علاوہ باقی تمام مسلمان علاقوں کے علماء، اہل مدینہ کے علم کے معترف تھے اور اپنے آپ کو علم میں اہل مدینہ کے برابر نہیں سمجھتے تھے۔ (صحة مذهب أهل المدينة، ص: 21)
اگر اہل مدینہ اور احناف کے مذہب کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ احناف اکثر مسائل میں اہل مدینہ کے مخالف ہیں۔ اس سلسلے میں ایک ہی مثال پر غور فرمائیں شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فإن أهل المدينة وسائر الأمصار وفقهاء الحديث يحرمون كل مسكر، وإن كل مسكر خمر وحرام، وإن ما أسكر كثيره؛ فقليله حرام، ولم يتنازع فى ذلك أهل المدينة، لا أولهم ولا آخرهم، سواء كان من الثمار أو الحبوب أو العسل أو لبن الخيل أو غير ذلك، والكوفيون لا خمر عندهم إلا ما اشتد من عصير العنب، فإن طبخ قبل الإشتداد حتى ذهب ثلثاه؛ حل، ونبيذ التمر والزبيب محرم إذا كان مسكرا نيئا، فإن طبخ أدنى طبخ حل وإن أسكر، وسائر الأنبذة نجل وإن أسكرت، لكن يحرمون المسكر منها .
اہل مدینہ، باقی تمام علاقوں کے علماء اور فقہائے حدیث ہر نشہ آور چیز کو حرام قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر نشہ آور چیز شراب ہی ہے جو کہ حرام ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ لائے، اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔ اس سلسلے میں اہل مدینہ کی مخالفت نہ پہلے لوگوں نے کی نہ بعد والوں نے شراب چاہے پھلوں کی ہو یا غلے کی شہد کی ہو یا گھوڑیوں کے دودھ کی یا اس کے علاوہ کسی اور چیز کی( سب حرام ہیں) لیکن اہل کوفہ (احناف) کے نزدیک شراب صرف انگوروں کے شیرے کے گاڑھے ہو کر جوش مارنے سے بنتی ہے۔ اگر انگور کے شیرے کو جوش مارنے سے پہلے پکایا جائے حتی کہ وہ ایک تہائی رہ جائے تو وہ بھی حلال ہو جاتا ہے۔ ان کے نزدیک کھجور اور منقّے کی نبیذ اس وقت حرام ہو گی جب وہ نشہ آور اور کچی ہو لیکن اگر اسے پکا لیا جائے تو وہ حلال ہو جاتی ہے چاہے نشہ آور ہی ہو۔ باقی سارے نبیذ مطلق طور پر حلال ہیں اگر چہ وہ نشہ آور ہی ہوں۔ جبکہ وہ (اہل مدینہ اور فقہائے حدیث) نشہ آور نبیذ کو حرام قرار دیتے ہیں۔
(صحة مذهب أهل المدينة، ص: 42,41)
چند سطروں بعد شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ومن تدبر الأحاديث الصحيحة فى هذا الباب؛ علم أن أهل المدينة أتبع للسنة .
جو شخص اس سلسلے میں صحیح احادیث پر غور کرے گا، جان لے گا کہ اہل مدینہ سب سے بڑھ کر سنت کی پیروی کرنے والے ہیں۔
(صحة مذهب أهل المدينة: ص 42)
اب انوار خورشید صاحب بتائیں کہ اہل مدینہ کی بات کون مانتا ہے اور ان کی مخالفت کون کرتا ہے؟ کیا یہی انصاف ہے کہ ایک مبہم عبارت کی بنا پر دوسروں کو اہل مدینہ کی مخالفت کا طعنہ دیا جائے اور خود اہل مدینہ کے ایسے مذہب کی صریح اور کھلی مخالفت کی جائے جو صحیح احادیث سے بھی ثابت ہو؟
یہ ہے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والی بات!
یہی بات حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ (456 ھ) نے یوں لکھی ہے:
وهم يعظمون خلاف العمل بالمدينة، وههنا أريناهم عمل الصحابة، وسعيد بن المسيب، وأبي أمامة، والزهري؛ علماء أهل المدينة، وخالفوهم .
احناف اہل مدینہ کے خلاف عمل کو بہت بڑا جرم قرار دیتے ہیں لیکن اس (جنازہ میں فاتحہ کے) مسئلے میں ہم نے انہیں صحابہ کرام، سعید بن مسیب ، ابو امامہ اور زہری کا عمل دکھایا ہے جو سارے کے سارے اہل مدینہ کے علمائے کرام ہیں جبکہ احناف ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ (المحلى: 131/5)
اب بھی اگر حنفی بھائی ہمارے خلاف اہل مدینہ کا عمل پیش کریں تو یہ قطعاً انصاف نہیں ہوگا!

صریح نصوص کے مقابلے میں قیاسی دلائل

نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور جمہور تابعین سے ثابت ہے۔ احناف کو اس سلسلے میں اپنا فقہی مذہب بچانے کے لیے جب کوئی دلیل نہیں ملی تو وہ واضح نصوص کے خلاف قیاس کرنے پر اتر آئے۔ اب اس قیاس کی کیا حیثیت ہوگی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، صحابہ کرام کے عمل اور جمہور تابعین کے فتوے کے خلاف ہو؟ لیکن احناف ہیں کہ اس سے باز نہیں آتے۔ احناف کے قیاسات ملاحظہ فرمائیں:

① سب تکبیروں کے بعد فاتحہ کی قراءت کیوں نہیں؟

مولانا ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب، امام طحاوی حنفی سے نقل کرتے ہیں:
ولما لم تقرأ بعد التكبيرة الثانية؛ دل على أنها لا تقرأ، أى وجوبا فيما قبلها، لأن كل تكبيرة قائمة مقام ركعة .
جب سورۂ فاتحہ کی قراءت دوسری تکبیر کے بعد نہیں کی جاتی تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی قراءت پہلی تکبیر کے بعد بھی واجب نہیں کیونکہ ہر تکبیر ایک رکعت کے قائم مقام ہوتی ہے۔ (إعلاء السنن: 2567/6)
اسی طرح جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب بھی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کو فرض قرار دینے والوں کے خلاف لکھتے ہیں:
فقلت لهم أن اقرؤوا بها أربع مرات، لأن كل تكبيرة فى صلاة الجنازة تقوم مقام ركعة، فأولى لكم أن تقرؤوا بها أربع مرات، فإنه لا صلاة لمن لم يقرأ بها .
میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ سورہ فاتحہ کو چار مرتبہ پڑھا کریں کیونکہ نماز جنازہ میں ہر تکبیر ایک رکعت کے قائم مقام ہوتی ہے۔ تمہارے لیے زیادہ مناسب یہ ہے کہ تم اسے چار مرتبہ ہی پڑھو کیونکہ اس شخص کی کوئی نماز ہی نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ کی قراءت نہیں کرتا۔ (فیض الباري: 474/2)
تجزیہ
● نہ جانے کس دلیل سے امام طحاوی حنفی اور علامہ انورشاہ کشمیری صاحبان نماز جنازہ کی چار رکعتیں باور کرا رہے ہیں؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے نماز جنازہ کی ہر تکبیر کو ایک رکعت کے قائم مقام کہا ہے؟

◈ نص کے مقابلے میں قیاس کیوں؟

● جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے نماز جنازہ کا یہ طریقہ ثابت ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ کی قراءت، دوسری کے بعد درود، تیسری کے بعد میت کے لیے دعا اور چوتھی کے بعد سلام اور قراءت صرف پہلی تکبیر کے بعد ہے۔
(مصنف عبد الرزاق: 489/3، مصنف ابن أبي شيبة: 296/3، فضل الصلاة على النبي للامام إسماعيل القاضي، نقلا عن ابن حجر في التلخيص الحبير: 287/2، سنن النسائي: 1989 المنتقى لابن الجارود: 540 مسند الشاميين للطبراني: 160/4، رقم الحديث: 3000، وسنده صحيح)
تو اتنی صراحت کے بعد اس طرح کے فضول قیاسات کی کیا تک ہے؟ کیا قرآن و سنت کی نصوص کے مقابلے میں قیاس کرنا کسی مسلمان کا کام ہو سکتا ہے؟

② جنازہ میں تشہد اور فاتحہ کی ممانعت کا استدلال!

علامہ ابن ترکمانی حنفی بھی امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:
ولما لم يتشهد فى آخرها، دل على أنه لا قرائة فيها
نماز جنازہ کے آخر میں تشہد نہیں کیا جاتا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں قراءت بھی نہیں ہے۔ (الجوهر النقي على سنن البيهقي: 39/4)
تجزیہ
● جب صحیح احادیث کی روشنی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت ثابت ہو چکی ہے، صحابہ کرام اسی کے عامل رہے ہیں اور جمہور تابعین کا یہی مذہب تھا تو صرف ایک قیاس کی وجہ سے اسے چھوڑنا کیسے جائز ہوا؟ صریح احادیث کی موجودگی میں اپنے اختراعی قیاسات سے کام لینا درست نہیں۔

◈ کیا یہ قیاس بھی درست ہے؟

● کیا ایک رکن (آخری تشہد) کے ختم ہونے سے دوسرے رکن (قراءت) کی ممانعت ثابت ہوتی ہے؟ اگر کل کلاں کوئی نماز جنازہ میں قیام کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ چونکہ نماز جنازہ میں تشہد فرض نہیں، لہذا اس میں قیام بھی فرض نہیں بلکہ منع ہے تو کیا اس کی بات درست ہوگی؟
● مذکورہ دونوں قیاسات انتہائی بے ننگے اور قابل گرفت ہیں۔ ان میں تکلف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852ھ) نے اسی لیے ان قیاسات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے:
ولا يخفى ما يجيء على كلامه من التعقب، وما يتضمنه استدلاله من التعسف .
امام طحاوی حنفی کی کلام میں جو قابل گرفت باتیں ہیں اور ان کے استدلال میں جو تکلف ہے، وہ سب کچھ بہت واضح ہے۔ (فتح الباري: 204/3)

③ جنازہ میں دعائے استفتاح کیوں نہیں؟

علامہ انور شاہ کشمیری صاحب مزید لکھتے ہیں:
ثم هي عند الشافعية بعد التكبيرة الأولى، ففات عنهم الاستفتاح
پھر یہ (سورۂ فاتحہ کی قراءت) شوافع کے ہاں پہلی تکبیر کے بعد ہے، لہذا ان سے دعائے استفتاح رہ گئی۔ (فیض الباري: 474/2)
تجزیہ
● دیو بندی دوستوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ نماز جنازہ کی پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ کی قراءت کسی خاص فرقے کا عمل نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہونے کی بنا پر قرآن وسنت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا معمول ہے۔ باب اوّل میں بڑی وضاحت کے ساتھ تمام دلائل شرعیہ بیان کر دیے گئے ہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کر دیا گیا ہے کہ ان دلائل کی بنا پر صحابہ کرام، جمہور تابعین اور ائمہ دین اس پر عمل کرتے رہے ہیں۔ وہاں ان کے نام بھی باحوالہ درج کیے گئے ہیں، لہذا اسے صرف شوافع کی طرف منسوب کرنا نا انصافی ہے۔
● رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز جنازہ میں جو طریقہ ثابت ہے، ہم اس سے تجاوز نہیں کرتے۔ ہم اسی فصل کے آغاز میں اختصاراً اور باب اوّل میں بڑی تفصیل سے صحیح سند کے ساتھ یہ بات بیان کر چکے ہیں کہ نماز جنازہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مبارک یہ تھا کہ آپ پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ کی قراءت کرتے تھے۔ ہم اسی نبوی طریقے کے مطابق پہلی تکبیر کے بعد قراءت کرتے ہیں۔ نماز جنازہ میں دعائے استفتاح یعنی ثنا پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

◈ سنت سے انحراف اور بدعت کی پابندی

● نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت جو کہ سنت سے ثابت ہے، اس پر تو احناف عمل نہیں کرتے، البتہ اپنی خود ساختہ جل ثناتك والی ثنا ضرور پڑھتے ہیں اور اس کے رہ جانے پر انہیں دوسروں کے بارے میں افسوس ہوتا ہے، پھر بھی اپنے آپ کو اہل سنت کہلواتے ہیں۔ کتنے تضاد کا شکار ہیں یہ لوگ؟

موضوع سے متعلق دلائل ۔۔۔ نہ دارد !

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت تو سنت رسول اور فتاویٰ صحابہ سے صریحاً ثابت ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے لیکن قارئین کرام کو یہ جان کر بہت حیرانی ہوگی کہ اس سے منع کرنے والوں کے پاس ایک بھی ایسی حدیث نہیں جس میں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ سے منع کیا گیا ہو، مگر پھر بھی وہ اس مسئلے میں اپنی پوری توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ آپ نے ان کے دلائل ملاحظہ فرمائے۔ اکثر دلائل کے بے سند اور ”ضعیف“ ہونے کے ساتھ ساتھ ان میں سے کوئی ایک بھی حدیث ایسی نہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں سورۂ فاتحہ سے منع فرمایا ہو۔
جب بات خاص سورہ فاتحہ کی ہے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے نماز جنازہ میں خاص سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت ثابت کر چکے ہیں تو اس سے روکنے کے لیے ایسے دلائل پیش کرنا کہاں کا انصاف ہے جن کا یا تو نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت سے کوئی تعلق نہیں یا وہ غیر ثابت اور ”ضعیف“ ہیں؟
پورے ذخیرہ حدیث سے احناف کو نماز جنازہ میں خاص سورہ فاتحہ کی قراءت سے روکنے کے لیے صرف دو روایات ملی ہیں، وہ یہ ہیں:

① ابو بردہ تابعی سے منسوب ضعیف روایت!

جناب انوار خورشید دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
عن سعيد بن أبى بردة، عن أبيه، قال: قال له رجل: أقرأ على الجنازة بفاتحة الكتاب؟ قال: لا تقرأ . (مصنف ابن أبي شيبة: 299/3)
حضرت سعید اپنے والد ابو بردہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے کسی نے پوچھا کہ میں نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کر لیا کروں؟ تو آپ نے فرمایا: نہیں۔ (حدیث اور اہلحدیث ص: 867)
تجزیہ
● یہ روایت ابو بردہ تابعی سے ثابت ہی نہیں کیونکہ اس کی سند میں ابو معاویہ ضریر نامی راوی مدلس ہیں۔ ایسا راوی جب سماع کی تصریح نہ کرے تو اس کی روایت بالاتفاق ضعیف ہوتی ہے۔
● رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور جمہور تابعین سے ثابت عمل کے مقابلے میں کسی ایک تابعی کا غیر ثابت شدہ عمل بھلا کسی مسلمان کو کیا فائدہ دے سکتا ہے؟

② ابو العالیہ تابعی کی ایک روایت

عن أبى المنهال، قال: سألت أبا العالية عن القرائة فى الصلاة على الجنازة بفاتحة الكتاب، فقال: ما كنت أحسب أن فاتحة الكتاب تقرأ إلا فى صلاة فيها ركوع وسجود . (مصنف ابن أبي شيبة: 299/3)
حضرت ابوالمنہال فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوالعالیہ الریاحی سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: میرا تو یہ خیال ہے کہ سورہ فاتحہ صرف رکوع وسجود والی نماز ہی میں پڑھی جاتی ہے۔ (حدیث اور اہلحدیث، ص: 867,866)
تجزیہ
● یہ ابو العالیہ تابعی کا ذاتی قول ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کے ثابت ہو جانے کے بعد کسی کے قول پر عمل نہیں کیا جا سکتا۔

◈ جمہور تابعین کی بات کیوں قابل عمل نہیں؟

● اگر احناف حدیث رسول اور آثار صحابہ کو چھوڑ کر تابعین ہی کی بات مانے پر مصر ہیں تو پھر وہ ان جمہور تابعین کی بات کیوں نہیں مانتے جن سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کرنا منقول ہے۔ ہم باب اول کی فصل ششم میں تفصیل امام سعید بن مسیب، امام حسن بصری، امام مکحول، امام ضحاک جیسے تابعین سے صحیح سند کے ساتھ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت ثابت کر چکے ہیں۔

◈ احناف کی تنگدستی

احناف کے پاس یہی دو دلیلیں خاص سورہ فاتحہ کے بارے میں ہیں لیکن ان میں سے ابو بردہ والی روایت ان سے ثابت ہی نہیں۔ اب ابوالعالیہ تابعی کا ایک قول ہی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت سے روکنے کے لیے احناف کی اکلوتی دلیل ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحابہ کرام کے عمل اور جمہور تابعین کرام کے مذہب کے خلاف صرف ابو العالیہ کے ایک ذاتی قول پر اپنا مذہب استوار کرنا حنفی بھائیوں کا حوصلہ ہے۔
یہ ہے دلائل کے میدان میں احناف کی حالت زار!
؎ اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دلائل احناف ایک نظر میں

قارئین کرام نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ سے منع کرنے کے حوالے سے احناف کے دلائل اور ان کا تجزیہ تفصیلاً ملاحظہ فرمایا۔ اس تفصیل کا خلاصہ چند الفاظ میں یہ ہے کہ احناف کے دلائل چار طرح کے ہیں:

① بے سند دلائل

اس مسئلے میں چار بے سروپا روایات سے احناف نے دلیل لینے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ اسلام میں بے سند روایات کو کوئی وقعت نہیں دی جا سکتی۔
پہلی روایت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف اور دوسری روایت سیدنا عبد الرحمن بن عوف و سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب تھی۔ یہ روایات جناب انوار خورشید صاحب نے المغنی لابن قدامہ اور بدائع الصنائع کے حوالے سے بیان کی ہیں جہاں ان کی کوئی سند موجود نہیں۔ ان میں سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت کی طبرانی کبیر میں سند ملی تو اس کی حالت بھی قارئین نے ملاحظہ فرما لی۔
تیسری دلیل میں علامہ انورشاہ کشمیری صاحب نے جنازہ میں فاتحہ کو چھوڑنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دائمی عمل قرار دیا ہے۔ اس کا انہوں نے کوئی حوالہ پیش نہیں کیا۔ چوتھی دلیل میں کشمیری صاحب ہی نے جنازہ میں فاتحہ کی قراءت نہ کرنے کو جمہور کا عمل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور اسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے قبروں کے پاس قرآن کی قراءت کے حوالے سے جمہور کی یہ بات بیان کی ہے، پھر خود بعد میں اس بات کی وضاحت بھی کی ہے کہ اگر قبر کے پاس نماز جنازہ ادا کی جائے تو اس میں سورہ فاتحہ کی قراءت نماز کی قراءت ہی شمار ہو گی، اسے قبر پر قراءت متصور نہیں کیا جائے گا۔

② بے جوڑ دلائل

احناف نے اس مسئلہ میں پندرہ دلائل ایسے بھی ذکر کیے ہیں جو نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ سے متعلق ہیں ہی نہیں۔ ان میں سے صرف پانچ سند کے اعتبار سے ثابت ہیں۔ ان میں سے پہلی دلیل نماز جنازہ میں میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا کرنے کے بارے میں ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے سورہ فاتحہ پہلی تکبیر کے بعد ثابت ہے اور میت کے لیے دعا تیسری تکبیر کے بعد ہوتی ہے، پھر یہ حدیث سورہ فاتحہ سے مانع کیسے ہوئی؟ کیا خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں میت کے لیے خلوص کے ساتھ دعا نہیں فرماتے تھے؟ اگر فرماتے تھے اور یقیناً فرماتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ سورہ فاتحہ کی قراءت بھی کی ہے۔ اگر سورۂ فاتحہ کی قراءت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو متاثر نہیں کرتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے والوں کی دعا کو کیونکر متاثر کرے گی؟
دوسری دلیل سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے کہ وہ نماز جنازہ میں قراءت نہیں کرتے تھے۔ اگر حنفی بھائیوں سے پوچھا جائے کہ کون سی قراءت نہیں کرتے تھے؟ تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ تو بقول رب تعالیٰ نماز ہی ہے اور بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی۔ ہاں سورہ فاتحہ کے علاوہ عام قراءت نہ بھی کریں تو نماز جنازہ درست ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اگر عام قراءت نہیں کرتے تھے تو اس سے سورہ فاتحہ کی قراءت کیسے منع ہو گئی جس کا سنت ہونا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث اور کئی صحابہ کرام کے عمل سے ثابت ہے؟
تیسری دلیل کے طور پر سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ذکر کی گئی ہے جس میں سورۃ فاتحہ کا ذکر نہیں۔ حالانکہ اختصاراً راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ اس سے سورہ فاتحہ کی ممانعت کیسے ثابت ہو گئی؟ اگر ذکر نہ ہونے سے ممانعت ثابت ہوتی ہے تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی کی اس روایت میں دوسری، تیسری اور چوتھی تکبیر اور سلام پھیرنے کا بھی ذکر نہیں۔ کیا یہ سب چیزیں بھی منع ہوں گی؟
چوتھی دلیل میں وہی صحیح بخاری والی حدیث ذکر کی گئی ہے جس میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت کہا ہے۔ اس سے انوکھا استدلال یوں کیا گیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کی تو ایک تابعی نے ان سے اس بارے میں استفسار کیا۔ اگر نماز جنازہ میں فاتحہ کی قراءت ایک معمول ہوتا تو اس پر تعجب کیوں کیا جاتا؟ حالانکہ ہر سوال تعجب کی بنا پر نہیں ہوتا۔ اگر کسی ایک تابعی کو معلوم نہ بھی ہو تو اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت صحابہ کرام کے عمل اور جمہور تابعین کے مذہب کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔
پانچویں دلیل یہ تھی کہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے میت پر قراءت کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اس میں تو نہ جنازے کی بات ہے نہ فاتحہ کی۔ اس سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی ممانعت کیسے ثابت ہوئی؟
یہ تھے پانچ دلائل جو باسند صحیح ثابت تھے۔ ان میں سے کوئی بھی دلیل ایسی نہیں جس سے یہ ثابت ہو سکتا ہو کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت منع ہے۔ دوسری طرف ہم باب اوّل میں احادیث صحیحہ، عمل صحابہ اور جمہور تابعین کے مذہب کی روشنی میں نماز جنازہ میں خاص سورہ فاتحہ کی قراءت کو ثابت کر چکے ہیں۔
ان بے جوڑ دلائل میں سے باقی کے دس دلائل سنداً ثابت ہی نہیں۔ ان میں سے پہلی دو روایات سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور امام شعبی رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہیں۔ ان میں سورہ فاتحہ تو کجا سرے سے قراءت کا ذکر ہی نہیں، سورہ فاتحہ کی ممانعت کیسے ثابت ہو گئی؟ باقی کی آٹھ روایات مختلف تابعین اور ائمہ دین کی طرف منسوب ہیں۔ وہ غیر ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ سورہ فاتحہ سے متعلق بھی نہیں۔ ان میں نماز جنازہ میں مطلق قراءت نہ کرنے کا ذکر ہے، حالانکہ عام قراءت کا ہماری بحث سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہم تو خاص سورہ فاتحہ کی قراءت کو ضروری قرار دیتے ہیں اور اسی بارے میں اپنے سارے دلائل ذکر کرتے ہیں۔ لہٰذا عام قراءت کے بارے میں ”ضعیف“ روایات کا ذکر بھولی بھالی عوام کو طفل تسلی دینے کے سوا کسی کام کا نہیں۔

③ قیاسی دلائل

جب احناف کو نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی ممانعت کے بارے میں صحیح احادیث اور صحیح آثار صحابہ سے کوئی دلیل نہیں ملی تو انہوں نے عقلی میدان میں ٹامک ٹوئیاں مارنا شروع کر دیں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کے عمل کے خلاف عقل سلیم کچھ نہیں سوچ سکتی۔ ہاں! عقل سقیم جو چاہے سوچے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ ایسا کرنا سوائے اپنی عاقبت خراب کرنے کے کچھ فائدہ نہ دے گا۔

④ خاص دلائل

احناف کے پاس صرف دو ایسی روایات ہیں جو زیر بحث مسئلے کے متعلق ہیں، یعنی جن میں نماز جنازہ میں خاص سورۃ فاتحہ کی ممانعت موجود ہے۔ ان میں سے ایک ابو بردہ تابعی کی ہے جو کہ سنداً ”ضعیف“ اور غیر ثابت ہے، جبکہ دوسری ابوالعالیہ تابعی کی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میرے خیال میں سورہ فاتحہ کی قراءت صرف رکوع و سجود والی نمازوں میں کی جانی چاہیے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ، صحابہ کرام کے عمل اور جمہور تابعین عظام کے فتوے کے خلاف احناف کے پاس ابوالعالیہ کا ایک ذاتی خیال اکلوتی دلیل کے طور پر موجود ہے۔ ابوالعالیہ کے اس خیال کے علاوہ احناف کے پاس دلائل کی دنیا میں جنازہ میں فاتحہ کی قراءت سے روکنے کے لیے کوئی دوسری دلیل موجود نہیں۔
اگر ہزار تابعین کا ذاتی خیال اور قیاس ایک طرف ہو اور صحیح سند سے ثابت ایک سنت رسول دوسری طرف ہو تو مسلمان کی نجات صرف اسی میں ہے کہ وہ ہزار تابعین کے قیاس کو چھوڑ کر ایک سنت رسول کی پیروی کرے۔ کیا اب بھی کوئی حنفی بھائی ابوالعالیہ تابعی کے ذاتی خیال و قیاس کو سنت رسول پر ترجیح دیتے ہوئے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو ممنوع یا مکروہ کہے گا؟

◈ دیو بندی احباب کی خیر القرون

یہ تھے وہ دلائل جن کو ذکر کر کے انوار خورشید صاحب بلند بانگ دعوے کر رہے تھے اور بزعم خویش یہ ثابت کر چکے تھے کہ خیر القرون میں پوری دنیا کا عمل جنازہ میں ترک پر تھا، اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
احادیث و آثار کے تتبع سے ثابت ہوتا ہے کہ خیر القرون کے دور میں مراکز اسلام مدینہ طیبہ، مکہ مکرمہ، کوفہ، بصرہ وغیرہ میں نماز جنازہ میں قراءت کا بالکل رواج نہیں تھا۔ (حدیث اور اہلحدیث، ص: 872)
پھر انہوں نے مدینہ طیبہ، مکہ مکرمہ کوفہ، بصرہ کو ذیلی عنوانات بنا کر انہی جھوٹی، بے سند اور ضعیف روایات کا دوبارہ حوالہ دے دیا ہے جن پر ہم تفصیلی گفتگو کر چکے ہیں۔ صرف ابو العالیہ تابعی کے ذاتی خیال کو پوری خیر القرون پر تھونپ دینا انہی کی ہمت ہے۔ ہم اللہ کا واسطہ دے کر قارئین کرام سے سوال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ، صحابہ کرام کے صحیح و ثابت عمل اور جمہور تابعین کے مذہب سے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت ثابت ہونے کے بعد بعض تابعین اور ائمہ دین کے بارے میں بیان کی گئی جھوٹی، بے سند اور ضعیف روایات بھلا کیا فائدہ دیں گی؟
پھر انوار خورشید صاحب لکھتے ہیں:
بہر حال یہی وہ احادیث و آثار ہیں جن کی وجہ سے فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں مسنون یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد ثنا پڑھے، دوسری کے بعد درود، تیسری کے بعد دعا اور چوتھی کے بعد سلام پھیر دے۔ نماز جنازہ میں قراءت کرنا خلاف سنت ہے۔ ہاں، اگر کوئی بطور حمد وثنا کے یا بطور دعا کے پڑھ لے تو گنجائش ہے۔ (حدیث اور اہلحدیث، ص: 874)
جناب انوار صاحب! اللہ کے لیے ہمیں یہ بھی بتا دیجیے کہ آپ کے فقہائے کرام نے نماز جنازہ میں جن چیزوں کو مسنون کہا ہے، اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے یا کسی اور کی؟ اگر صحابی رسول کسی چیز کو سنت فرمائیں تو وہ آپ کے نزدیک ایک غیر معروف طریقہ ہو اور آپ کے فقہاء کسی چیز کو بلا دلیل مسنون کہیں تو آپ اسے فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ مان لیں۔ جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت کہا تو آپ نے لکھا:
رہا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نماز جنازہ میں قراءت کو سنت قرار دینا تو اس سے مراد سنت مصطلحہ یعنی نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت مراد نہیں ہے کیونکہ کسی بھی صحیح حدیث سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا نماز جنازہ میں قراءت کرنا یا دوسروں کو حکم دینا ثابت نہیں۔ (حدیث اور اہلحدیث، ص: 874,873)
جناب انوار صاحب! اللہ کے دربار میں حاضری سے ڈریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز جنازہ میں قراءت کا ہی نہیں بلکہ خاص سورہ فاتحہ کی قراءت کا حکم بھی ثابت ہے جیسا کہ ہم نے باب اول کی فصل چہارم میں بیان کر دیا ہے۔ پھر صحابی رسول کے لفظ سنت سے سنت نبوی مراد نہ لینے کے لیے جو اصول آپ نے بیان کیا ہے، وہ ذرا خود دوبارہ پڑھیں اور ہمیں نماز جنازہ میں ثنا پڑھنے کے بارے میں کسی صحیح حدیث سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یا حکم دکھا دیں۔ حالانکہ صحابی رسول نے نماز جنازہ میں اگر فاتحہ کی قراءت کو سنت کہا ہے تو اس سے مراد سنتِ رسول ہی ہے کیونکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قراءت کا حکم بھی دیا ہے اور دوسرے صحابی سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے بھی نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قراءت کو سنت نبوی قرار دیا ہے۔
اتنی وضاحت و صراحت کے بعد بھی کوئی شخص اگر نہ مانے تو اس کی مرضی۔ دعوت فکر دینا ہمارا کام ہے اور ہدایت و توفیق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو صرف حق بات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے! آمین!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے