نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا ایک بدعت ہے
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ 5:3)
’’آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا ہے۔‘‘

یہ عظیم آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی، اور اس میں دینِ اسلام کے کامل ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس دن کے بعد دینِ اسلام میں کسی بھی قسم کا اضافہ اللہ کے نزدیک ناقابل قبول ہے، بلکہ ایسا کرنے کو بدعت شمار کیا جائے گا۔

بدعت کا مفہوم اور اس کا رد

کچھ لوگ زبانی طور پر تو تکمیل دین کے قائل ہیں، لیکن عملی طور پر یہ باور کراتے ہیں کہ دین مکمل نہیں، اسی لیے وہ دینِ محمدی میں اضافے کرتے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث کی اپنی مرضی کی تشریح کر کے اپنے بدعتی اعمال کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی بدعات کو "حسنہ” کا نام دے کر جواز فراہم کرتے ہیں، اور کبھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی بدعت شریعت کے کسی حکم کے خلاف نہیں۔ یوں وہ اپنے دامن کو بدعات اور ناپسندیدہ اعمال سے بھر لیتے ہیں۔

امام مالک کا قول

ایسے لوگوں کے بارے میں امامِ حرمین، فقیہِ مدینہ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جو شخص آج کے دن کوئی نیا کام ایجاد کرے، جس پر اس امت کے اسلاف نے عمل نہیں کیا، تو اس نے یہ گمان کیا کہ (معاذ اللہ) رسول اللہ ﷺ نے رسالت میں خیانت کی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ، یعنی جو چیز اُس دن دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتی۔” (الإحکام في أصول الأحکام: 85/6، وسندہ حسن)

بدعتی افراد کا رویہ

علامہ ابراہیم بن موسیٰ شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "بدعتی شخص شریعت کا مخالف ہوتا ہے، کیونکہ شارع نے بندوں کے لیے خاص طریقے اور خاص انداز مقرر کیے ہیں۔ ان طریقوں میں اللہ تعالیٰ نے ساری بھلائی رکھی ہے، اور ان سے تجاوز کرنے میں نقصان ہے، کیونکہ اللہ جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے۔ بدعتی شخص ان ساری باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی طرف سے نئے طریقے ایجاد کرتا ہے، اور اگر بدعتی کا یہ عقیدہ ہو کہ وہ شارع سے زیادہ جانتا ہے، تو یہ شریعت و شارع کے ساتھ کفر ہے۔ اگرچہ یہ اعتقاد نہ ہو، تو بھی بدعت واضح گمراہی ہے۔” (الاعتصام: 65/1)

بدعت: نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا

مصافحہ سنت نبوی ہے، لیکن نمازِ عصر اور نمازِ فجر کے بعد مصافحہ کو خاص کرنا بدعت ہے۔ نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ایسا قطعاً ثابت نہیں۔ یہ عمل بدعتِ سیئہ اور باطل ہے۔ اگر یہ خیر کا کام ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کی تعلیم دیتے۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان

رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’مجھ سے پہلے جتنے بھی نبی گزرے ہیں، ان پر یہ فرض تھا کہ جس چیز کو وہ اپنی امت کے لیے بہتر جانتے، اس کی طرف ان کی راہنمائی کرتے، اور جس چیز کو برا جانتے، اس سے انہیں ڈراتے۔‘‘ (صحیح مسلم: 1844)

علامہ ابن رجب کا قول

علامہ عبدالرحمن بن احمد ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "جو شخص کسی ایسے عمل کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے قربت کا ذریعہ نہیں بنایا، تو اس کا یہ عمل باطل اور مردود ہے۔” (جامع العلوم والحکم: 178/1)

اہل علم کا موقف

اہل علم نے نماز کے بعد مصافحہ کرنے کو بدعت قرار دیا ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ نے اس کے جواز کی طرف رجحان کیا، لیکن اہل علم نے ان کی بات کو رد کر دیا، جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر علماء نے بیان کیا ہے۔

حافظ ابن حجر کا قول

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "علامہ نووی کا کہنا ہے کہ مصافحہ سنت ہے اور بعض اوقات میں اس کی پابندی کرنا اس کو سنت سے خارج نہیں کرتا۔ تاہم، میں کہتا ہوں کہ اس پر غور کی ضرورت ہے، کیونکہ نفل نماز سنت ہے، لیکن محققین نے کسی خاص وقت کے ساتھ اسے خاص کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔” (فتح الباری: 55/11)

ملا علی قاری کا قول

ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "علامہ نووی کے کلام میں تناقض ہے، کیونکہ کسی سنت پر بعض اوقات عمل کرنا بدعت نہیں کہلاتا۔ تاہم، نماز کے بعد مصافحہ کرنا مشروع نہیں۔ یہ بدعت ہے، کیونکہ مصافحہ کا اصل وقت ملاقات کا آغاز ہے۔” (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: 458/8)

دیگر علماء کا موقف

علامہ عزالدین عبد السلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "نمازِ فجر و عصر کے بعد مصافحہ بدعت ہے، سوائے اس شخص کے جو نماز سے پہلے ملاقات نہ کر سکا ہو۔” (فتاوی عز عبد السلام: 389)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز کے بعد مصافحہ سنت ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: "نماز کے بعد مصافحہ بدعت ہے۔” (مجموع الفتاوی: 339/23)

علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "نمازِ فجر و عصر اور جمعہ کے بعد مصافحہ کرنا بدعت ہے، کیونکہ شریعت میں مصافحہ کا وقت ملاقات کا آغاز ہے، نہ کہ نماز کے بعد۔” (المدخل: 223/2)

علامہ ابن عابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "نماز کے بعد مصافحہ کرنا مکروہ ہے، کیونکہ صحابہ کرام نے کبھی نماز کے بعد مصافحہ نہیں کیا۔” (رد المحتار علی الدر المختار: 381/6)

علامہ عبدالحي لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ہمارے دور میں نماز کے بعد مصافحہ کرنا ایک عام بدعت بن چکا ہے، جس کا ترک کرنا ضروری ہے۔” (السعایۃ في الکشف عمّا في شرح الوقایۃ: 264)

خلاصہ

نمازوں کے بعد مصافحہ کرنا بدعت ہے، اور شریعت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بدعات سے محفوظ فرمائے اور سنتِ رسول کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!