نقاب اور برقعہ کا حکم
فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : ① جس لباس پر بعض قرآنی آیات یا کلمہ طیبہ پرنٹ ہو تو عورتوں کے لئے ایسا لباس پہنے کا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟
② اسلام میں برقعہ اوڑھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : ایسے ملبوسات زیب تن کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن انہیں توہین اور بےادبی سے بچانا ضروری ہے۔ جن ملبوسات پر قرآنی آیات پرنٹ ہوں، ان میں سونا نہیں چاہئے یا ایسا لباس پہن کر خلوت گاہوں میں نہیں جانا چاہئے، اگر اس کی ضرورت ہو تو لباس سے مقدس آیات اور محترم نام مٹا کر ہی اسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر ان کا احترام لازم ہے۔
برقعہ ایسا لباس ہے جو چہرے کی مقدار کے مطابق تیار کیا جاتا ہے۔ دیکھنے کے لئے آنکھوں کے سامنے سوراخ رکھے جاتے ہیں۔ ایسا لباس پہننا جائز ہے۔ حالت احرام کے علاوہ اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
ولا تنتقب المرأة [أبوداؤد كتاب المناسك باب 32]
” کہ عورت (دوران احرام) نقاب نہ اوڑھے۔ “
نقاب برقع ہی سے عبارت ہے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ برقع احرام کے علاوہ جائز ہے لیکن سوراخ اس قدر کھلے نہ ہوں کہ چہرے کا کوئی حصہ مثلاً، ناک، ابرو یا رخساروں کا کچھ حصہ ظاہر ہو کیونکہ اس طرح وہ بعض مردوں کے لئے باعث فتنہ بن سکتی ہے۔ اگر عورت برقع کے اوپر ایک باریک سا دوپٹہ اوڑھ لے جو دیکھنے میں رکا وٹ نہ بنے اور چہرے کے خدوخال چھپا سکے تو زیادہ موزوں ہو گا۔
سوال : بعض معمر عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ نوجوان اپنی ممانی کے پاس بیٹھ سکتا ہے۔ کیوں کہ وہ اس کی خالہ جیسی ہے۔ میں نے انہیں ان کی یہ غلطی باور کرانا چاہی اور بتایا کہ محرم رشتوں کی تفصیل بتانے والی آیت بالکل واضح ہے مگر وہ اس پر مطمئن نہیں ہوتیں۔ آپ اس کے متعلق انہیں کچھ بتانا چاہیں گے ؟
جواب : اس میں کوئی شک نہیں کہ ممانی اپنے خاوند کے بھانجے کے لیے اجنبی ہے۔ وہ خاوند سے فراق (علیحدگی) کے بعد اس کے لئے حلال ہے، اس بنا پر وہ اس کے سامنے بےپردہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے ساتھ خلوت میں نہیں جا سکتی۔ وہ بھی اس کے چہرے اور دیگر محاسن کو نہیں دیکھ سکتا۔
مندرجہ ذیل آیت میں بیان کردہ رشتوں میں خاوند کے بھانجے کا تذکرہ نہیں ہوا :
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ [24-النور:31]
”آپ ایمان والی عورتوں سے فرما دیجئیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا سنگھار ظاہر نہ ہونے دیں، مگر ہاں جو اس میں سے کھلا رہتا ہے، اور اپنی اوڑھیاں اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر ہاں اپنے شوہر پر، اپنے باپ پر، اپنے شوہر کے باپ پر، اپنے بیٹوں پر، اپنے شوہر کے بیٹوں پر، اپنے بھائیوں پر، اپنے بھتیجوں پر، اپنے بھانجوں پر اور اپنی (میل جول والی) عورتوں پر۔“
اسی طرح اس کا ذکر اس آیت میں بھی محرم رشتوں کے ساتھ نہیں ہوا :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ [4-النساء:23]
اس پر اس کے محرم ہونے کا اعتقاد رکھنا بے اصل ہے۔ پس اس سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1