اس مضمون میں، (إن شاء اللہ: اگر اللہ نے چاہا) ہم ایک نہایت خطرناک گروہ—“منافقین”—کا تعارف، ان کی اقسام، بنیادی علامات اور اس کے دینی و سماجی نقصانات واضح کریں گے۔ ابتدا میں نفاق کی لغوی و اصطلاحی تعریف پیش کی جائے گی، پھر نفاقِ اکبر (اعتقادی) اور نفاقِ اصغر (عملی) کا فرق، ان کے اثرات اور نتائج بیان ہوں گے۔ ساتھ ہی قرآن و حدیث کے دلائل بعینہٖ نقل کیے جائیں گے، جبکہ عربی اصطلاحات کا مفہوم اردو میں کھول کر بتایا جائے گا۔ آخر میں مجمل خلاصہ اور نتائج الگ عنوانات کے تحت دیں گے۔
نفاق: تعریف اور پس منظر
لغوی معنی
’نفاق‘ عربی مادہ نَافَقَ سے مصدر ہے: نَافَقَ یُنَافِقُ نِفَاقًا وَمُنَافَقَۃً—جس کا مفہوم ہے “چھپانا، حقیقت پر پردہ ڈالنا”۔ منافق کو “منافق” اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے باطن کو چھپاتا اور ظاہر میں اس کے خلاف پیش آتا ہے۔
اشتقاقی اشارہ
’نفاق‘ کو نَافِقَاء سے بھی جوڑا جاتا ہے—یہ ’یربوع‘ (ریگستانی چوہا) کے بل کا خفیہ خروجی راستہ ہے: داخلہ ایک سوراخ سے اور فرار دوسرا، جس پر باہر سے پردہ رہتا ہے۔ جب ایک سوراخ پر پکڑا جائے تو دوسرے سے نکل بھاگتا ہے۔ اسی مناسبت سے منافق بھی اسلام میں ایک دروازے سے “داخل” ہو کر دوسرے سے “نکل” جاتا ہے۔ بعض اہلِ لغت نے اسے نَفَق (سرنگ/چھپنے کا سراخ) سے مشتق بتایا ہے۔ [ النھایۃ لإبن الأثیر : ۵/۹۸ ]
شرعی اصطلاح
شرعاً ’نفاق‘ کا معنی ہے: اسلام ظاہر کرنا اور کفر/شر کو دل میں چھپانا۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں فرمایا:
﴿ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ﴾ [ التوبۃ : ۶۷]
ترجمہ: “بے شک منافق ہی فاسق لوگ ہیں۔”
فاسق یعنی وہ جو دائرہ شریعت سے نکل جاتے ہیں۔
نفاق کی اقسام
① نفاقِ اکبر (اعتقادی)
اس میں شخص ظاہراً مسلمان رہتا ہے مگر باطن میں کفر چھپاتا ہے۔ یہ صریح ارتداد ہے، اس کے ساتھ انسان دین سے مکمل خارج ہو جاتا ہے اور (والعیاذ باللّٰہ: ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں) جہنم کے سب سے نچلے طبقے کا مستحق بنتا ہے۔ یہ لوگ عموماً اُس وقت بڑھتے ہیں جب اسلام کی شوکت غالب ہو اور وہ کھل کر مخالفت نہ کر سکیں؛ تب ظاہری اسلام کے پردے میں بیٹھ کر سازشیں کرتے اور مسلمانوں کی جان، آبرو اور مال کے تحفظ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
نفاقِ اکبر کی صورتیں (مثالیں):
01. رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانا، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کے بعض حصے کو جھٹلانا۔
02. رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلی دشمنی رکھنا، یا شریعتِ محمدی کے بعض حصوں سے بغض رکھنا۔
03. امتِ مسلمہ کے زوال پر خوش ہونا، اور دینِ اسلام کے غلبہ و مسلمانوں کی فتوحات پر غمگین ہونا۔
② نفاقِ اصغر (عملی)
اس میں دل کا ایمان باقی رہتا ہے مگر انسان منافقوں جیسے افعال یا صفات اختیار کرتا ہے—مثلاً کثرتِ جھوٹ، وعدہ خلافی، امانت میں خیانت وغیرہ۔ یہ ایمان سے خارج نہیں کرتا؛ ایسے شخص میں ایمانی و غیر ایمانی خصلتیں بیک وقت پائی جا سکتی ہیں اور وہ اپنے اچھے/برے اعمال کے مطابق ثواب یا عقاب کا مستحق ہوگا۔
نفاقِ اکبر اور نفاقِ اصغر: بنیادی فرق
◈ خروج از اسلام: نفاقِ اکبر اسلام سے خارج کر دیتا ہے؛ نفاقِ اصغر نہیں۔
◈ مومن کی نسبت: پکا مومن نفاقِ اکبر کا مرتکب نہیں ہو سکتا؛ نفاقِ اصغر کا صدور ممکن ہے۔
◈ انجامِ آخرت: نفاقِ اکبر پر مرنے والا ابدی جہنمی؛ نفاقِ اصغر پر بلا توبہ موت کی صورت میں معاملہ مشیتِ الٰہی پر ہے—اللہ چاہے تو توحید کی بنا پر بخش دے یا سزا دے کر جنت میں داخل کرے۔
نفاق: ایک مہلک مرض
نفاق دل کی بیماری ہے جسے اللہ مزید بڑھا دیتا ہے:
﴿ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ ﴾ [ البقرۃ :۱۰]
ترجمہ: “ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا… اور جھوٹ بولنے کے عوض ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔”
صحابۂ کرام کا خوفِ نفاق
سلف صالحین خصوصاً صحابہ رضی اللہ عنہم نفاق سے کانپتے تھے۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں:
( أَدْرَکْتُ ثَلَاثِیْنَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّہُمْ یَخَافُ النِّفَاقَ عَلٰی نَفْسِہِ ) [ البخاری ۔ کتاب الإیمان باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ وہو لا یشعر ]
“میں نے تیس صحابہ کو پایا، ہر ایک کو اپنے اوپر نفاق کا خوف تھا۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ حذیفہ رضی اللہ عنہ (اصحابِ سرّ) سے پوچھتے رہتے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام منافقین میں لیا؟—حالانکہ آپ وہ ہیں جن کے راستے سے شیطان کتراتا تھا، جن کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی دعا فرمائی اور جنت کی بشارت سنائی۔ اگر وہ خود خائف رہے تو ہمیں بدرجۂ اولیٰ ڈرنا چاہیے۔
قرآن کا منہج: نقاب کشائیِ نفاق
اللہ تعالیٰ نے منافقین کے پہلو بہ پہلو بھید کھولے، تاکہ بندے ان کے شر سے بچیں۔ ایک مکمل سورت سورۃ المنافقون نازل فرمائی اور صاف حکم دیا:
﴿ ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ ﴾ [ المنافقون : ۴]
ترجمہ: “یہی دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔”
سورۃ البقرۃ کی ابتدا میں مومنین، کفار اور منافقین—تین گروہ—ذکر ہوئے: مومنین چار آیات، کفار دو آیات، جبکہ منافقین پورا ایک رکوع (تیرہ آیات)۔ یہ اس لیے کہ ان کی کثرت اور فتنہ انگیزی کا اندیشہ زیادہ تھا۔
تاریخِ اسلام کی روشنی میں منافقین کے فتنوں کا خاکہ
اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ منافقین کی دسیسہ کاریوں نے بارہا امت کو سخت نقصانات پہنچائے۔ بظاہر “نصرتِ اسلام” کا لبادہ اوڑھ کر یہ لوگ اندرونِ خانہ سازشیں بُنتے، مسلمانوں کے راز اگلتے اور کمزور مقامات پر ضرب لگاتے رہے۔ یہی طرزِ عمل آج بھی مختلف شکلوں میں موجود ہے—اللہ مسلمانوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔
منافق کی نمایاں نشانیاں (قرآن و سنت کی روشنی میں)
01) جھوٹ بولنا
منافق کی بڑی علامت “کذب” ہے—زبان پر سچ شاذ و نادر۔ خود قرآن نے ان کے جھوٹ کی شہادت دی:
﴿اِِذَا جَآئَکَ الْمُنَافِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِِنَّکَ لَرَسُوْلُہٗ وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَکٰذِبُوْنَ ﴾ [ المنافقون :۱]
ترجمہ: “جب منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں… اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافق جھوٹے ہیں۔”
اسی مضمون کو یوں بھی بیان کیا:
﴿ یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَہٗ کَمَا یَحْلِفُوْنَ لَکُمْ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلٰی شَیْئٍ اَلَآ اِِنَّہُمْ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ﴾ [ المجادلۃ : ۱۸]
ترجمہ: “وہ اللہ کے سامنے بھی ویسے ہی جھوٹی قسمیں کھائیں گے جیسے تمہارے سامنے… خبردار! یہی جھوٹے ہیں۔”
اور فرمایا:
﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا ھُمْ بِمُؤمِنِیْنَ﴾ [ البقرۃ : ۸]
ترجمہ: “لوگوں میں کچھ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے، حالانکہ وہ مومن نہیں۔”
02) مکرو فریب اور دھوکہ دہی
منافقین حتیٰ کہ اللہ اور مومنین کو بھی “فریب” دینے کی سعی کرتے ہیں (اگرچہ وہ اپنے آپ ہی کو دغا دیتے ہیں):
﴿یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ وَمَا یَشْعُرُوْنَ٭ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ﴾ [ البقرۃ : ۹۔۱۰]
ترجمہ: “وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں… ان کے لیے دردناک عذاب ہے، اس جھوٹ کے سبب جو وہ بکتے ہیں۔”
03) “اصلاح” کے نام پر فساد
منافقین اصلاح کا نعرہ لگا کر درحقیقت فساد پھیلاتے ہیں:
﴿ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْٓا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ٭اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لَکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۱۔۱۲]
ترجمہ: “جب ان سے کہا جائے: زمین میں فساد نہ کرو، وہ کہتے ہیں: ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں… سن لو! یہی مفسد ہیں مگر سمجھتے نہیں۔”
عصرِ حاضر کی مثالیں: جعلی پیر، نجومی، جادوگر—جو عوام کو لوٹ کر گھروں، عزتوں اور معیشت کو تباہ کرتے ہیں۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے دروازے کی سختی سے بندش فرمائی:
( مَنْ أَتَی عَرَّافًا فَسَأَلَہُ عَنْ شَيْئٍ لَمْ تُقْبَلْ لَہُ صَلَاۃُ أَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ) [ مسلم : ۲۲۳۰]
ترجمہ: “جو شخص کاہن/نجومی کے پاس جا کر سوال کرے، اس کی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں۔”
اور تصدیق کرنا تو کفر ہے:
(مَنْ أَتٰی عَرَّافًا أَوْ کَاہِنًا فَصَدَّقَہُ بِمَا یَقُوْلُ فَقَدْ کَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وسلم ) [ صحیح الجامع للألبانی : ۵۹۳۹]
04) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن
صحابۂ رسول کے ذریعے دین ہم تک پہنچا؛ ان پر طعن منافقانہ روش ہے:
﴿ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْٓا اَنُؤمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآئُ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآئُ وَ لٰکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۳ ]
ترجمہ: “جب انہیں کہا جائے: ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے، تو کہتے ہیں: کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لائیں! خبردار! یہی احمق ہیں مگر نہیں جانتے۔”
یہاں “الناس” سے مراد وہی صحابہ ہیں جو نزولِ آیت کے وقت ایمان لا چکے تھے۔ آج بھی جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سمیت صحابہ پر بہتان باندھتے ہیں، وہ اسی زمرے میں آتے ہیں، حالانکہ واقعۂ افک میں قرآن نے ان کی براءت نازل فرما دی۔
05) عہد شکنی اور غداری
اللہ سے وعدہ کر کے پھر جانا—یہ بھی منافق کی پہچان ہے:
﴿ وَ مِنْھُمْ مَّنْ عٰھَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ٭ فَلَمَّآ اٰتٰھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ بَخِلُوْا بِہٖ وَ تَوَلَّوْا وَّ ھُمْ مُّعْرِضُوْنَ٭ فَاَعْقَبَھُمْ نِفَاقًا فِیْ قُلُوْبِھِمْ اِلٰی یَوْمِ یَلْقَوْنَہٗ بِمَآ اَخْلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوْہُ وَ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْن ﴾ [ التوبۃ : ۷۵۔ ۷۷]
ترجمہ: “جب اللہ نے (مال) دیا تو بخل کیا، پھر منہ موڑ گئے… تو اللہ نے ان کے دلوں میں ملاقاتِ رب تک کے لیے نفاق جما دیا، اس وعدہ خلافی اور جھوٹ کے سبب۔”
06) کفار و یہود سے دوستی اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں
منافقین کی ایک خطرناک علامت یہ ہے کہ وہ اسلام کے دشمنوں — خصوصاً یہود و نصاریٰ — سے دوستی کا تعلق جوڑ کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ بَشِّرِ الْمُنٰفِقِیْنَ بِاَنَّ لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا ٭ الَّذِیْنَ یَتَّخِذُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤمِنِیْنَ اَیَیْتَغُوْنَ عِنْدَھُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا ﴾ [ النساء : ۱۳۸ ۔ ۱۳۹]
ترجمہ:
“منافقوں کو خوشخبری دے دیجیے کہ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت چاہتے ہیں؟ حالانکہ عزت تو ساری اللہ ہی کے لیے ہے۔”
اسی طرح فرمایا:
﴿ اَلَمْ تَرَ اِِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلاَ مِنْہُمْ وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ ﴾ [ المجادلۃ : ۱۴]
ترجمہ:
“کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ان قوموں سے دوستی لگاتے ہیں جن پر اللہ کا غضب ہوا؟ نہ وہ تم میں سے ہیں نہ ان میں سے۔ اور وہ جانتے بوجھتے جھوٹ پر قسمیں کھاتے ہیں۔”
اللہ کا غضب جن پر ہوا وہ یہود ہیں۔ مدینہ کے منافقین ان یہود سے محبت و دوستی رکھتے تھے اور ان کے ساتھ خفیہ رابطے رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ مَا ہُمْ مِّنْکُمْ وَلاَ مِنْہُمْ ﴾ — “نہ یہ تمہارے ہیں، نہ ان کے۔”
یعنی یہ دھوبی کے کتے کی طرح ہیں، نہ گھر کے نہ گھاٹ کے۔
مزید وعید سنائی:
﴿ اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا اِِنَّہُمْ سَآئَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ٭ اتَّخَذُوْٓا اَیْمَانَہُمْ جُنَّۃً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ﴾ [ المجادلۃ : ۱۵۔ ۱۶]
ترجمہ:
“اللہ نے ان کے لیے سخت عذاب تیار کیا ہے۔ انہوں نے اپنی قسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، تو ان کے لیے رسواکن عذاب ہے۔”
07) شریعتِ الٰہی سے انکار اور طاغوتی قوانین پر عمل
منافق کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔ بلکہ وہ طاغوتی (غیر شرعی) نظام پر فخر کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا ٭ وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا ﴾ [ النساء :۶۰ ۔ ۶۱ ]
ترجمہ:
“کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لائے ہیں جو آپ پر اور آپ سے پہلے نازل ہوا، مگر وہ چاہتے ہیں کہ اپنے مقدمے کا فیصلہ طاغوت سے کروائیں؟ حالانکہ انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ طاغوت کا انکار کریں۔ اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ آؤ اس طرف جو اللہ نے نازل کیا اور رسول کی طرف، تو آپ دیکھتے ہیں کہ منافق آپ سے منہ موڑ لیتے ہیں۔”
08) نماز میں سستی اور ریاکاری
منافقوں کی ایک نمایاں صفت نماز میں کاہلی اور دکھاوے کی نیت سے عبادت ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ وَإِذَا قَامُوْا إِلَی الصَّلاَۃِ قَامُوْا کُسَالٰی یُرَاؤُنَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ إِلاَّ قَلِیْلاً ﴾ [ النساء : ۱۴۲]
ترجمہ:
“یہ منافق اللہ سے دھوکہ کرتے ہیں، حالانکہ اللہ ہی ان کے دھوکے کا بدلہ دیتا ہے۔ جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھانے کے لیے، اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔”
اور ایک جگہ فرمایا:
﴿ وَ لَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلَّا وَ ھُمْ کُسَالٰی﴾ [ التوبۃ :۵۴]
ترجمہ: “وہ نماز کو نہیں آتے مگر کاہلی کے ساتھ۔”
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( إِنَّ أَثْقَلَ صَلَاۃٍ عَلَی الْمُنَافِقِیْنَ صَلَاۃُ الْعِشَائِ وَصَلَاۃُ الْفَجْرِ ، وَلَوْ یَعْلَمُوْنَ مَا فِیْہِمَا لَأَتَوْہُمَا وَلَوْ حَبْوًا ) [ البخاری : ۶۴۴ ، مسلم : ۶۵۱]
ترجمہ:
“منافقوں پر سب سے بھاری نماز عشاء اور فجر ہے۔ اگر وہ جان لیں کہ ان میں کیا اجر ہے تو گھٹنوں کے بل چل کر بھی آئیں۔”
09) باجماعت نماز سے غفلت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
(وَلَقَدْ رَأَیْتُنَا وَمَا یَتَخَلَّفُ عَنْہَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَّعْلُومُ النِّفَاقِ …) [ مسلم : ۶۵۴ ]
ترجمہ:
“ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں دیکھا کہ صرف وہی شخص جماعت سے پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق سب پر ظاہر ہو چکا ہوتا تھا۔”
10) برائی کا حکم دینا اور نیکی سے روکنا
قرآن کہتا ہے:
﴿ اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُھُمْ مِّنْ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ یَقْبِضُوْنَ اَیْدِیَھُمْ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ [ التوبۃ : ۶۷]
ترجمہ:
“منافق مرد و عورت ایک دوسرے کے ہم مثل ہیں؛ وہ برائی کا حکم دیتے ہیں، نیکی سے روکتے ہیں، اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ سے) روکے رکھتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، تو اللہ نے انہیں بھلا دیا۔ یہ لوگ نافرمان ہیں۔”
11) مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا
منافقوں کی ایک بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے اتحاد کو توڑنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ کبھی مساجد کو اختلاف و انتشار کا مرکز بناتے ہیں، کبھی گروہ بندی کے نام پر فساد برپا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس کی مثال مسجد ضرار کے واقعے سے دی ہے:
﴿ وَ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤمِنِیْنَ وَ اِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ مِنْ قَبْلُ وَ لَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَآ اِلَّا الْحُسْنٰی وَ اللّٰہُ یَشْھَدُ اِنَّھُمْ لَکٰذِبُوْنَ ﴾ [ التوبۃ :۱۰۷]
ترجمہ:
“اور وہ لوگ جنہوں نے ایک مسجد بنائی اس غرض سے کہ (اسلام کو) نقصان پہنچائیں، کفر پھیلائیں، مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور اسے ان لوگوں کے لیے کمین گاہ بنائیں جو پہلے اللہ اور رسول سے لڑ چکے ہیں۔ وہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہمارا ارادہ بھلائی کے سوا کچھ نہیں، مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں۔”
یہ آیت اُن منافقین کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے “مسجد ضرار” تعمیر کی۔ بظاہر عبادت گاہ، مگر حقیقت میں اسلام دشمنی اور مومنین میں تفرقے کا اڈا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں نماز پڑھنے کی دعوت دی گئی، مگر وحی کے ذریعے حقیقت کھلنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد کو منہدم کر دینے کا حکم فرمایا۔
عبرت:
افسوس کہ آج بھی بہت سے لوگ مساجد کو اتحادِ امت کا مرکز بنانے کے بجائے گروہی تعصبات کا گہوارہ بناتے ہیں۔ منبر و محراب سے قرآن و سنت کے بجائے اپنی جماعتی نظریات پھیلاتے ہیں، جس کے نتیجے میں امتِ مسلمہ تفرقوں میں بٹتی جا رہی ہے۔
12) حقائق کو مسخ کرنا اور افواہیں پھیلانا
منافقوں کا ایک خاص ہتھیار جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ وہ سچائی کو مسخ کر کے بے بنیاد خبریں پھیلاتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں اضطراب پیدا ہو۔
اس کی سب سے واضح مثال “واقعۂ اِفک” ہے، جس میں منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بدکاری کا بہتان لگایا۔
واقعہ کی حقیقت:
غزوۂ بنی مصطلق سے واپسی پر جب قافلہ مدینہ کے قریب اترا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قضائے حاجت کے لیے گئیں۔ واپسی پر ان کا ہودج (سواری کا تختہ) خالی اٹھا لیا گیا کیونکہ وہ دبلی پتلی تھیں۔ لشکر روانہ ہو گیا اور وہ پیچھے رہ گئیں۔ کچھ دیر بعد صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ — جو لشکر کے پیچھے رہ کر گم شدہ چیزیں تلاش کرتے تھے — وہاں پہنچے۔ انہوں نے سیدہ عائشہ کو پہچان کر کہا: “إنا لله وإنا إلیه راجعون”۔ وہ فوراً پردہ کر کے اونٹ پر سوار ہوئیں اور صفوان رضی اللہ عنہ نے ان کی سواری کی نکیل پکڑ کر لشکر تک پہنچا دیا۔
مگر منافقین نے اس منظر کو بہانہ بنا کر افواہ اڑائی کہ سیدہ عائشہ نے (نعوذباللہ) بدکاری کی۔ یہ جھوٹ اتنا پھیلایا گیا کہ مدینہ میں ہلچل مچ گئی۔ حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم شدید رنج میں مبتلا ہو گئے۔ آخرکار اللہ تعالیٰ نے آیاتِ براءت نازل کر کے ام المؤمنین کی پاکیزگی کا اعلان فرمایا اور اس بہتان کو بہتانِ عظیم قرار دیا۔
13) آزمائش کے وقت دین سے پھر جانا
منافق کا ایمان مفاد پر مبنی ہوتا ہے۔ جب خیر نصیب ہو تو خوش، اور جب آزمائش آئے تو دین چھوڑ کر کفر کی طرف لوٹ جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُنِ اطْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ﴾ [الحج :۱۱]
ترجمہ:
“کچھ لوگ اللہ کی عبادت کنارے پر رہ کر کرتے ہیں۔ اگر انہیں بھلائی ملے تو مطمئن رہتے ہیں، اور اگر کوئی آزمائش آ جائے تو منہ موڑ جاتے ہیں۔ یوں وہ دنیا اور آخرت دونوں گنوا دیتے ہیں، یہی صریح نقصان ہے۔”
اسی طرح فرمایا:
﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ … ﴾ [ العنکبوت : ۱۰ ۔ ۱۱]
ترجمہ:
“بعض لوگ کہتے ہیں: ہم ایمان لائے۔ لیکن جب اللہ کی راہ میں انہیں کوئی اذیت پہنچتی ہے تو وہ اسے اللہ کے عذاب کے برابر سمجھ لیتے ہیں۔ اور جب فتح آتی ہے تو کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ تھے۔ اللہ ضرور جان لے گا کہ مومن کون اور منافق کون ہیں۔”
14) مسلمانوں کی مصیبت پر خوش ہونا
منافق دل سے مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں ہوتے۔ اگر مسلمانوں کو کامیابی ملے تو حسد میں جلتے ہیں، اور اگر کوئی مصیبت آئے تو خوش ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ اِنْ تُصِبْکَ حَسَنَۃٌ تَسُؤھُمْ وَ اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ ھُمْ فَرِحُوْنَ ﴾ [ التوبۃ :۵۰ ]
ترجمہ:
“اگر آپ کو کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے، اور اگر مصیبت آئے تو کہتے ہیں: ہم نے تو پہلے ہی احتیاط کر لی تھی۔ پھر خوش خوش پلٹ جاتے ہیں۔”
15) بزدلی، خوف پھیلانا اور صفوں میں دراڑ ڈالنا
منافقین جنگ کے موقع پر خود بھی خوفزدہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ڈراتے ہیں۔ غزوۂ خندق میں جب دشمن ہر طرف سے مدینہ پر ٹوٹ پڑے تو یہی ہوا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ اِذْ جَآئُ وْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْکُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا ٭ ھُنَالِکَ ابْتُلِیَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ زُلْزِلُوْا زِلْزَالًا شَدِیْدًا ﴾ [ الأحزاب : ۱۰۔۱۱ ]
ترجمہ:
“جب دشمن اوپر اور نیچے سے تم پر ٹوٹ پڑے، نگاہیں پتھرا گئیں، کلیجے منہ کو آنے لگے، اور تم اللہ کے بارے میں طرح طرح کے گمان کرنے لگے۔ وہاں مومنوں کی سخت آزمائش ہوئی اور وہ بری طرح ہلا دیے گئے۔”
اسی موقع پر منافقین کہنے لگے:
﴿وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا ﴾ [ الأحزاب : ۱۲]
“منافق اور جن کے دلوں میں روگ تھا کہنے لگے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے بس دھوکے کا وعدہ کیا تھا۔”
16) وفاداریاں بدل لینا
منافق اپنی دنیاوی مصلحت کے لیے بہت جلد وفاداریاں تبدیل کر لیتا ہے۔ وہ موقع پرست ہوتا ہے، جس طرف فائدہ دیکھے اسی طرف جھک جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعًا ٭ اَلَّذِیْنَ یَتَرَبَّصُوْنَ بِکُمْ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ فَتْحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوْٓا اَلَمْ نَکُنْ مَّعَکُمْ وَ اِنْ کَانَ لِلْکٰفِرِیْنَ نَصِیْبٌ قَالُوْٓا اَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَیْکُمْ وَ نَمْنَعْکُمْ مِّنَ الْمُؤمِنِیْنَ ﴾ [ النساء : ۱۴۰ ۔ ۱۴۱ ]
ترجمہ:
“اللہ منافقوں اور کافروں سب کو جہنم میں جمع کرے گا۔ وہ تمہارے بارے میں تاک میں رہتے ہیں؛ اگر تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ملے تو کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو کامیابی ملے تو کہتے ہیں: کیا ہم تم پر قابو نہیں رکھتے تھے اور تمہیں مومنوں سے نہیں بچایا تھا؟”
یہ آیت ان کی “دو رخی پالیسی” کو واضح کرتی ہے۔ افسوس کہ یہی طرز آج بھی سیاسی و سماجی میدان میں عام ہے، جہاں لوگ مفاد کے مطابق فریق بدل لیتے ہیں۔
17) چرب زبانی اور خوش گفتاری
منافقین کا اندازِ گفتگو بہت دلکش ہوتا ہے؛ ان کی زبان پر مٹھاس اور دل میں زہر۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَاِِذَا رَاَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ اَجْسَامُہُمْ وَاِِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ کَاَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ ﴾ [ المنافقون : ۴ ]
ترجمہ:
“اگر آپ انہیں دیکھیں تو ان کے جسم آپ کو بھلے لگیں، اور اگر وہ بات کریں تو آپ ان کی باتوں کو دلچسپی سے سنیں۔ مگر وہ گویا دیوار سے ٹکی ہوئی لکڑیاں ہیں (یعنی بے روح و بے عمل)۔”
اور دیہاتی منافقوں کے بارے میں فرمایا:
﴿ سَیَقُوْلُ لَکَ الْمُخَلَّفُوْنَ مِنَ الْاَعْرَابِ شَغَلَتْنَآ اَمْوَالُنَا وَاَہْلُوْنَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا یَقُوْلُوْنَ بِاَلْسِنَتِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ ﴾ [ الفتح : ۱۱]
ترجمہ:
“پیچھے رہ جانے والے بدو تم سے کہیں گے: ہمارے مال اور اہل نے ہمیں مشغول رکھا، لہٰذا ہمارے لیے بخشش مانگو۔ وہ اپنی زبان سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتا۔”
نبی کریم ﷺ کے ارشادات میں منافق کی نشانیاں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
﴿ آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ : إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ ، وَإِذَا ائْتُمِنَ خَانَ ﴾ [ البخاری : ۳۳]
ترجمہ:
“منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف کرے، اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔”
دوسری روایت میں فرمایا:
﴿ أَرْبَعٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ کَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا … ﴾ [ البخاری : ۳۴]
ترجمہ:
“چار خصلتیں جس میں ہوں وہ پکا منافق ہے: (۱) امانت میں خیانت کرے، (۲) بات کرے تو جھوٹ بولے، (۳) عہد کرے تو توڑ دے، (۴) جھگڑا کرے تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔”
منافقین کا انجام
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ ﴾ [ التوبۃ : ۱۰۱]
ترجمہ:
“تمہارے ارد گرد دیہاتیوں میں بھی منافق ہیں، اور مدینہ میں بھی جو اپنے نفاق پر جمے ہوئے ہیں۔ تم انہیں نہیں جانتے، ہم جانتے ہیں۔ ہم انہیں دو مرتبہ سزا دیں گے، پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔”
اور فرمایا:
﴿ اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ﴾ [ النساء : ۱۴۵]
ترجمہ: “بے شک منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔”
مزید فرمایا:
﴿ وَعَدَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْکُفَّارَ نَارَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا … ﴾ [ التوبۃ : ۶۸]
“اللہ نے منافق مردوں، عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کیا ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔”
اور رسول اکرم ﷺ کو حکم دیا:
﴿ یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ وَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ ﴾ [ التوبۃ : ۷۳]
“اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں؛ ان کا ٹھکانا جہنم ہے، جو بدترین ٹھکانا ہے۔”
حاصلِ کلام
✿ نفاق ایک خطرناک روحانی بیماری ہے جو ایمان کو جلا کر رکھ دیتی ہے۔
✿ نفاق کی دو اقسام ہیں:
① نفاقِ اکبر — باطن میں کفر، ظاہر میں اسلام، جو ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔
② نفاقِ اصغر — اعمالِ منافقین کی مشابہت، جو ایمان کو کمزور کر دیتی ہے۔
✿ قرآن و سنت میں منافقین کی بے شمار نشانیاں بیان ہوئی ہیں، تاکہ مؤمن ان سے بچیں۔
✿ ان میں جھوٹ، وعدہ خلافی، عہد شکنی، ریاکاری، نماز میں سستی، اہلِ ایمان سے بغض، کفار سے دوستی، فرقہ واریت اور تفرقہ انگیزی نمایاں ہیں۔
✿ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جیسے جلیل القدر ایمان والے بھی نفاق سے خائف رہتے تھے، لہٰذا ہمیں بھی اپنے ایمان کی حفاظت کا فکر رکھنی چاہیے۔
نتیجہ
نفاق دراصل دل کی بیماری ہے جو انسان کو ایمان سے دور اور جہنم کے قریب کرتی ہے۔ مومن کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے ظاہر و باطن کو یکساں رکھے، قول و فعل میں سچائی اپنائے، عہد و وعدہ کی پاسداری کرے، نمازوں کی پابندی کرے اور مسلمانوں کے اتحاد کو مضبوط بنائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نفاق سے محفوظ رکھے، اخلاص و ایمان پر قائم رکھے، اور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن کے بارے میں فرمایا:
﴿ صِدْقُوا مَا عٰھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ﴾
“جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچ کر دکھایا۔”