نعت خوانی کو بطور پیشہ اختیار کرنا – شرعی حکم
سوال
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کو بطور تجارت یا پیشہ بنانے کا کیا حکم ہے؟ یعنی نعت فروشی کا کیا شرعی مقام ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ نعت خوانی کو بطور پیشہ اپنانا شرعاً حرام ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و تعریف کی دو اقسام ہیں، جن کا جاننا ضروری ہے:
پہلی قسم: اعتدال پر مبنی جائز مدح
◈ ایسی مدح جس میں غلو نہ کیا جائے بلکہ وہ صرف ان اوصاف پر مشتمل ہو جن کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستحق ہیں۔
◈ اس قسم کی نعت میں آپ کے اخلاقِ حسنہ، سیرتِ طیبہ اور اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
◈ یہ جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
دوسری قسم: غلو پر مبنی مدح (حرام)
◈ ایسی تعریف جو حد اعتدال سے تجاوز کر جائے اور اس میں وہ صفات بیان کی جائیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں۔
◈ اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی المسيح ابْنَ مَرْيَمَ، فَاِنَّمَا اَنَا عَبْدُ، فَقُولُوا، عَبْدُاللّٰهِ وَرَسُوْلُهُ»
(صحيح البخاري، احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی: ﴿واذکر فی الکتاب مریم…﴾، ح: ۳۴۴۵)
ترجمہ:
”میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرو جیسے عیسائیوں نے ابن مریم کی تعریف میں غلو کیا۔ میں تو اس کا بندہ ہوں، لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو۔“
◈ اگر کوئی شخص نعت میں یوں کہے:
❀ آپ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کرتے ہیں۔
❀ مجبور اور مضطر لوگوں کی دعائیں قبول کرتے ہیں۔
❀ آپ دنیا و آخرت کے مالک ہیں۔
❀ آپ علمِ غیب رکھتے ہیں۔
تو یہ سب حرام اقوال ہیں اور بعض اوقات یہ انسان کو شرکِ اکبر اور ملت اسلامیہ سے خارج کر دیتے ہیں۔
لہٰذا نعت میں اس انداز سے مدح نہیں کرنی چاہیے جو غلو پر مبنی ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
نعت کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنانا
اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جائز مدح یعنی معتدل نعت کو دنیا کمانے کا ذریعہ بناتا ہے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
◈ اس عمل کو پیشہ بنانا بھی حرام ہے۔
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارمِ اخلاق، اوصافِ حمیدہ اور سیرتِ طیبہ کا ذکر عبادت کی ایک صورت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے۔
◈ اور عبادت کے ذریعے دنیا طلب کرنا جائز نہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿مَن كانَ يُريدُ الحَيوةَ الدُّنيا وَزينَتَها نُوَفِّ إِلَيهِم أَعمـلَهُم فيها وَهُم فيها لا يُبخَسونَ ﴿١٥﴾ أُولـئِكَ الَّذينَ لَيسَ لَهُم فِى الءاخِرَةِ إِلَّا النّارُ وَحَبِطَ ما صَنَعوا فيها وَبـطِلٌ ما كانوا يَعمَلونَ ﴿١٦﴾
سورة هود، آیت 15-16
ترجمہ:
”جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں، ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کی حق تلفی نہیں کی جاتی، یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا کچھ نہیں اور جو عمل انہوں نے دنیا میں کیے سب برباد ہوگئے اور جو کچھ وہ کرتے رہے، وہ سب ضائع اور اکارت ہوگیا۔“
دعا
اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہِ راست پر چلنے اور اپنی عبادات کو اخلاص کے ساتھ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب