سوال
اگر کوئی شخص نشے کی حالت میں دھت ہو اور اسی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دے، تو کیا ایسی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحتِ سوال، مسئلہ کی وضاحت یہ ہے کہ اگرچہ اس معاملے میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم کتاب و سنت کی مضبوط دلیلوں کی روشنی میں علمائے اسلام اور محققینِ شرع متین کے نزدیک نشے کی حالت میں دی گئی طلاق شرعاً واقع نہیں ہوتی، بشرطیکہ نشے میں مبتلا شخص اپنی ہوش و حواس کھو بیٹھا ہو، یعنی وہ نیکی، بدی، زمین و آسمان اور دائیں بائیں کی پہچان نہ رکھتا ہو۔
کیونکہ طلاق دینے کے لیے ضروری ہے کہ طلاق دینے والا عاقل، بالغ، اور مکمل طور پر بااختیار ہو۔ عقل، بلوغت اور اختیار — یہ تینوں طلاق کی صحت کے بنیادی شرائط ہیں۔
اہلیت کی شرائط
السید سابق مصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإنما تکمل الأھلیة بالعقل والبلوغ والاختیار وفی ھذا یروی أصحاب السنن عن علی رضی اللہ عنه عن النبی صلی اللہ علیه وسلم أنه قال: رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی ٰ یستقظ وعن الصبی حتی ٰ یحتلم وعن المجنون حتی ٰ یعقل.
(فقه السنة : ج 2 ص 211، صحیح البخاری ج 2 ص 794)
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے (یعنی ان کے اعمال شرعاً معتبر نہیں):
➊ سویا ہوا شخص جب تک جاگ نہ جائے،
➋ بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے،
➌ اور پاگل جب تک اسے ہوش نہ آ جائے۔”
نشے میں دھت شخص کا حکم
یہی حکم نشے میں دھت اور مدہوش شخص پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید میں فرمایا گیا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ…٤٣﴾ (النساء)
ترجمہ:
"اے ایمان والو! نماز کے قریب نہ جاؤ جب تم نشے کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔”
پس جب نشے کی حالت میں ادا کی گئی نماز معتبر نہیں، تو نشے میں دی گئی طلاق بھی شرعاً معتبر نہیں ہو سکتی۔
احادیث و آثارِ صحابہ
حضرت ابو ہریرہؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں:
قال کل طلاق جائز إلا طلاق المغلوب علیٰ عقله.
(رواہ الترمذی، فقه السنة ج 2 ص 211)
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہر شخص کی طلاق نافذ ہو جاتی ہے سوائے اس کے جس کی عقل پر پردہ پڑا ہو۔”
—
حضرت عثمانؓ فرماتے ہیں:
لیس لمجنون ولا لسکران طلاق.
(صحیح البخاری ج 2، باب الطلاق فی الإغلاق والکرہہ، ص 793)
ترجمہ:
"پاگل اور نشے میں دھت شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔”
—
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
طلاق السکران المستکره لیس بجائز.
(صحیح البخاری ج 2 ص 793)
ترجمہ:
"نشے میں دھت یا مجبور شخص کی طلاق شرعاً درست نہیں۔”
فقہی آراء
السید محمد سابق مصری لکھتے ہیں:
ذهب جمہور الفقهاء إلیٰ طلاق السکران یقع وقال قوم انه لغو لا عبرة له لانه و والمجنون سواء اذا کلا منھا فاقد العقل الذی ھو مناط التکلیف.
(فقه السنة ج 1 ص 212)
ترجمہ:
جمہور فقہاء کے نزدیک نشے میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے، مگر بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ طلاق لغو اور غیر معتبر ہے، کیونکہ نشی اور مجنون دونوں ہی عقل سے محروم ہوتے ہیں، اور شریعت میں احکام کا دار و مدار عقل پر ہے۔ جب عقل موجود نہ ہو تو شرعی حکم بھی لاگو نہیں ہوتا۔
صحابہ کا اجماع سکوتی
مزید فرمایا:
ذھب بعض اھل العلم انه ا یخالف عثمان فی ذلک احد من الصحابة.
(فقه السنة ج 2 ص 212)
ترجمہ:
بعض اہل علم کے مطابق کسی بھی صحابی نے حضرت عثمانؓ کے اس فتویٰ سے اختلاف نہیں کیا، جس سے اجماعِ سکوتی ثابت ہوتا ہے۔
ائمہ و محدثین کی آراء
✿ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی فتویٰ ہے کہ نشے میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
✿ شافعیہ میں سے علامہ مزنی،
✿ حنفیہ میں سے امام طحاوی اور ابو الحسن عبیداللہ الکرخی،
✿ امام داؤد ظاہری اور تمام اہلِ ظاہر،
✿ امام شوکانی رحمہ اللہ،
✿ اور امام بخاری رحمہ اللہ —
سب کا یہی موقف ہے کہ نشے میں دی گئی طلاق شرعاً واقع نہیں ہوتی۔
یہی موقف دلائل کے لحاظ سے سب سے مضبوط اور حق کے قریب ہے۔ لہٰذا فتویٰ بھی اسی پر ہے کہ جو شخص نشے میں مکمل طور پر مدہوش ہو، اس کی طلاق شرعاً معتبر نہیں۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب