نذر کی تعریف، اقسام، مشروعیت، ممنوع صورتیں اور شرعی احکام کا جامع جائزہ
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نذر صرف اسی وقت درست ہو گی جب اس کے ذریعے اللہ کی رضا مطلوب ہو ، لٰہذا ضروری ہے کہ نذر قرب الٰہی کا ذریعہ ہو اور اللہ کی نافرمانی کے کام میں نذر جائز نہیں
لغوی وضاحت: لفظِ نذر باب نَذَرَ يَنذِرُ (نصر، ضرب) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”نذر ماننا اور کسی غیر واجب کام کو اپنے اوپر واجب کر لینا“ ہے ۔
[المعجم الوسيط: ص/ 912 ، المنجد: ص/ 883 ، لسان العرب: 100/14]
اصطلاحی تعریف: کسی خیر کے کام کا عہد کر لینا نذر کہلاتا ہے ۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 2552/4]
مشروعیت:
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ [الدهر: 7]
”وہ (مومنین ) نذر کو پورا کرتے ہیں ۔“
➋ ایک اور آیت میں یہ لفظ ہیں:
وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ [الحج: 29]
”انہیں چاہیے کہ اپنی نذریں پوری کریں ۔“
➌ سورۃ مائدۃ کی پہلی آیت میں یہ ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ [المائدة: 1]
”اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو ۔“
➍ ایک اور آیت میں عہد کی پاسداری کا حکم دیا گیا ہے:
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا [الإسراء: 34]
”اور عہد و پیمان کو پورا کرو کیونکہ یقیناً عہد کے متعلق پوچھا جائے گا ۔“
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من نذر أن يطيع الله فليطعه ومن نذر أن يعصيه فلا يعصه
”جو شخص اللہ کی اطاعت میں نذر مانتا ہے تو اسے چاہیے کہ اسے پورا کرے اور جو معصیت کی نذر مانتا ہے وہ نافرمانی نہ کرے ۔“
[بخاري: 6696 ، كتاب الأيمان والنذور: باب النذر فى الطاعة ، موطا: 476/2 ، احمد: 36/6 ، ابو داود: 3289 ، ترمذی: 1526 ، نسائي: 17/7 ، ابن ماجة: 2126 ، بيهقي: 68/10]
درج ذیل حدیث بظاہر گذشتہ حدیث کے مخالف معلوم ہوتی ہے:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :
نهى النبى صلى الله عليه وسلم عن النذر ، قال: إنه لا يرد شيئا ، إنما يستخرج به من البخيل
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر سے منع فرمایا ہے نیز فرمایا کہ یہ (نذر ) کچھ نہیں لوٹاتی بلکہ اس کے ذریعے صرف بخیل سے مال نکلوایا جاتا ہے ۔“
[بخاري: 6608 ، كتاب القدر: باب إلقاء العبد النذر إلى القدر ، ابو داود: 3287 ، نسائي: 3801 ، ابن ماجة: 2122]
ان احادیث میں تطبیق یوں دی گئی ہے کہ مال کے ساتھ نذر ماننا جائز نہیں البتہ دیگر نیکی کے کاموں مثلاََ نماز ، روزہ وغیرہ کی نذر ماننا درست ہے بلکہ اسے پورا کرنا باعث اجر و ثواب ہے جیسا کہ آیت:
يُوفُونَ بِالنَّذْرِ [الدهر: 7]
کے متعلق امام طبریؒ نے یہی وضاحت کی ہے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: فتح الباري: 585/11 – 589 ، سبل السلام: 1898/4 ، قفر الأثر: 1716/5 – 1718]
(شافعیؒ ، مالکؒ ، احمدؒ) نذر ماننا مکروہ ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے ۔
[مغنى المحتاج: 454/4 ، المغنى: 621/13 ، سبل السلام: 1898/4]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
لا نذر فى معصية
”نافرمانی کے کام میں نذر جائز نہیں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2816 ، كتاب الأيمان والنذور: باب من رأى عليه كفارة إذا كان فى معصية ، ابو داود: 3290 ، ترمذي: 1524 ، احمد: 247/6 ، إرواء الغليل: 2590]
اور معصیت کی نذر کی ایک صورت یہ ہے کہ اولاد کے درمیان مساوات سے پیش نہ آنا یا شریعت کی مخالفت کرتے ہوئے ورثاء کے حقوق میں کمی بیشی کرنا
جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے والد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا:
اتقوا الله واعدلوا بين أولادكم
”اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو ۔“
[بخاري: 2586 ، كتاب الهبة وفضلها: باب الهبة للولد ، مسلم: 1623 ، احمد: 268/4 ، مؤطا: 751/2 ، ترمذی: 1367 ، ابن ماجة: 3376]
شریعت کے مخالف ہونے کی وجہ سے یہ نذر معصیت کی نذر ہو گی اور معصیت کی نذر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے جیسا کہ ابھی پیچھے دلائل ذکر کیے گئے ہیں لٰہذا ایسی کوئی بھی نذر نا جائز ممنوع ہے۔
اور اس کی ایک صورت قبروں پر نذر مانتا ہے اور ایسے کام کی نذر بھی معصیت ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہ دی ہو
قبروں پر نذر ماننا عوام کے ذہنوں میں باطل عقائد مثلا صاحبِ قبر کی تعظیم و تشریف اُجاگر کرنے کی وجہ سے ممنوع ہے کیونکہ یہ معصیت و نافرمانی ہے ۔
جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس شخص کے متعلق فرمایا جس نے اپنا وراثت کا تمام مال بجائے تقسیم کرنے کے کعبہ کے لیے ہبہ کر دیا تھا:
يكفر عن اليمين
”کہ وہ قسم کا کفارہ ادا کرے ۔“
[مؤطا: 481/2 ، بيهقى: 65/10 ، تلخيص الحبير: 176/4]
جب بیت اللہ کے لیے درست نہیں تو مشاہد ، مزارات ، قبوں ، آستانوں اور قبور کے لیے بالا ولٰی ممنوع ہے ۔
[الروضة الندية: 370/2]
شربِ خمر ، کسی کا ناحق قتل ، گالی نکالنے ، کسی کو بے جا مارنے ، مساجد کی تزئین و آرائش اور گناہگاروں کے لیے نذر ماننا تا کہ وہ گناہوں میں مزید مستحکم ہو جائیں اور اس طرح کے دیگر غیر مشروع کاموں میں نذر ماننا ناجائز ہے کیونکہ یہ تمام معصیت اور نافرمانی کے کام ہیں اور پیچھے صیح احادیث ذکر کی گئی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ معصیت کی نذر جائز نہیں ۔
اور جس نے اپنے نفس پر کوئی ایسا کام واجب کر لیا جسے اللہ تعالیٰ نے مشروع نہیں کیا تو وہ اس پر واجب نہیں ہے اور اسی طرح اگر وہ کام مشروع ہو لیکن نذر ماننے والا اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو بھی واجب نہیں
ایک مرتبہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص (دھوپ میں) کھڑا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب میں عرض کیا: اس (ابو اسرائیل) نے نذر مانی ہے کہ وہ سورج (کی دھوپ ) میں کھڑا رہے گا ، نہ بیٹھے گا ، نہ سائے میں آئے گا ، نہ کسی سے کلام کرے گا اور (نہ کچھ کھائے گا یعنی ) روزہ رکھے گا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مروه ليتكلم وليستظل وليقعد وليتم صومه
”اسے حکم دو کہ وہ کلام کرے ، سائے میں آئے ، بیٹھ جائے لیکن اپنا روزہ پورا کر لے ۔“
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
إنما النذر فيما ابتغي به وجه الله
”نذر صرف اس کام میں ہے جس کے ذریعے اللہ کی رضا مقصود ہو ۔“
[بخارى: 6704 ، كتاب الأيمان والنذور: باب النذر فيما لا يملك وفى معصية ، ابو داود: 3300 ، ابن ماجة: 2136 ، دارقطني: 160/4 ، بيهقي: 75/10 ، شرح السنة: 24/10]
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے بزرگ کو دیکھا جو اپنے بیٹوں کے (کندھوں کے) درمیان سہارا لے کر چل رہا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق دریافت کیا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ اس نے پیدل چلنے کی نذر مانی ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله تعالى عن تعذيب هذا نفسه لغنى وأمره أن يركب
”اللہ تعالیٰ کسی کے اپنے نفس کو عذاب دینے سے غنی ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سوار ہونے کا حکم دیا ۔“
ایک روایت میں یہ وضاحت ہے کہ اس بزرگ شخص نے بیت اللہ کی طرف پیدل چل کے جانے کی نذر مانی تھی ۔
[بخاري: 1865 ، 6701 ، كتاب الأيمان والنذور: باب النذر فيما لا يملك وفي معصية ، احمد: 114/3 – 118 ، ابو داود: 3301 ، ترمذي: 1537 ، نسائي: 3852 – 3853 ، بيهقي: 78/10]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے بیت اللہ کی طرف پیدل چل کے جانے کی نذر مانی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله لغنى عن مشيها ، مروها فلتر كب
”اللہ تعالیٰ اس کے پیدل چلنے سے بے پرواہ ہے ، اسے سوار ہونے کا حکم دو ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: كتاب النذور والأيمان: باب ما جاء فيمن يحلف بالمشي ولا يستطيع ، ترمذى: 1536]
جس نے کوئی غیر معین یا معصیت کی یا ایسے کام کی نذرمانی جس کی اس میں طاقت نہیں تو اس پر قسم توڑنے کا کفارہ لازم ہے
➊ جیسا کہ کعبہ کے لیے اپنا تمام وراثت کا مال وقف کرنے والے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا کہ :
يكفر عن اليمين
”وہ قسم کا کفارہ ادا کرے ۔“
[بيهقى: 65/1]
➋ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
كفارة الـنـذر كفارة اليمين
”نذركا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ۔“
[مسلم: 1645 ، كتاب النذر: باب فى كفارة النذر ، ابو داود: 3324 ، نسائي: 26/7 ، أحمد: 144/4]
➌ ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا نذر فى معصية و كفارته كفارة يمين
”معصیت کے کام میں نذر جائز نہیں اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 2590 ، ابو داود: 3290 ، كتاب الأيمان والنذور: باب من رأى عليه كفارة إذا كان فى معصية ، ترمذي: 1524 ، نسائي: 3834 ، ابن ماجة: 2125 ، احمد: 247/6]
(ابو حنیفہؒ ، شافعیؒ) ایسے شخص کو چاہیے کہ ایک بکری کفارے کے طور پر ذبح کرے ۔
[بدائع الصنائع: 84/5 ، بداية المجتهد: 411/1 ، مغنى المحتاج: 363/4 ، المهذب: 245/1]
(راجح) برحق بات وہی ہے جو گذشتہ احادیث میں بیان کی گئی ہے لٰہذا اس پر عمل کرتے ہوئے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کر دینا چاہیے۔
جس نے حالت شرک میں کسی اچھے کام کی نذر مانی پھر وہ مسلمان ہو گیا تو اس پر لازم ہے کہ نذر پوری کرے
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کروں گا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أوف بنذرك
”اپنی نذر پوری کرو ۔“
[بخاري: 2032 ، كتاب الاعتكاف: باب الاعتكاف ليلا ، مسلم: 1656 ، ابو داود: 3325 ، ترمذي: 1539 ، نسائي: 3820 ، ابن ماجة: 2129 ، أحمد: 37/1 ، حميدي: 304/2 ، بيهقي: 318/4 ، دارمي: 183/2]
➋ میمونہ بنت کردم کے والد نے عرض کیا میں نے بوانہ مقام پر اونٹ نحر کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا ”کیا وہاں کوئی بت یا طاغیہ تو نہیں“ اس نے کہا نہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أوف بنذرك
”اپنی نذر پوری کرو ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1733 ، كتاب الكفارات: باب الوفاء بالنذر ، ابن ماجة: 2131 ، الفتح الرباني: 183/14]
اور نذر وراثت کے ثلث سے ہی ادا ہو گی اور جب نذر ماننے والا فوت ہو جائے اور اس کی طرف سے اس کی اولاد نذر پوری کر دے تو اسے کفایت کر جائے گی
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے عرض کیا کہ میری توبہ میں سے یہ بھی ہے کہ میں اپنے مال سے اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أمسلك عليك بعض مالك فهو خير لك
”اپنا کچھ مال اپنے پاس رکھ لو یہی تمہارے لیے بہتر ہے ۔“
[بخارى: 6690 ، كتاب الأيمان والنذور: باب إذا أهدى ماله على وجه النذر والتوبة ، مسلم: 2769]
ایک روایت میں ہے کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کر دوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ۔“ پھر انہوں نے کہا کہ نصف مال صدقہ کر دوں ۔ آپ نے فرمایا: ”نہیں۔“ پھر انہوں نے کہا کہ تیسرا حصہ صدقہ کر دوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نعم ”ہاں“
[حسن صحيح: صحيح ابو داود: 2842 ، كتاب الأيمان والنذور: باب من نذر أن يتصدق بماله ، ابو داود: 3321]
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی فوت شدہ بہن کے متعلق پوچھا جس نے حج کرنے کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو كان عليها دين أكنت قاضيه؟
”اگر اس پر قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا؟“ اس نے کہا، ”ہاں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فاقض الله فهو أحق بالقضاء
”اللہ تعالیٰ کو بھی ادا کرو کیونکہ وہ قضا کا زیادہ مستحق ہے ۔“
[بخاري: 6699 ، كتاب الأيمان والنذور: باب من مات وعليه نذر ، مسلم: 1638]
➋ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نذر کے متعلق فتویٰ مانگا جو اُن کی والدہ کے ذمے تھی اور وہ اسے پورا کرنے سے پہلے فوت ہو گئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ فتوی دیا کہ وہ (اس نذر کو ) اپنی فوت شدہ والدہ کی طرف سے پورا کر دیں ۔“
[بخاري: 6698 ، أيضا]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی ایک عورت کو مسجد قباء میں نماز پڑھنے کا حکم دیا جس کی والدہ نے قبل از وفات یہ نذر مانی تھی ۔
[بخارى: قبل الحديث/ 6698 ، أيضا]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1