نجاست والے پانی کے استعمال کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، جلد 09

سوال

اگر کسی پانی میں نجاست ، گندگی وغیرہ ہو اور وہ پانی بہہ کر چند کلومیٹر آگے جاتا ہے ۔ پھر کیا اس نجاست یاگندگی والے پانی کو بندہ استعمال کر سکتا ہے حالانکہ نہ تو اس پانی کا رنگ تبدیل ہوا نہ کوئی بو نہ ذائقہ ۔

الجواب

حديث قُلَّتَيْنِ اور حديث اَلْمَاءُ طَهُوْرُ لاَ يُنَجِّسُه شَيْئٌ کی روشنی میں پانی دیکھ کر فیصلہ فرما لیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کیا ہم بضاعہ کے کنویں سے وضو کر سکتے ہیں یہ ایسا کنواں ہے جس میں بدبو دار اشیاء پھینکی جاتی ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی پاک ہے اسے کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی۔ (سنن أبی داؤد،الطہارة، باب ما جاء فی بئر بضاعة، جامع الترمذي،كتاب الطہارة، باب ما جاء ان الماء لا ینجسہ شیء)
معلوم ہوا کہ کنویں کا پانی پاک ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب پانی کی مقدار قُلّتَیْنِ (۲۲۷کلو گرام )ہوتی ہے تو وہ نجاست کو نہیں اُٹھاتا۔ (رواہ أحمدو أبو داؤد والترمذی والنسائی والدارمی و ابن ماجه، بحواله المشکٰوة،کتاب الطہارة،باب المیاہ،الفصل الثانی)
یعنی کسی نجاست کے گرنے سے اس کا وصف (رنگ بو یا ذائقہ) تبدیل نہیں ہوتا لیکن اگر اس سے کم مقدار والے ساکن پانی میں نجاست گر جائے تو اس سے وضو یا غسل نہ کرنا چاہیے خواہ اس کا وصف تبدیل ہو یا نہ ہو اور اگر ۲۲۷ کلو گرام سے زائد پانی ہو اور اس کا وصف بدل جائے تو ناپاک ہے ورنہ پاک ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے