سوال
تفسیر مظہری (صفحہ 401) میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کوئی عورت اپنے آپ کو نبی کریم ﷺ کے نکاح میں بلا مہر پیش کر دے (یعنی ہبہ کر دے) تو یہ خصوصیت نبی ﷺ کے لیے ہے۔ لیکن اسی جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ "وَّہَبَتْ نَفْسَہَا” کا مطلب یہ ہے کہ کوئی عورت خود کو کسی مرد کے نکاح میں بغیر مہر کے دے دے، تو یہ بھی جائز ہے، اور یہ حکم صرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر مسلمان مرد کے لیے عام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ حکم نبی کریم ﷺ کے لیے خاص نہیں بلکہ ہر مرد کے لیے عام ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کے لیے فرمایا:
﴿خَالِصَةٗ لَّكَ مِن دُونِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَۗ﴾
— الأحزاب: 50
’’یہ حکم خاص تیرے لیے ہے، مسلمانوں کے لیے نہیں۔‘‘
یہ آیت بالکل واضح طور پر اس امر کی وضاحت کر رہی ہے کہ جو عورت اپنے نفس کو نبی کریم ﷺ کے لیے ہبہ کرے، یعنی خود کو نکاح کے لیے پیش کرے، اور نبی کریم ﷺ اسے قبول فرما لیں تو یہ حکم صرف اور صرف آپ ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس میں مہر کی شرط نہیں ہے، اور دیگر مسلمانوں کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں۔
لہٰذا اگر کسی شخص نے اس آیت:
﴿خَالِصَةٗ لَّكَ مِن دُونِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَۗ﴾
— الأحزاب: 50
کو "عامۃ للمؤمنین” یعنی سب مسلمانوں کے لیے عام مانا ہے، تو اس نے غلطی کی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب