نبی ﷺ کے دور میں تہجد کی اذان کا ثبوت اور شرعی حیثیت
ماخوذ : احکام و مسائل، نماز کا بیان، جلد 1، صفحہ 115

تہجد کی اذان: کیا یہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے؟ مکمل تحقیقی وضاحت

سوال:

کیا نبی کریم ﷺ سے تہجد کی اذان ثابت ہے؟ اگر ہاں تو اس کی کیا دلیل ہے؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذانوں کا ذکر آتا ہے — ان میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی اذان تہجد کی تھی یا سحری کی؟ اگر وہ تہجد کی اذان نہیں تھی تو پھر اس میں "حی علی الصلاۃ” کا کیا مطلب ہے؟ اگر اس کی تفسیر آیت "فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا” سے کریں تو کیا یہ صرف رمضان کے لیے مخصوص ہے یا رمضان کے علاوہ بھی قابلِ اطلاق ہے؟ اگر اس اذان کو "اذان تہجد” مان لیا جائے تو کیا یہ بدعت شمار ہو گی یا شریعت کے عین مطابق عمل ہو گا؟ وضاحت فرما دیجیے۔

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ کے سوالات کا جواب تفصیل سے دیا جا رہا ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تہجد یا فجر سے قبل اذان کے متعلق جو کچھ احادیث میں آیا ہے، وہ درج ذیل ہے:

تہجد یا فجر سے پہلے اذان کی دلیل:

صحیح بخاری، صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم، اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی احادیث سے یہ بات مرفوع اور صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں صبح صادق سے پہلے اذان دی جاتی تھی۔

صحیح البخاری: المجلد الاول، باب الاذان قبل الفجر، صفحہ 87
صحیح مسلم: جلد اول، صفحہ 350

یہی مضمون سنن نسائی، سنن ابی داود، سنن ترمذی، سنن ابن ماجہ اور دیگر کتب حدیث میں بھی موجود ہے۔

حدیث مبارک:

«قَالَ الْبُخَارِيُّ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْلَمَۃَ عَنْ مَالِکٍ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ رَسُوْلُ اﷲِ ﷺ قَالَ : اِنَّ بِلاَلاً یُؤَذِّنُ بِلَیْلٍ فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یُنَادِیَ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ ۔ قَالَ : وَکَانَ رَجُلاً اَعْمٰی لاَ یُنَادِیْ حَتّٰی یُقَالَ لَہٗ : اَصْبَحْتَ اَصْبَحْتَ»
(صحیح البخاری ۔ المجلد الاول ۔ باب اذان الاعمی اذا کان لہ من یخبرہ ۔ ص ۸۶)

ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"بیشک بلال رات میں اذان دیتے ہیں، پس تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔”
(حضرت ابن ام مکتوم نابینا تھے اور اس وقت تک اذان نہ دیتے جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہو چکی ہے، صبح ہو چکی ہے۔)

اس حدیث سے حاصل نکات:

❀ نبی کریم ﷺ نے واضح طور پر فرمایا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ صبح صادق سے قبل رات کو اذان دیتے تھے۔

❀ ان کی اذان کے بعد بھی سحری کھانے کی اجازت دی گئی، یہاں تک کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔

❀ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں اذانوں کے درمیان ایک وقفہ ہوتا تھا جو محض دو اذانوں کے درمیان معمولی فرق نہیں تھا، بلکہ کافی وقت ہوتا تھا کہ لوگ حضرت ابن ام مکتوم کو "اَصْبَحْتَ” کہتے۔

اذانوں کے وقفہ کا مفہوم:

❀ بعض روایات میں "چڑھنے” اور "اترنے” کا تذکرہ صرف وقت کی قلت کو بیان کرنے کے لیے کیا گیا ہے، تعیینِ وقت کے لیے نہیں۔

❀ لہٰذا، اگر کوئی شخص ان اذانوں کے درمیان وقفہ کو معمولی سمجھے اور اسی پر عمل کرے، تو یہ بھی درست ہے۔

❀ لیکن ایسا کہنا کہ پہلی اذان کی کوئی حیثیت نہیں یا وہ بے فائدہ ہے، غلط ہے۔

❀ اس اذان کے ثبوت کی تصدیق ان احادیث سے مکمل طور پر ہو جاتی ہے۔

"اذانِ تہجد” کا نام اور اس کی حیثیت:

❀ "اذانِ تہجد” کے الفاظ کسی حدیث میں وارد نہیں ہوئے۔

❀ یہ ایک اصطلاح ہے جو بعد کے لوگوں نے خود اختیار کی، جیسے "صلوٰۃ تراویح” کا نام رکھا گیا حالانکہ قرآن و سنت میں یہ الفاظ نہیں ملتے۔

❀ البتہ یہ اذان، قیام رمضان، صلوٰۃ اللیل، صلوٰۃ الوتر وغیرہ جیسے اعمال کی طرح احادیث سے ثابت ہے۔

"حی علی الصلاۃ” کی تشریح:

❀ بعض لوگ اذان بلال رضی اللہ عنہ میں "حی علی الصلاۃ” سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ اذان تہجد کی تھی۔

❀ یہ استدلال درست نہیں کیونکہ "صلاۃ” کا لفظ تہجد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔

❀ اس سے نماز فجر یا دیگر نمازیں بھی مراد ہو سکتی ہیں۔

کیا یہ اذان صرف رمضان کے لیے مخصوص ہے؟

❀ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ یہ اذان صرف رمضان کے لیے ہے، لیکن اس کے حق میں کوئی دلیل نہیں۔

"فَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا” اور "لاَ یَمْنَعَنَّ اَحَدَکُمْ اَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سُحُوْرِہٖ” کو رمضان کے ساتھ خاص نہیں کیا جا سکتا کیونکہ:

◈ سحری، کھانے پینے کا عمل رمضان کے علاوہ بھی روزوں کے لیے ہوتا ہے۔

◈ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام غیر رمضان میں بھی کثرت سے روزے رکھتے تھے۔

❀ اس بنیاد پر، یہ اذان صرف رمضان کے لیے مخصوص نہیں بلکہ عام ہے۔

خلاصہ:

❀ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں فجر سے پہلے ایک اذان حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیا کرتے تھے، جو کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

❀ یہ اذان تہجد کی نہیں بلکہ سحری کی یاد دہانی کے لیے ہوتی تھی۔

❀ اس اذان میں "حی علی الصلاۃ” کا آنا اسے تہجد کی اذان قرار دینے کے لیے کافی دلیل نہیں ہے۔

❀ اس اذان کو "اذان تہجد” کہنا اصطلاحی نام ہے، اور اگر اس نیت سے کہا جائے کہ یہ نبی ﷺ کی سنت ہے تو یہ عمل شریعت کے عین مطابق اور صحیح ہے، بدعت نہیں۔

❀ یہ اذان رمضان کے ساتھ خاص نہیں بلکہ عام ہے۔

ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے