سوال:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا منکر کیسا ہے؟
جواب:
اہل سنت والجماعت کا اجماعی و اتفاقی عقیدہ ہے کہ شفاعت برحق ہے، قرآن مجید نے کئی شفاعتوں کا اثبات کیا ہے، اس بارے میں احادیث متواترہ بیان ہوئی ہیں۔ خارجی، معتزلہ، مرجئہ اور شیعہ روز محشر شفاعت کے منکر ہیں۔ خوارج کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ابدی جہنمی ہے، شفاعت سے اسے خلاصی نہیں مل سکتی۔ یاد رہے کہ جو شفاعت کا منکر ہے، وہ گمراہ اور ظالم ہے، نصوص شرعیہ اور اجماع امت کا سخت مخالف ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اول شافع (سب سے پہلے شفاعت کرنے والے) اور اول مشفع (جن کی شفاعت سب سے پہلے قبول ہوگی) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کئی طرح کی شفاعت ہوگی، مثلاً شفاعت کبریٰ: یہ وہ مقام محمود ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرما رکھا ہے، کہ جب لوگ قبروں سے اٹھ کر گھڑے ہو گے محشر برپا ہو جائے گا، لوگ حساب و کتاب کے لیے بے تاب ہوں گے، اس شدت کے عالم میں لوگ انبیاء کے پاس شفاعت کی غرض سے جائیں گے، وہ معذرت کر لیں گے، بالآخر خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دربار الہی میں سر بسجود ہو جائیں گے اور اللہ رب العزت کی تحمید و ستائش بیان کریں گے، آپ کا شفاعت کا اذن عطا ہو جائے گا، آپ کی شفاعت سے لوگوں کو غم و کرب اور مصیبت و تکلیف سے نجات مل جائے گی۔ یہ شفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔
❀ امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ (324ھ) فرماتے ہیں:
”اہل علم کا اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت امت کے اہل کبائر کے لیے ہے، نیز اجماع ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ایک گروہ کو جہنم سے نکلوائیں گے، جو (جل کر) کوئلہ ہو چکے ہوں گے، انہیں نہر حیات میں ڈالا جائے گا، تو وہ ایسے اگیں گے، جیسے سیلاب کے کنارے دانہ اگ آتا ہے۔“
(رسالة إلى أهل الثغر، ص 97)
❀ امام ابو بکر محمد بن الحسین الآجری رحمہ اللہ (360ھ) لکھتے ہیں:
”شفاعت پر ایمان کے وجوب کا بیان: اللہ آپ پر رحم کرے! جان لیجیے کہ شفاعت کا منکر یہ خیال کرتا ہے کہ جو ایک بار جہنم میں داخل ہو گیا، وہ باہر نہیں نکل سکتا۔ یہ معتزلہ کا مذہب ہے، جو شفاعت اور اس جیسے کئی بنیادی امور کا انکار کرتے ہیں، جن کی اصل کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، طریقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین عظام اور فقہائے کرام کے اقوال میں موجود ہے۔ معتزلہ ان سب کی مخالفت کرتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن اور صحابہ کرام کی سنت کی طرف توجہ نہیں دیتے، بلکہ متشابہ آیات اور اپنی عقل کے ذریعے معارضہ کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان لوگوں کا وطیرہ ہے، جو راہ حق سے بیگانہ ہو چکے ہیں اور شیطان کا کھلونا بن چکے ہیں۔ ایسوں سے ہمیں اللہ تعالیٰ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قدیم و جدید ائمہ نے خبردار کیا ہے۔“
(كتاب الشريعة : 1198/3)
❀ امام ابوزرعہ رازی (264ھ) اور امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ (277ھ) نے اہل سنت کا متفقہ عقیدہ یوں بیان کیا ہے:
أدركنا العلماء فى جميع الأمصار حجازا وعراقا وشاما ويمنا فكان من مذهبهم والشفاعة حق .
”ہم نے حجاز، عراق، شام اور یمن کے تمام علاقوں کے اہل علم کو دیکھا، ان کا مذہب تھا کہ شفاعت برحق ہے۔“
(أصول مذهب أهل السنة)
شفاعت کے حوالے سے احادیث متواترہ وارد ہوئی ہیں، دیکھیے:
(قطف الأزهار المتناثرة في الأحاديث المتواترة للسيوطي، ص 313، لقط اللآلي المتناثرة للزبيدي، ص 75-78، نظم المتناثر للكتاني، ص 223)
❀امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ (287ھ) لکھتے ہیں:
الأخبار التى روينا عن نبينا صلى الله عليه وسلم فيما فضله الله به من الشفاعة، وتشفيعه إياه فيما يشفع فيه، أخبار ثابتة موجبة بعلم حقيقة ما حوت على ما اقتصصنا، والصاد عن الأخبار الموجبة للعلم المتواترة كافر .
”ہم نے احادیث نبوی بیان کی ہیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شفاعت کی فضیلت سے بہرہ ور فرمایا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس بارے شفاعت کا حق حاصل ہوگا، اس بارے اللہ سے شفاعت کریں گے۔ یہ احادیث ثابت ہیں اور علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔ متواتر اور علم یقینی کا فائدہ دینے والی احادیث کا منکر کافر ہوتی ہے۔“
(كتاب السنة : 385/2)
ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا انکار کرنے والا کافر ہے، کیونکہ وہ قرآن، احادیث متواترہ اور اجماع امت کا منکر ہے۔