نبی کریم ﷺ کی نماز جنازہ کا طریقہ اور تفصیلی کیفیت
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد 3 – نمازِ جنازہ سے متعلق مسائل – صفحہ 128

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ – تفصیلی بیان

سوال

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ کس انداز میں ادا کیا گیا اور اس نماز جنازہ کی تفصیل کیا تھی؟
(سائل: اعجاز احمد، گوجرہ ٹوبہ ٹیک سنگھ)

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک مفصل روایت کی روشنی میں نمازِ جنازہ کا واقعہ

حضرت سالم بن عبید الاشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو کہ اصحابِ صُفہ میں شامل تھے، ایک طویل روایت بیان کرتے ہیں۔ اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا:

"اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا ہے؟”

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا:
"جی ہاں!”
لوگوں کو یقین آ گیا کہ یہ سچ ہے۔

پھر سوال کیا گیا:

"کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی؟”
انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں!”

پھر لوگوں نے پوچھا:

"کس طریقے سے نماز جنازہ ادا کی جائے گی؟”
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:

"يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ , وَيَدْعُونَ ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ ، ثُمَّ يَدْخُلُ قَوْمٌ فَيُكَبِّرُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَدْعُونَ ، ثُمَّ يَخْرُجُونَ ، حَتَّى يَدْخُلَ النَّاسُ”

"ایک جماعت حجرے میں داخل ہوگی، وہ تکبیر کہے گی، نماز جنازہ پڑھے گی، دعا کرے گی، پھر باہر آ جائے گی۔ اس کے بعد دوسری جماعت اندر داخل ہو گی، وہ بھی اسی طرح تکبیر، نماز اور دعا ادا کرے گی، پھر وہ بھی باہر آ جائے گی۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک سب لوگ نماز جنازہ ادا نہ کر لیں۔”

پھر سوال ہوا:

"کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا جائے گا؟”
جواب ملا:
"جی ہاں!”

پھر پوچھا گیا:

"کہاں دفن کیا جائے گا؟”
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
"اس جگہ جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض فرمائی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح پاک مقام پر قبض فرمائی ہے۔”
لوگوں کو یقین ہو گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ درست فرما رہے ہیں۔

السنن الکبریٰ للنسائی 4/264 ح7119
الآحادوالمثانی لابن ابی عاصم 3/13۔14 ح1299
المعجم الکبیر للطبرانی 7/57 ح6367
التمہید لابن عبدالبر 24/397۔398 وقال : وھو محفوظ۔۔۔الخ

روایت کی صحت اور وضاحت

✿ یہ حدیث سنداً صحیح ہے، اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

سلمہ بن نبیط بن شریط پر اختلاط کا جو شبہ ظاہر کیا گیا ہے، وہ صیغہ تمریض "یقال” کی بنیاد پر ہے جو غیر مؤثر ہے۔

✿ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے عبداللہ بن داود کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
(دیکھئے: صحیح ابن خزیمہ :1541،1624)

دیگر کتب میں حدیث کا ذکر

سنن ابن ماجہ (ح1234) میں بھی یہ روایت کچھ اختصار کے ساتھ موجود ہے۔

بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
"ھذا اسناد صحیح، رجالہ ثقات” (زوائد ابن ماجہ :403)

ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:
"ورجالہ ثقات” (مجمع الزوائد 1835)

حدیث سے حاصل ہونے والے اہم نکات

➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔

➋ یہ نماز بغیر امام کے، انفرادی طور پر اور گروہ در گروہ ادا کی گئی۔

➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا یعنی آپ نے موت کا ذائقہ چکھا۔

➍ جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوتا ہے، وہیں دفن کیا جاتا ہے۔

➎ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے آپ کو حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاک زمین میں دفن کیا۔

➏ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن و دفن اور جنازے کے بارے میں مکمل علم تھا۔

➐ وہ صحابہ میں سب سے بڑے عالم تھے۔

➑ جب علم نہ ہو تو علماء سے مسئلہ دریافت کر کے اس پر عمل کرنا چاہیے۔

حضرت ابو عسیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے تائید

امام ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:

"حدثنا عفان بن مسلم، ثنا حماد بن سلمة، أنبأ أبو عمران الجوني، ثنا أبو عسيم. وشهد ذلك، قال: لما قُبض النبي صلى الله عليه وسلم قالوا: كيف نصلي عليه؟ قالوا: ادخلوا إرسالاً. فكانوا يدخلون من الباب، ويخرجون من الباب الآخر”

یعنی حضرت ابو عسیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:

جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو لوگوں نے پوچھا کہ آپ کی نماز جنازہ کیسے ادا کی جائے؟
جواب ملا:
"ایک دروازے سے گروہ در گروہ داخل ہوں، نماز جنازہ ادا کریں اور دوسرے دروازے سے باہر نکل جائیں۔”

فائدہ: حضرت ابو عسیم کو ابو عسیب بھی کہا جاتا ہے۔
(دیکھئے: مسند احمد 5/81 ح20766، سندہ صحیح)

امت کا اجماع اور آئمہ کرام کے اقوال

حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"وأما صلاة الناس عليه أفذاذاً – يعني : على النبي صلى الله عليه وسلم – فمجتمع عليه عند أهل السير وجماعة أهل النقل ، لا يختلفون فيه”
(التمہید ج24 ص397، نسخہ مرتبہ ج6 ص255)

یعنی:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ لوگوں نے ٹولیوں کی صورت میں الگ الگ پڑھی، اس پر سیرت نگاروں اور ناقلین حدیث کا اجماع ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"صلى الناس على رسول الله صلى الله عليه وسلم أفرادا لا يؤمهم أحد ، وذلك لعظم أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وتنافسهم في أن لا يتولى الإمامة في الصلاة عليه واحد”
(کتاب الامر ج1 ص275 باب الصلاۃ علی المیت)

یعنی:

لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ انفرادی طور پر ادا کی، کوئی امام نہیں تھا، اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم مقام اور یہ معاملہ تھا کہ سب یہ چاہتے تھے کہ جنازہ کی امامت کوئی ایک نہ کرے۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کی انفرادی ادائیگی آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔

خلاصہ اور آخری بات

اگرچہ کسی صحیح حدیث میں نماز جنازہ کی مکمل کیفیت مذکور نہیں، لیکن عمومی احکام کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جنازہ ویسے ہی ادا کیا گیا جیسے عام مسلمانوں کا کیا جاتا ہے۔

بعض علماء کی یہ رائے ہے کہ اس نماز جنازہ میں صرف درود پڑھا گیا، دعا نہیں کی گئی، مگر اس رائے کی کوئی معتبر دلیل موجود نہیں ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1