سوال:
نبی کریم صلى الله عليه وسلم کتنی رکعات تراویح پڑھتے تھے؟
جواب:
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا رمضان و غیر رمضان کا معمول یہ تھا کہ قیام اللیل میں آٹھ رکعات پڑھتے تھے۔
❀ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث، جناب انورشاہ کشمیری صاحب کہتے ہیں:
لا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات، ولم يثبت فى رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة فى رمضان.
”یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی نماز تراویح آٹھ رکعت تھی اور کسی ایک روایت سے بھی ثابت نہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے رمضان میں تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں۔“
(العرف الشذي: 166/1)
❀ مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمة الله لکھتے ہیں:
”سنت موکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو بالاتفاق ہے، اگر اختلاف ہے، تو بارہ میں۔“ (براہین قاطعہ: 195)
❀ ابو سلمہ بن عبدالرحمن رحمہ الله نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی قیام رمضان کی کیفیت کیا تھی؟ فرمایا:
ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد فى رمضان ولا فى غيره على إحدى عشرة ركعة.
”رمضان ہو یا غیر رمضان، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔“
(صحيح البخاري: 1147، 2013، صحیح مسلم: 738)
بیس رکعت تراویح کو مسنون قرار دینا درست نہیں، اس کے دلائل کا علمی و تحقیقی مختصر، مگر جامع جائزہ پیش خدمت ہے:
❀ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان میں بیس رکعتیں اور وتر پڑھا کرتے تھے۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 294/2، السنن الكبرى للبيهقي: 496/2، المعجم الكبير للطبراني: 393/11)
سند سخت ”ضعیف“ ہے۔
① ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان ”متروک الحدیث“ ہے۔ جمہور نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
❀ علامہ قدوری حنفی رحمة الله نے ”کذاب“ کہا ہے۔
(التجريد: 203/1)
❀ علامہ زیلعی حنفی رحمہ الله لکھتے ہیں:
”یہ روایت ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے معلول (ضعیف) ہے، جو کہ امام ابوبکر بن ابو شیبہ کا دادا ہے۔ اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے۔ امام ابن عدی رحمة الله نے الکامل میں اسے کمزور قرار دیا ہے۔ نیز یہ روایت اس صحیح حدیث کے مخالف بھی ہے، جس میں ابوسلمہ بن عبد الرحمن رحمة الله نے سیدہ عائشہ رضی الله عنہا سے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی رمضان میں نماز کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: نبی کریم صلى الله عليه وسلم رمضان یا غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔“
(نصب الرایۃ : 153/2)
ابوشیبہ کی روایت اور علمائے احناف:
① مولانا انور شاہ کشمیری صاحب لکھتے ہیں:
أما النبى صلى الله عليه وسلم، فصح عنه ثمان ركعات، وأما عشرون ركعة، فهم عنه عليه السلام بسند ضعيف وعلى ضعفه اتفاق.
”آٹھ رکعات تراویح رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے صحیح ثابت ہیں اور بیس رکعت کی روایت ضعیف ہے، اس کے ضعف پر اتفاق ہے۔“
(العرف الشذي: 166/1)
(ب) مولانا عبدالشکور فاروقی رحمة الله نے اسے ”ضعیف “قرار دیا ہے۔
(علم الفقہ، ص198)
(ج) مفتی دارالعلوم دیوبند، مولانا عزیز الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
”ہاں اس میں شک نہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔“
(فتاوی دار العلوم دیوبند: 249/1)
(د) علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمة الله لکھتے ہیں:
ضعيف بأبي شيبة، متفق على ضعفه، مع مخالفته للصحيح.
”حدیث ضعیف ہے، کیوں کہ ابو شیبہ (ابراہیم بن عثمان) بالاتفاق ضعیف ہے، نیز یہ حدیث (صحیح بخاری و صحیح مسلم کی) صحیح (حدیث عائشہ) کے بھی خلاف ہے۔“
(منحة الخالق: 66/2)
یہی بات علامہ ابن ہمام حنفی (فتح القدير: 81/46)، علامہ عینی حنفی (عمدة القاري: 177/17)، ابن نجیم حنفی (البحر الرائق: 62/6)، ابن عابدین شامی حنفی (رد المحتار: 521/1)، ابو الحسن شرنبلانی حنفی (مراقي الفلاح: 442)، طحطاوی حنفی (حاشية الطحطاوي على الدر المختار: 295/1) وغیرہ نے بھی کہی ہے۔
❀ علامہ سیوطی رحمة الله لکھتے ہیں:
هذا الحديث ضعيف جدا، لا تقوم به حجة.
”یہ حدیث سخت ترین ضعیف ہے، اس سے حجت و دلیل قائم نہیں ہو سکتی۔“
(المصابيح في صلاة التراويح: 17)
احمد یار خان گجراتی رحمة الله اپنی کتاب ”جاء الحق“ (243/2) میں ”نماز جنازہ میں الحمد شریف تلاوت نہ کرو“ کی بحث میں امام ترمذی رحمة الله سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ منکر حدیث ہے۔“
لیکن اپنی اسی کتاب (447/1) کے ضمیمہ میں مندرج رسالہ ”لمعات المصابیح علی ركعات التراویح“ میں اس کی حدیث کو بطور حجت پیش کرتے ہیں۔ یہ منصفانہ رویہ نہیں۔
② حکم بن عتیبہ مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
❀ سیدنا جابر رضی الله عنه بیان کرتے ہیں کہ رمضان میں ایک رات نبی کریم صلى الله عليه وسلم باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام کو چوبیس رکعتیں اور تین رکعات وتر پڑھائے۔
(تاريخ جُرجان لأبي قاسم حمزة بن يوسف السهمي، ص 275)
روایت موضوع ہے۔
① عمر بن ہارون بلخی ”متروک و کذاب“ ہے۔ اسے امام احمد بن حنبل، امام عبد الرحمن بن مہدی، امام عبد اللہ بن مبارک، امام مجلی، امام علی ابن مدینی، امام نسائی، امام دار قطنی، امام ابن حبان اور امام ابو حاتم رازی رحمہم الله وغیرہ نے مجروح اور غیر ثقہ قرار دیا ہے۔ حافظ ابوعلی نیشاپوری رحمة الله نے ”متروک“ کہا ہے۔ امام یحییٰ بن معین اور امام صالح جزری رحمة الله نے ”کذاب“ کہا ہے۔
❀ حافظ ذہبی رحمة الله لکھتے ہیں:
أجمع على ضعفه.
”اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔“
(تلخیص المستدرك: 848)
② محمد بن حمید رازی جمہور کے نزدیک ”ضعیف “و ”کذاب “ہے۔
③ ایک غیر معروف راوی ہے۔