بیماری کے متعدی ہونے اور بدشگونی کے انکار کی وضاحت
حدیث مبارکہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
«لَا عَدْوَی، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَّةَ، وَلَا صَفَرَ»
(صحیح البخاري، الطب، باب الجذام، ح: ۵۷۰۷، صحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طیرة ولا ہامة، ح: ۲۲۲۰)
’’نہ کوئی بیماری متعدی ہے، نہ کوئی بدشگونی ہے، نہ الو کا بولنا ہے اور نہ ماہ صفر کی تبدیلی میں کوئی بدشگونی ہے۔‘‘
اس حدیث میں ان چار عقائد کی نفی کی گئی ہے جو زمانہ جاہلیت کے عرب معاشرے میں رائج تھے۔
چار امور کی وضاحت
1. عدویٰ (متعدی بیماری)
◈ "عدویٰ” سے مراد ہے کسی بیماری کا ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہونا۔
◈ اس میں جسمانی (حسی) بیماریوں کے ساتھ ساتھ روحانی و اخلاقی بیماریاں بھی شامل ہیں۔
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"برا ساتھی بھٹی دھونکنے والے کی طرح ہے، یا تو وہ تمہارے کپڑے جلا دے گا یا تم اس سے بدبو محسوس کرو گے۔”
[1]
یہاں "عدویٰ” کا لفظ حسّی و اخلاقی دونوں اقسام کی بیماریوں پر دلالت کرتا ہے۔
2. طیرہ (بدشگونی)
◈ "طیرہ” کا مطلب ہے کسی دیکھی، سنی یا معلوم چیز سے بدشگونی لینا۔
◈ یہ عمل زمانہ جاہلیت کی رسوم میں شامل تھا، جس کی شریعت نے نفی فرمائی۔
3. ہامّہ
پہلی تفسیر:
◈ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو مریض سے دوسرے شخص کو منتقل ہو جاتی ہے۔
◈ اس لحاظ سے "عدویٰ” پر اس کا عطف عطف الخاص علی العام (یعنی خاص کا عام پر عطف) ہوگا۔
دوسری تفسیر:
◈ "ہامّہ” ایک مشہور پرندے (الو) کا نام ہے۔
◈ جاہلیت کے دور میں عقیدہ تھا کہ کسی مقتول کی روح "الو” کی شکل میں آتی ہے اور اس وقت تک مقتول کے گھر کے قریب بولتی رہتی ہے جب تک کہ قاتل سے انتقام نہ لیا جائے۔
◈ لوگ سمجھتے تھے کہ اس پرندے کا بولنا موت کی علامت ہے، جو کہ باطل عقیدہ ہے۔
4. صفر
(الف) صفر کا مہینہ:
◈ عرب اس مہینے سے بدشگونی لیتے تھے، حالانکہ یہ بھی دیگر مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے جس میں خیر و شر دونوں موجود ہو سکتے ہیں۔
(ب) اونٹوں کی بیماری:
◈ "صفر” سے مراد ایک ایسی بیماری بھی لی گئی ہے جو اونٹوں کو لاحق ہو جاتی ہے اور ایک سے دوسرے میں منتقل ہوتی ہے۔
◈ یہ بھی "عدویٰ” پر "عطف الخاص علی العام” کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔
(ج) مہینوں کی ترتیب میں تبدیلی:
◈ کفار ماہ محرم کی حرمت کو مؤخر کر کے صفر کو حرام مہینہ بنا لیتے تھے۔
راجح قول:
صفر سے مراد جاہلی بدشگونی ہے، اور حدیث کا مقصد اس کے باطل ہونے کو واضح کرنا ہے۔
غلط اعمال کی وضاحت
◈ بعض لوگ ماہ صفر کی 25 تاریخ کو کسی کام کی تکمیل کو خاص اہمیت دیتے ہیں، جیسے لکھتے ہیں:
"یہ کام صفر خیر کی 25 تاریخ کو مکمل ہوا۔”
◈ یہ ایک بدعت اور جہالت پر مبنی عمل ہے۔
◈ اسی طرح بعض سلف نے اس بات کی بھی نفی کی ہے کہ الو کی آواز سن کر کہا جائے:
"خَیْرًا اِنْ شَائَ اللّٰہُ”
کیونکہ الو بھی دیگر پرندوں کی طرح اپنی فطری آواز میں بولتا ہے، اس سے کسی خیر و شر کی توقع رکھنا جہالت ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا مفہوم
◈ یہ چاروں امور جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرمائی ہے، ان کا مقصد:
◈ اللہ تعالیٰ پر توکل اور پختہ عزم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔
◈ ان امور میں مبتلا ہو کر کمزوری دکھانا ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے۔
انسان کی دو حالتیں:
1. وہ ان پر عمل کرے:
◈ یہ گویا اپنے افعال کو ایک غیر حقیقت پر مبنی سبب سے وابستہ کرنا ہے۔
2. عمل نہ کرے لیکن دل میں اثر لے:
◈ اگرچہ یہ پہلی حالت سے ہلکی ہے، مگر اس سے بھی بچنا ضروری ہے۔
◈ ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد اور بھروسا ضروری ہے۔
فال نکالنا
◈ بعض لوگ قرآن کھول کر فال نکالتے ہیں:
◈ "جہنم” کا لفظ آجائے تو فال کو برا سمجھتے ہیں۔
◈ "جنت” آئے تو اچھا خیال کرتے ہیں۔
◈ یہ عمل جاہلیت کے تیروں کے ذریعے قسمت آزمائی جیسا ہے۔
ان امور کی نفی کا مطلب
◈ ان احادیث میں ان چیزوں کے وجود کی نہیں بلکہ تاثیر کی نفی ہے۔
◈ موثر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
◈ جو سبب حقیقی ہے، وہ معتبر ہے اور جو موہوم ہے وہ باطل ہے۔
بیماری کے متعدی ہونے کا ثبوت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد:
"لَا یُورِدُ مُمْرِضٌ عَلٰی مُصِحٍّ”
(صحیح البخاري، الطب، باب لا ہامة، ح: ۵۷۷۱، صحیح مسلم، السلام، باب لا عدوی ولا طیرة، ح: ۲۲۲۱)
’’بیمار اونٹوں والا اپنے اونٹوں کو تندرست اونٹوں والے کے پاس نہ لے جائے۔‘‘
◈ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کا ایک سے دوسرے میں منتقل ہونا ممکن ہے۔
دوسرا ارشاد:
"فِرَّ مِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ”
(صحیح البخاري، الطب، باب الجذام، ح: ۵۷۰۷، مسند احمد: ۴۴۳/۲)
’’جذامی مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘
◈ جذام ایک سخت اور مہلک بیماری ہے، اس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے فرار کا حکم دیا گیا۔
◈ یہ اسباب سے اجتناب کے اصول پر مبنی ہے، نہ کہ اسباب کی ذاتی تاثیر پر۔
﴿وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ﴾
(البقرة: 195)
’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
اعتراض:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لَا عَدْویٰ”
اور ایک صحابی نے کہا:
"اے اللہ کے رسول! اونٹ ریگستان میں ہرنوں کی طرح ہوتے ہیں، لیکن جب ان کے پاس خارش زدہ اونٹ آتا ہے تو انہیں بھی خارش ہو جاتی ہے۔”
جواب:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ”
(صحیح البخاری، الطب، باب لا صفر، ح: ۵۷۱۷)
’’پہلے اونٹ کو خارش کس نے لگائی تھی؟‘‘
◈ اس ارشاد سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بیماری کا آغاز اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہوا۔
◈ پہلا اونٹ بلا سبب بیمار ہوا اور دوسرا ممکنہ طور پر اس کے سبب سے، لیکن ہر چیز اللہ کی تقدیر سے ہوتی ہے۔
متعدی بیماری اور اللہ پر بھروسا
◈ طاعون اور ہیضے جیسی بیماریاں بعض افراد کو متاثر کرتی ہیں اور بعض کو نہیں۔
◈ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مجذوم کو اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا توکل اللہ پر کامل تھا۔
احادیث میں تطبیق
◈ ان احادیث میں بہترین تطبیق یہی ہے کہ انکار ان کی تاثیر کا ہے، وجود کا نہیں۔
◈ بعض علماء نے نسخ کا دعویٰ کیا ہے، مگر تطبیق ممکن ہونے کی صورت میں نسخ نہیں مانا جاتا۔
◈ اس تطبیق سے دونوں احادیث پر عمل ممکن ہو جاتا ہے، جبکہ نسخ سے ایک حدیث کا بطلان لازم آتا ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب