سوال:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات جلیلہ اور خصائص عالیہ کے بارے میں کیا عقیدہ ہونا چاہیے؟
جواب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات اور خصائص کتاب وسنت میں مذکور ہیں، ان پر ایمان لانا واجب ہے، انہیں رد کر دینا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص جلیلہ اپنی طرف سے نہیں بنائے جا سکتے، یہ توقیفی ہیں، یعنی ان کے لیے کتاب وسنت اور اجماع امت سے صحیح دلیل پیش کرنا ضروری ہے۔
❀ علامہ ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ (974ھ) فرماتے ہیں:
إن وصفه صلى الله عليه وسلم بغير صفته تكذيب له؛ ويؤخذ منه أن كل صفة أجمعوا على ثبوتها له يكون إنكارها كفرا.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے وصف سے متصف کرنا، جو آپ کا وصف نہیں ہے، آپ کی تکذیب ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس وصف کے ثبوت پر اہل علم کا اجماع ہو، اس کا انکار کرنا بھی کفر ہے۔
(الزواجر عن اقتراف الكبائر: 47/1)
اسلاف امت نے کتاب وسنت کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ بیان کیے ہیں، جو لوگ غلو کے رسیا ہیں، وہ آئے روز اپنی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف ثابت کرتے رہتے ہیں، حالانکہ ان کا ذکر نہ کتاب وسنت میں ہے، نہ اسلاف امت کے علم میں، ان کے بطلان کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ سلف صالحین نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں شمار نہیں کیا۔ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف ہوتے، تو اسلاف ضرور ثابت کرتے، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے تھے اور شریعت کی نصوص کو سمجھنے والے تھے۔
❀ محدث البانی رحمہ اللہ (1420ھ) فرماتے ہیں:
خصوصياته صلى الله عليه وسلم إنما تثبت بالنص الصحيح، فلا تثبت بالنص الضعيف ولا بالقياس والأهواء، والناس فى هذه المسألة على طرفي نقيض، فمنهم من ينكر كثيرا من خصوصياته الثابتة بالأسانيد الصحيحة، إما لأنها غير متواترة بزعمه، وإما لأنها غير معقولة لديه، ومنهم من يثبت له صلى الله عليه وسلم ما لم يثبت، مثل قولهم: إنه أول المخلوقات، وإنه لا ظل له فى الأرض، وإنه إذا سار فى الرمل لا تؤثر قدمه فيه، بينما إذا داس على الصخر علم عليه، وغير ذلك من الأباطيل، والقول الوسط فى ذلك أن يقال: إن النبى صلى الله عليه وسلم بشر بنص القرآن والسنة وإجماع الأمة، فلا يجوز أن يعطى له من الصفات والخصوصيات إلا ما صح به النص فى الكتاب والسنة، فإذا ثبت ذلك وجب التسليم له.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص صحیح نص سے ہی ثابت ہوتے ہیں، ضعیف دلیل، قیاس اور خواہش سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص ثابت نہیں ہوتے۔ اس مسئلہ میں لوگ دو مخالف انتہاؤں پر ہیں، کتنے ایسے ہیں، جو صحیح سندوں سے ثابت خصائص نبویہ کا انکار کر دیتے ہیں، اس لیے کہ یا تو وہ ان کے گمان کے مطابق متواتر نہیں ہوتیں، یا ان کے نزدیک عقل کے پیمانے میں پوری نہیں اترتیں۔ اور کتنے ہی ایسے ہیں، جو غیر ثابت خصائص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص قرار دے دیتے ہیں، مثلاً کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق سب سے پہلے ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ریت پر چلتے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشانات نہیں پڑتے تھے، اگر چٹان پر قدم رکھتے، تو اس پر نشان پڑ جاتا تھا۔ اس طرح بہت ساری باطل باتیں کہی جاتی ہیں۔ انصاف پر مبنی بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونا قرآن وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے، لہذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وہی صفات اور خصائص ثابت کی جائیں گی، جو کتاب وسنت کی نص سے ثابت ہوں گی، جب کوئی صفت یا خصوصیت ثابت ہو جائے تو اسے تسلیم کرنا واجب ہے۔
(سلسلة الأحاديث الصحيحة: 158/1)