سوال:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود پڑھنا کیسا عمل ہے؟
جواب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا رحمت، درجات کی بلندی اور گناہوں کی معافی کا باعث ہے۔ اب جو جتنا درود پڑھتا ہے، اتنی برکتیں سمیٹ لیتا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے چند ثمرات جلیلہ بیان کیے ہیں:
1. اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری حاصل ہوتی ہے۔
2. اللہ عزوجل کے ساتھ درود میں موافقت ہوتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارا اور اللہ تعالیٰ کا درود مختلف معانی و مطالب رکھتا ہے۔ ہمارے درود کا معنی دعا اور سوال ہے اور اللہ تعالیٰ کے درود سے مراد شرف و شہرت کا بیان ہے۔
3. فرشتوں کے عمل سے مطابقت نصیب ہوتی ہے۔
4. دس رحمتیں ملتی ہیں۔
5. دس درجات بلند ہوتے ہیں۔
6. نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ جاتی ہیں۔
7. دس گناہ مٹا دیے جاتے ہیں۔
8. دعا قبول ہوتی ہے۔
9. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔
10. درود گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے۔
11. درود انسان کے غم و الم کا مداوا ہے۔
12. درود پڑھنے والا روز قیامت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب تر ہوگا۔
13. تنگ دست کے لیے درود صدقہ کے قائم مقام ہے۔
14. درود انسانی ضروریات پوری ہونے کا بہترین ذریعہ ہے۔
15. درود پڑھنے والوں کو رحمت الہی اور فرشتوں کی دعا نصیب ہوتی ہے۔
16. تزکیہ نفس کا باعث ہے۔
17. موت سے پہلے جنت کی بشارت مل جانے کا سبب ہے۔
18. قیامت کی ہولناکیوں سے نجات ملتی ہے۔
19. مجلس پاکیزہ ہو جاتی ہے اور روز قیامت ایسی محفل حسرت نہیں ہوگی۔
20. درود شریف سے فقر و فاقہ ختم ہو جاتا ہے۔
21. درود پڑھنے والے کو بخل سے نجات ملتی ہے۔
22. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے بندہ محفوظ ہو جاتا ہے۔
23. درود آپ کو جنت کا راہی بناتا ہے۔
24. حمد و ثنا اور درود سے شروع کیا جانے والا کلام پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے۔
25. درود برکت کا باعث ہے، ذات میں، عمل میں، عمر میں اور دیگر اسباب و مصالح میں، درود پڑھنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل کے لیے برکت کی دعا کرتا ہے۔ یہ دعا بہر حال مستجاب ہے اور جنس کے موافق جزا دی جاتی ہے۔
26. درود رحمت کا ذریعہ ہے۔ صلوٰۃ کا معنی یا تو رحمت ہے یا رحمت صلوٰۃ کے لوازم و موجبات میں سے ہے، بہر حال اس سے رحمت الہیہ درود خواں پر نازل ہوتی ہے۔
درود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے دوام و اضافے کا سبب ہے۔ یہ صفت مراتب ایمان میں سے ایک ہے جس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا۔ انسان جس قدر زیادہ محبوب کا ذکر کرے، محبوب اور اس کی خوبیوں کو یاد رکھے گا اور ان مضامین کو جو محبت بڑھکانے والے ہیں پیش نظر رکھے گا، اسی قدر محبت بڑھے گی اور شوق کامل ہوگا، حتیٰ کہ تمام دل پر چھا جائے، لیکن جب ذکر چھوڑ دے اور اس کے محاسن کو دل میں جگہ نہ دے تب محبت کم ہو جاتی ہے۔
جس طرح محبوب کا دیدار آنکھ کی ٹھنڈک ہے، اسی طرح محبوب کے محاسن کو یاد کرنا دل کی تسکین کا سبب ہے۔ جب یہ صفت دل میں جگہ پکڑ لیتی ہے، تو زبان خود بہ خود مدح اور ثنا کرنے لگتی ہے اور محبوب کی تعریف بیان کرتی ہے۔ اس صفت میں کمی و بیشی اصل محبت کی کمی بیشی کے موافق ہے۔ چنانچہ حس و مشاہدہ اس پر شاہد ہے۔
درود خوانی انسان کی ہدایت اور حیات قلب کا سبب ہے۔ جس قدر زیادہ درود پڑھے گا اور ذکر مبارک اس کی زبان پر آئے گا، اسی قدر محبت بھی دل پر غالب آئے گی۔ یہاں تک کہ دل میں کوئی شے ایسی باقی نہ رہ جائے گی جو آپ کے اوامر کا معارضہ کرے یا آپ کی تعلیم پر شک ہونے دے۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور تعلیمات اس کے دل پر روشن تحریر کے ساتھ لکھی جاتی ہیں اور جس قدر وہ آپ کے احوال میں غور کرتا ہے، اتنا ہی گویا لوح دل کی اس تحریر کو پڑھتا رہتا اور اس سے ہمیشہ ہدایت و فلاح اور انواع علوم کا اقتباس کرتا رہتا ہے۔ اب جس قدر اس کی بصیرت بڑھتی اور قوت معرفت زیادہ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر زیادہ درود شریف کو بڑھاتا رہتا ہے۔
اسی لیے اہل علم و عارفین کی درود خوانی اور ہے، جب کہ عام لوگوں کی درود خوانی اور قسم کی ہے۔ کیونکہ انہیں جس قدر زیادہ تعلیم نبوی کی معرفت حاصل ہوتی جائے گی، اسی قدر ان کی محبت بڑھتی جائے گی اور اسی قدر ان پر درود کی حقیقت جو اللہ تعالیٰ کا مطلوب ہے کھلتی جائے گی اور اس حقیقت کا عرفان ہوتا جائے گا۔ یہی حال ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر کا کہ جس قدر زیادہ بندوں کو عرفان ہوگا اور جس قدر زیادہ اس میں اطاعت اور محبت کا مادہ ہوگا، اسی قدر اس کے ذکر کو غافلین کے ذکر سے امتیاز حاصل ہوگا۔ یہ ایک ایسا امر ہے جو مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے، صرف خبر سے نہیں۔ دیکھیے، ایک تو وہ شخص ہے جو جوش محبت سے محبوب کی صفات کا ذکر اور اس کی ثنا و تمجید کرتا ہے، جس کے دل پر محبت قبضہ کیے ہوئے ہے اور ایک وہ ہے جو صرف قرائن سے ذکر کرتا ہے یا ایسے لفظ بولتا ہے جن کے معنی وہ نہیں جانتا۔ وہ تعریف کرتا ہے مگر زبان کے ساتھ دل موافقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں میں جو تفاوت ہو سکتا ہے، وہ ظاہر ہے۔ ٹھیک وہی فرق ہوگا جو اجرت پر رونے والی اور پسر مردہ پر رونے والی میں فرق ہوتا ہے۔
الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی یاد اور اللہ تعالیٰ کی حمد، اس نعمت پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا سردار بنایا اور آپ کی رسالت سے جملہ مخلوقات پر احسان عظیم فرمایا، یہ وجود کی زندگی اور دل کی حیات ہے۔
درود خوانی ایسی سعادت ہے کہ درود خواں کا نام و ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں کیا جاتا ہے اور اہل ایمان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ اس دربار عالی میں اس کا نام لیا جائے؟
درود پڑھنا حقوق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل ہے۔ وہ بات الگ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے مقابلے میں یہ انتہائی کم ہے اور اس نعمت کی شکر گزاری میں شمار ہوتا ہے جو بعثت نبوی سے ہمیں ملی ہے۔ گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق و استحقاق اس قدر ہیں کہ ان پر کوئی شخص علم و قدرت اور ارادہ سے احاطہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ کرم ہے کہ بندوں کی جانب سے اس تھوڑی سی شکر گزاری اور ادائے حق پر خوشنودی کا اظہار فرما دیا ہے۔