(۱) مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمًا ( الاحزاب ۴۰ )
محمد (ﷺ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین (آخری نبی) ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
(۲) ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَٰمَ دِينًا (المائده: (۳)
آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا، اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا۔
اللہ تعالی کی طرف سے دین اسلام مکمل اور اس کی نعمت پوری ہو چکی ہے۔ لہذا آپﷺ کا لایا ہوا دین اکمل اور سابقہ ادیان کیلئے ناسخ اور ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ اب قیامت تک نہ کسی دین کی ضرورت ہے اور نہ نبی کی۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس آیت سے ختم نبوت پر استدلال کیا ہے۔
(۳) وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَن تَتَّخِذُوا۟ ٱلْمَلَٰٓئِكَةَ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ أَرْبَابًا أَيَأْمُرُكُم بِٱلْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿٨٠﴾ وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَٰقَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ لَمَآ ءَاتَيْتُكُم مِّن كِتَٰبٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُۥ قَالَ ءَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِى قَالُوٓا۟ أَقْرَرْنَا قَالَ فَٱشْهَدُوا۟ وَأَنَا۠ مَعَكُم مِّنَ ٱلشَّٰهِدِينَ (آل عمران ۸۱،۸۰)
اور جب اللہ نے تمام انبیاء سے اس بات کا عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہاری (کتاب اور تعلیمات کی) تصدیق کرتا ہو تو تمہیں اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ہوگی۔ اللہ نے پوچھا کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو ؟ تو سب نے کہا کہ ہم نے اقرار کیا۔ اللہ نے فرمایا تم اس عہد کے گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔ پھر اس کے بعد جو کوئی بھی اس عہد سے منہ موڑے گا تو وہ لوگ نافرمان ہوں گے۔
اس آیت میں اس عہد کا بیان ہے جو اللہ تعالی نے تمام انبیاء سے محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں لیا، جو سب سے آخر میں اور سب کے بعد آئیں گے۔ ان کے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا۔
(۴) هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ
اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ گذرے۔
(التوبہ ۳۳)
(۵) هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِيدًا
اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاتا کہ وہ اسے سب ادیان پر غالب کر دے اور اللہ بطور گواہ کافی ہے۔
(الفتح: ۲۸)
(۶)هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ
اللہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین اس بات کو نا پسند ہی کریں۔ (الصف: ۹)
ان تینوں آیات سے ظاہر ہے کہ یہ دین تمام ادیان سے آخر میں ان سب کیلئے ناسخ بن کر غالب ہونے کیلئے آیا ہے۔ اس کے بعد اب کوئی دین یا شریعت نہیں آئے گی۔
(۷) عَنْ أَن هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِنَّ مَثَلَى وَ مَثَلُ بِيَاء قَبَلْ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَلَى بينا نأحْسَنَهُ وَ أجمله إلا موضع لبنة من زاوية فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَ يَعْجَبُونَ لَهُ ويوازن هَلا وضعت هذه اللينَةُ ؟ قَالَ: فَأَنا اللينةُ وَ أَنَا خَالَمُ النَّبِيْنِي ( صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النبیین حدیث نمبر : ۳۵۳۴۔ صحیح مسلم، باب ذکر کو نہ خاتم النبیین)
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ْﷺ نے فرمایا: میری اور مجھ سے پہلے کے انبیاء کی مثال اس آدمی کی سی ہے جس نے انتہائی حسین و جمیل گھر بنایا ہو اور اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی ہو ، لوگ اس گھر کے گرد گھومتے ہوئے اس کی خوبصورتی پر تعجب کرتے ہوں کہ یہ اینٹ یہاں کیوں نہ لگائی گئی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں وہی اینٹ ہوں اور میں آخری نبی ہوں۔
(۸) عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةً خمس سنين ، فَسَمِعْتُه يُحدث عن البيان قال: كانت بنو إسرائیل تسوسُهُمُ الأَنْببِاُ كُلَّمَا هَلك نبئ خلفه نبی وانه لا نبی بعدی – صحیح بخاری، کتاب الانبیاء ، باب ماذکر عن بنی اسرائیل حدیث نمبر : ۳۲۵۵۔ صحیح مسلم ، کتاب الامارۃ ، باب وجوب الوفاء بيده الخلیفتہ الاول فالاول، السنن ابن ماجہ، کتاب الجہاد، باب الوفاء باییعہ حدیث نمبر : ۲۸۷۱)
ابو حازم کا بیان ہے کہ میں ابو ہریرۃ ؓ کی خدمت میں پانچ برس بیٹھا رہا، میں نے ان کو نبی ﷺ سے بیان کرتے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا: انبیائے کرام بنی اسرائیل کی قیادت کیا کرتے تھے، جب ایک نبی کی وفات ہوتی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آجاتا (لیکن) میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
(۹) عَن أبي هريرة قال: قَالَ رَسُولُ الله الا : فإني أخرُ الأَنْبِيَاء وَإِنَّ مَسْجِدِي آخر المساجد ( صحیح مسلم ، کتاب الحج، باب فضل الصلواة لمسجدین مکہ والمدينہ)
سیدنا ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد (کسی نبی کی بنائی ہوئی) آخری مسجد ہے۔
(۱۰) عَن أَبي سَلَمَةَ بنِ عبدِ الرَّحْمَنِ وَ أن عبد الله الآخر مَوْلَى الْجُهَنِهِيْنِ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أبي هريرةَ الهُمَا سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَة يَقولُ: صَلوةٌ في مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلوةِ فيمَا سِرَاء مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلَّا المَسْجِدَ الحَرَامَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ لا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدَهِ آخِرُ المساجد ۔ ( صحیح مسلم کتاب الحج، باب فضل الصلوة المسجدى مكة والمد ینہ سنن نسائی، کتاب المساجد، بابفضل مسجد النبي مريم والصلوة فيه حدیث نمبر : ۵۹۹)
ابو سلمہ بن عبدالرحمن اور ابو عبدالله الاخر مولی الجھنین جو کہ ابوہریرہؓ ان کے اصحاب میں سے تھے ، ان دونوں نے ابو ہریرہؓ کو فرماتے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ باقی مساجد کی ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے۔ رسول اللہ ﷺ آخری نبی اور آپ کی مسجد (کسی نبی کی بنائی ہوئی ) آخری مسجد ہے۔
(۱۱) حَدَّثَنَا اسمعيل كُلك لا بن أبي أوفى : رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ النَّبِي ؟ قَالَ: مَاتَ صَغِيرًا وَلَوْ قُضِيَ أَن تَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّد اني عاشق ابنه ولكن لا نبي بَعْدَه ( صحیح بخاری، کتاب الادب باب من کمی با سماء الانبیاء حدیث نمبر : ۱۶۱۹۴ السنن لابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی الصلوة علی ابن رسول الله ﷺ وذکر وفاته حدیث نمبر : ۱۵۱۰)
اسمعیل نے ہم سے بیان کیا کہ میں نے ابن ابی اوفی ؓ سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے نبی ﷺ کے فرزند ابراہیم کو دیکھا ھے ؟ انہوں نے کہا کہ وہ تو صغر سنی ہی میں فوت ہو گئے تھے ، اگر محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی آتا تو آپ کا بیٹا زندھ رہتا۔ لیکن آپ کے بعد کوئی نبی (آنے والا ) نہیں۔
(۱۲) عن أبي أمامة الباهلي قال خطينَا رَسُولُ الله لا —— وَقَالَ —– وَإِنَّ الله لَمْ يَبْعَثُ نَبِيًّا الأحَذَتَ أنتَه الدَّجَالَ وَأَنَا آخِرُ الأَنْبِياني وأنكُمْ آخر الأمر (السنن لابن ماجه کتاب الفتن، باب فتنہ الدجال حدیث نمبر : ۴۰۷۷)
سید نا ابوامامہ الباہلی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور آپ ﷺ نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ کے ہر نبی نے اپنی اپنی امت کو دجال(کے فتنے) سے ڈرایا ہے، میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو۔ نیز اسی حدیث میں ہے:
(۱۳) إِنَّهُ يَبْدَأُ فَيَقُولُ: أنانبي ، ولا نبی بعدى (حوالہ سابقہ)
کہ دجال اپنے فتنہ کا آغاز کرتے ہوئے دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے (حالانکہ) میرے بعد کوئی نبی (آنے والا) نہیں۔
(۱۴) عَنْ عَبْدِ الله بْنِ مَسْعُورٍ قَالَ: إِذا صَلَّيْتمْ عَلَى رَسُولِ اللهِ ﷺ وَأَحْسنوا الصَّلوة عليه. فَإِنَّكُمْ لاتدرُونَ لَعَلَّ ذَالِكَ يُعْرَض عليه – قَالَ: فَقَالُوا لَهُ تَعَلَّمُنَا، قَالَ: قُولُوا: اللَّهُمَّ اجْعَلْ صلوتك ورحمتك وَبَرَكَاتِكَ عَلَى سَهدِ الْمُرْسَلِينَ، وَإمَامِ المُتَّقِينَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَ رشولك، إمام الخير وقائد الخثير ورسول الرحمة – اللَّهُمَّ ابْعَثهُ مَقَامًا تَحَمُوْدًا يَعبطُه بِهِ الْأَوَلَّوْنَ والأخرُونَ . اللهمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إنك حميد مجيد اللهم بارك على محمد و على آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إبراهيم انك حميد مجيد (سنن ابن ماجہ ، کتاب الاقامة باب الصلوۃ علی النبی ﷺ حدیث نمبر : ۹۰۲)
سید نا عبد الله بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ لوگو! تم جب رسول اللہ ﷺ پر صلوة بھیجو تو بہترین الفاظ کے ساتھ صلوۃ بھیجا کرو، تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارا یہ عمل آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ تو لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ ہی ہمیں صلوۃ کے بہترین الفاظ تعلیم فرمادیں تو انہوں نے کہا، تم یوں کہا کرو: یا اللہ ! تو اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرما سید المرسلین، امام المتقین، خاتم النبین محمد ﷺ پر جو تیرے بندے اور رسول ہیں، جو نیکی کے امام، بھلائی کے قائد اور رسولی رحمت ہیں۔ یا اللہ ! ان کو اس مقام محمود پر فائز فرما جس کے بارے میں پہلے اور پچھلے لوگ آپ پر رشک کریں گے اے اللہ ! محمد ﷺ پر اور ان کی اولاد پر رحمت نازل فرما، جس طرح کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد پر رحمت نازل فرمائی تھی، بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! محمد ﷺ اور ان کی اولاد پر برکتیں نازل فرما، جیسا کہ تو نے ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد پر برکتیں نازل فرمائی، بیشک تو قابل ستائش اور صاحب احترام ہے۔
(۱۵) عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ما خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِياً فقال: أتقلقى في الصبيانِ وَالنِّسَانِ؟ قَالَ: أَلا تَرْضى أَن تَكُونَ مِلَي يَمَثْرِ لَةٍ هَارُوْنَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أنه ليس توی بعدی (صحیح بخاری کتاب المغازی، باب غزوة تبوک، حدیث نمبر ۴۴۱۶ صحیح مسلم ، فضائل علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دَقَ بِدَايَةٍ مُسْلِمٍ : أَمَّا تَرْضى أَن تَكُونَ منی بمنزلۃ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَلْفَلَا تَبُوةَ بَعْدِي)
مصعب بن سعد اپنے والد سعد ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہوئے تو علیؓ کو اپنا نائب مقرر کر گئے۔ تو علیؓ نے عرض کیا: کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہاری میرے ساتھ وہی حیثیت ہے جو ہارون (علیہ السلام) کو موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی، البتہ اتنا ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ مسلم کی دوسری روایت میں ہے کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہاری میرے ساتھ وہی حیثیت ہے جو ہارون (علیہ السلام) کو موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی، البتہ اتنا ہے کہ میرے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے۔
(۱۶) عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ أَبو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ الله العُمَرَ العَلَقَ بِنَا إِلَى أَمْ أَيمن نرويها كَمَا كَانَ رَسُولُ الله ناويها ، فلما انتهيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ، فَقَالَ لها : مَالِيكِيكِ؟ مَا عِندَ الله غير لو سُولهِ – فَقَالَتْ مَا الكَى أَن لا أَكُونَ أَعْلَمُ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرُ الرَسُولِهِ صلى الله عليه وسلم وَلَكِن الكي أن الوحي قد التقطعَ مِنَ السَّمَانِ فَهَا حَتَهُمَا عَلَى الثماني و بعلا تبكيان معھا ۔ (صحیح مسلم ، فضائل ام ایمنؓ ، سنن لابن ماجہ، کتاب الجنائز باب ذکر وفاته ودفنہ ﷺ حدیث نمبر : ۱۳۵)
سیدنا انسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ابو بکرؓ نے عمرؓ سے کہا کہ آئیں! ہم ام ایمن کی زیارت و ملاقات کے لئے جائیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ان کی زیارت کیلئے جایا کرتے تھے۔ جب ہم ان کے ہاں پہنچے تو وہ رونے لگیں۔ ان دونوں نے ان سے کہا، آپ کیوں روتی ہیں ؟ اللہ کے ہاں اس کے رسول کے لئے جو کچھ ہے وہ بہت ہی بہتر ہے ، تو ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس لئے نہیں روتی کہ میں جانتی ہوں کہ اللہ کے ہاں جو کچھ ہے وہ اس کے رسول کے لئے بہت ہی بہتر ہے لیکن میں تو اس لئے روتی ہوں کہ آسمان سے نزول وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ یہ کہہ کر انہوں نے ان کو بھی رلا دیا اور وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔
(۱۷)عَنْ أَمْ كَرْزِ الْكَعْبِيَّةِ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ لا يَقُولُ: ذَهَبَتِ النُّبُوهُ وَبَقِيَتِ البقرات(السنن لابن ماجہ، کتاب تعبیر الرویا باب الرویا الصالحہ حدیث نمبر ۳۸۹۶)
ام کرز کعبیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ نبوت ختم ہو گئی ہے اور صرف مبشرات باقی رہی گئی ہیں
(۱۸)عن أن لهزيرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ الله الله يَقُولُ: لَمْ بَيْنَ مِنَ النَّبوَتِ إِلَّا الْبَقِرَاتُ قَالُوا : وَما المبشرات ؟ قال: الرؤيا الصالحة( صحیح البخاریِ، کتاب تفسیر باب المبشرات حدیث نمبر ۱۹۹۰)
سید نا ابوہریرہ ان کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ نبوت میں سے صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں، صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ مبشرات سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھے خواب۔
(۱۹) عن جبیر بن مطعم أن النبي صلى الله عليه وسلم قَالَ: أَنَا مُحَمَّد وَأَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا النامي الذي تملي بي الكفر وأنا الخاشِيرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى عَقِي وَأَنَا الغائب، والعاقب الذى ليسَ بَعْدَهُ نَى –( مسلم، باب فی اسمام).
سید نا جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میرا ایک نام ’’محمد‘‘ ہے ، اور میرا نام ’’احمد‘‘ (بھی) ہے اور میرا نام ’’ماحی‘‘ (بھی) ہے، میرے ذریعے کفر کو مٹایا جائے گا۔ اور میرا ایک نام ’’عاشر ‘‘ (بھی) ہے کہ لوگوں کو (قبروں سے) میرے بعد اٹھایا جائے گا۔ اور میرا ایک نام ’’عاقب‘‘ (بھی) ہے۔ عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
(۲۰) عن جابر عن النبي الله قال : مقلى ، مثل الأنْبِيَانِي كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنى دار أنا عمَّهَا وَ أَكْمَلَها إِلَّا مَوْضِعُ لَبِدَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَدْخُلُونَهَا وَيَتَعَجَّبُونَ مِنْهَا وَيَقُولُونَ لَوْلَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ؟ قَالَ رَسُولُ الله : فَأَنَا مَوْضِعُ الكينةِ جِئْتُ فَتَمَمْتُ الانْبِتائی۔ ( صحیح مسلم، باب ذکر کو نہ خاتم نعیمین)
سیدنا جابر سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فرمایا: میری اور دیگر انبیاء کی مثال اس آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے ہر لحاظ سے مکمل کیا، صرف ایک اینٹ کی جگہ رہ گئی ہو۔ لوگ اس میں داخل ہوتے اور اس کی خوبصورتی اور تکمیل پر تعجب خوشی کا اظہار کرتے اور کہتے ہوں کہ یہ ایک اینٹ کی جگہ مکمل کیوں نہ کی گئی اور سول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: میں اس اینٹ کی جگہ (آیا) ہوں اور میں نے اکر انبیاء کے سلسلہ کو مکمل کر دیا ہے۔
(۲۱) عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ الله لا قال: فقلتُ عَلَى الأَنْبِيَاءِ بِسِتْ: أَعْطِيتُ جَوَامِعَ العلم ونصرت بالرعب وأحلت لى الغنائم و جعلت لى الأرض ظهوراً و مَسْجِداً وَأُرْسِلْتُ إلى الالي كَانَةٌ وَحيمَ في النَّبِيُّونَ۔ ( صحیح مسلم، کتاب المساجد)
سید نا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے چھ چیزوں کے ذریعے باقی انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے۔
(۱) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں۔
(۲) دشمن پر میرے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے۔
(۳) میرے لئے اموال غنیمت کو حلال قرار دیا گیا ہے۔
(۴) میرے لئے ساری روئے زمین کو پاک کرنے والی (یعنی تمیم کا کام دینے والی) اور مسجد بتادیا گیا ہے ( یعنی چند ممنوعہ مقامات کے سوا جہاں چاہیں ہم نماز ادا کر سکتے ہیں۔)
(۵) مجھے سب لوگوں کی طرف۔ رسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (جبکہ گذشتہ انبیاء کسی خاص قوم یا علاقے کی طرف مبعوث کئے جاتے تھے)
(۲) میرے ذریعے انبیاء کا سلسلہ مکمل کر دیا گیا ہے۔
(۲۲) عَنْ بهْرِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدّ وقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ لا تَكْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سَبْعِينَ أُمَّةٌ نَحْنُ آخِرُهَا و غيرها – (السنن ابن ماجہ، کتاب الزہد باب صفته امتہ محمد ﷺ حدیث نمبر ۴۲۸۷)
بہز بن حکیم اپنے والد سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن ستر (بڑی امتوں) کی تعداد کو ہم پورا کریں گے۔ ہم ان سب سے آخر میں آئے ہیں ، اور ہم سب سے افضل ہیں۔
(۲۳) عَن ابْنِ عَبَّاس أَنَّ النبی قال: لعن آخرُ الأُمَمِ وَأَوَّلُ مَنْ يُناسب يُقَالُ: أَيْنَ الأمة الأميةُ وَ نَبِها ؟ نحن الآخِرُونَ الأولون( السنن الابن ماجہ، کتاب الزہد، باب صفۃ امتہ محمد حدیث نمبر : ۴۲۹۰)
سید نا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ہم تمام امتوں سے آخر میں آئے ہیں اور سب سے پہلے ہمارا حساب ہوگا۔ (اللہ کی طرف سے) کہا جائے گا کہ (امی نبی کی ) امی امت اور ان کا نبی کہاں ہے؟ ہم سب سے آخر میں آئے ہیں اور سب سے آگے ہوں گے۔
(۲۴) عَنْ أَبی هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُول الله صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: لَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ العامة بين أنهم أولوا الكتاب من قبلنا ۔ ( صحیح بخاری، باب الفرض ، حدیث نمبر : ۸۷۶)
سید نا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا کہ : ہم (دنیا میں) سب سے آخر میں آئے ہیں، قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنی بات ہے کہ ان لوگوں کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔
(۲۵) عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه قال قَالَ رَسُول اللہ ۔۔۔۔ فی حدیث طویل ۔۔۔۔۔ – وَإِنَّهُ سَيَكُون في أُمَّن كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَدْعَمُ أَنَّهُ نَي وَأَنَا عَالم النَّبِيِّينَ لا لينَ بَعْدِي – (سنن ابی دائود، کتاب الفتن، باب فی ذکر اللمتن حدیث نمبر : ۴۲۴۴)
سید نا ثوبان ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت میں تیس کذاب نمودار ہوں گے۔ ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی (آنے والا) نہیں۔
(٢٦) عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله لم لَوْ كَانَ نَبِي بَعْدِي لَكَانَ عُمَر بن الخطاب (جامع ترمذی مع تحفتہ الاحوذی، باب مناقب ابی حفص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ج ۴، ص ۳۱۵)
سیدنا عقبہ بن عامر ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی (آنا) ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔