نبیﷺ کے آثار سے تبرک کی حقیقت
یہ اقتباس شیخ غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری کی کتاب عید میلا النبیﷺ کی شرعی حیثیت سے ماخوذ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مبارکہ سے تبرک صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب زمانے والے لوگوں، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور تبع تابعین کے حصے میں آیا۔ چودہ سو سال گزر جانے کے بعد ان آثار سے تبرک کا حصول ممکن نہیں، کیونکہ یہ تمام آثار مفقود ہو چکے ہیں۔ بعض لوگوں نے خود تراشیدہ آثار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رکھا ہے۔ ان کے پاس اپنے بیان کردہ آثار کے اثبات کی سند تک نہیں ہے، بلکہ وہ لوگ محض دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں۔
جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی قول، فعل یا سکوت منسوب کرنا بہت احتیاط طلب ہے کہ جھوٹ منسوب کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث صادق آتی ہے:
من كذب علي؛ فليتبوأ مقعده من النار
جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔
(صحیح البخاری: 107، صحیح مسلم: 3)
اسی طرح کسی اثر، مثلاً نعلین، بال، جبہ یا پگڑی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بھی انتہائی احتیاط طلب ہے۔ ایسا کرنے والا بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وعید کا مصداق ہے۔ لہذا اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ خود ساختہ تبرکات کو نبوی تبرکات کہہ کر لوگوں میں متعارف کروانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہیے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹ تو منسوب نہیں کر رہے؟
اگر کوئی شخص چودہ سو سال گزر جانے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب تبرکات کا دعویٰ کرتا ہے، تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے دعوے پر صحیح سند پیش کرے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ نعلین شریفین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں یا یہ مبارک بال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں، تو کیا اتنی سی بات پر ان نعلین اور بالوں کی تعظیم و تکریم کرنا شروع کر دی جائے؟ ان سے تبرک حاصل کرنے لگیں؟ نہیں بلکہ ان کے انتساب پر صحیح سند کا مطالبہ کیا جائے گا اور اگر کوئی صحیح سند پیش نہ کر سکا تو اس کی بات کو ٹھکرا دیا جائے گا، کیونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر جھوٹ ہے۔ لہذا اس معاملہ کی حساسیت کو سمجھنا ہوگا۔
بجا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کوئی چیز باوثوق ذرائع سے ثابت ہو جائے، تو اس سے تبرک کا انکار کرنا سرا سر گمراہی اور انتہا درجہ کی بدبختی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ کو انتہائی حقیر سمجھتے ہوئے سینہ زوری سے کام لیتے ہیں۔ اگر کوئی ان سے دلیل و ثبوت کا طالب ہو تو اس پر گستاخ کا فتویٰ جڑ دیتے ہیں۔

آثار نبویہ مفقود ہو چکے ہیں:

یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ آثار نبویہ مفقود ہو گئے ہیں، اب دنیا میں ان کا وجود باقی نہیں رہا۔
① منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم 654ھ میں جل گیا تھا۔
② یحییٰ بن معین کا جنازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چارپائی پر اٹھایا گیا تھا۔
(تاریخ یحییٰ بن معین بروایة الدوری: 67/3)
بعد میں اس مبارک چارپائی کا کیا ہوا؟ کوئی علم نہیں۔
③اسی طرح عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چھڑی مبارک تھی، جسے وہ ہر وقت اپنی تلوار کے ساتھ باندھ کر رکھا کرتے تھے۔ ان کی وصیت تھی کہ اس چھڑی کو ان کے کفن کے ساتھ رکھ دیا جائے، چنانچہ اسے ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا گیا۔
(مسند الامام احمد: 486/3، وسندہ حسن)
امام ابن خزیمہ (982) اور امام ابن حبان (7160) نے اس حدیث کو، جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانی (فتح الباری: 437/2) نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
④ سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک مانگی اور وہ چادر ہی ان کا کفن بنی۔
(صحیح البخاری: 1277)
⑤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی مبارک جس پر محمد رسول اللہ کندہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچی۔ ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی انگلی کی زینت بنی۔ بالآخر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ انگوٹھی کنویں میں گر گئی، باوجود بسیار کوشش کے نہ مل سکی۔
(صحیح البخاری: 5866، 5879)

بیعت رضوان والے درخت کا معاملہ:

➊ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
رجعنا من العام المقبل، فما اجتمع منا اثنان على الشجرة التى بايعنا تحتها، كانت رحمة من الله
ہم (مقام حدیبیہ پر) صلح حدیبیہ کے دوسرے سال آئے، تو ہم میں سے دو آدمی بھی اس درخت کی نشاندہی پر متفق نہ ہو سکے، جس کے نیچے ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔
(صحیح البخاری: 2958)
❀ حافظ ابن حجر عسقلانی (م: 852ھ) فرماتے ہیں:
أن لا يحصل بها افتتان لما وقع تحتها من الخير، فلو بقيت لما أمن تعظيم بعض الجهال لها، حتى ربما أفضى بهم إلى اعتقاد أن لها قوة نفع أو ضر، كما نراه الآن مشاهدا فيما هو دونها، وإلى ذلك أشار ابن عمر بقوله: كانت رحمة من الله، أى كان خفاؤها عليهم بعد ذلك رحمة من الله تعالى
درخت کے غائب ہونے کی حکمت یہ تھی کہ اس درخت کے نیچے رونما ہونے والے معاملہ خیر کی وجہ سے لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اگر وہ باقی رہتا، تو بعض جاہل لوگوں کی طرف سے اس کی تعظیم کا اندیشہ تھا۔ لوگ یہ عقیدہ گھڑ لیتے کہ درخت نفع و نقصان کا مالک ہے۔ ہم مشاہدہ کر چکے کہ اس سے کم تر چیزوں کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھا جا رہا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بات میں اسی کی طرف اشارہ کیا تھا کہ اس سال کے بعد اس درخت کا مخفی ہو جانا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔
(فتح الباری: 118/6)
➋ سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان أبى ممن بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم عند الشجرة، قال: فانطلقنا فى قابل حاجين، فخفي علينا مكانها، فإن كانت تبينت لكم، فأنتم أعلم
میرے والد گرامی ان لوگوں میں شامل تھے، جنہوں نے درخت کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ دوسرے سال جب ہم حج کرنے کے لیے گئے، تو ہمیں درخت والی جگہ نہ ملی۔ اگر وہ آپ کے سامنے ظاہر ہو جائے، تو آپ زیادہ سمجھ دار ہیں۔
(صحیح مسلم: 1859)
❀ حافظ نووی (م: 676ھ) فرماتے ہیں:
قال العلماء: سبب خفائها ألا يفتتن الناس بها لما جرى تحتها من الخير ونزول الرضوان والسكينة وغير ذلك، فلو بقيت ظاهرة معلومة لخيف تعظيم الأعراب والجهال إياها وعبادتهم لها، فكان خفاؤها رحمة من الله تعالى
علما نے اس کے مفقود ہونے کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ اس درخت کے نیچے جو خیر، خوشنودی اور سکینت وغیرہ ملی تھی، اس کی وجہ سے لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اگر وہ ظاہر اور معلوم رہتا، تو دیہاتی اور جاہل لوگ اس کی تعظیم اور عبادت کرنے لگتے، لہذا اس کا مخفی رہنا اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ (شرح صحیح مسلم: 5/13)
جب زمین کا ایک ظاہری ٹکڑا صحابہ کرام پر مخفی ہو گیا ، تو ہمارے زمانہ میں قطعیت اور یقین کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تبرکات کی نسبت کا دعوی کیسے ممکن ہے۔ یہ نسل در نسل ثقہ اور معتبر راویوں کے واسطے سے ہم تک نہیں پہنچے، نہ ان کے متعلق دعوی تو اتر ثابت ہے۔ محض بے سند باتوں کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

موجودہ آثار کے بارے علامہ لکھنوی کی رائے:

❀ علامہ عبدالحی لکھنوی حنفی آثار رحمہ اللہ انبیاء کے بارے میں فرماتے ہیں:
پس ان تمام احادیث و روایات سے اہل ایمان کی نظر میں بہ خوبی ثابت ہے کہ جملہ آثار و مشاہد نبوی سے برکت حاصل کرنا اور ان کی عظمت کرنا اللہ کی نعمتوں میں سے عمدہ نعمت ہے اور اس قسم کی برکت اور تعظیم کا ثبوت خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے افعال سے پایا جاتا ہے، لیکن مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس بات پر غور کریں کہ جس طرح ان احادیث سے آثار نبویہ کی برکت اور تعظیم کا ثبوت ہوتا ہے، اسی طرح تعظیم اور برکت حاصل کرنے کا طریقہ بھی معلوم ہوتا ہے، پس جس طرح وہ شخص جو منکر برکت آثار نبویہ ہو، بد دین اور گناہ گار ہے، اسی طرح وہ شخص بھی مبتدع اور مخالف سنت سمجھا جائے گا، جو طریق مردود حدیث کے خلاف تعظیم کا کوئی خاص طریقہ اپنی طرف سے ایجاد کرے، کیونکہ مخالفت سنت میں دونوں برابر ہیں اور یہ اس صورت میں ہے کہ جبکہ اس طریقہ مخترعہ میں کوئی امر خاص صریح منہیات شرعیہ اور محرمات یقینیہ سے شامل نہ ہو اور اگر اس طریقہ مخترعہ میں کوئی امر محرمات شرعیہ سے بھی شامل کیا جائے، تو ایسی حالت میں دو نقصان ہوں گے، ایک تو طریق خاص کا احداث اور دوسرے محرمات شرعیہ کا ارتکاب اور ان دونوں باتوں کا حکم یہ ہے کہ ان کا مرتکب غیر مستحل فاسق اور مستحل کافر ہے۔
دوسرے اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جو برکت اور تعظیم حضور سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کے لیے ثابت ہے، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے آثار کے ساتھ مخصوص ہے، دوسرے کے آثار کے ساتھ وہ معاملہ کرنا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کے ساتھ مخصوص ہے، حرام ہے۔ پس ضرور ہوا کہ جس کسی خاص جبہ اور خاص لباس اور خاص بال کی نسبت یہ دعویٰ کیا جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار ہیں، تو اول اس بات کا یقین حاصل کیا جائے کہ فی الواقع یہ آثار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں یا دوسرے شخص کے ہیں، جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کسی طمع سے نسبت کر دیا ہے تاکہ اس یقین سے غیر کے آثار کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کا ایسا برتاؤ لازم نہ آئے اور اس قسم کا یقین کا حصول ایسے امور کی نسبت بغیر طریقے کے مستعد رہے، جس کو محدثین نے روایت حدیث میں اختیار کیا ہے، کیونکہ اثبات آثار نبوی بھی حدیث ہے، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہو اور جو حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہو، اس میں یہی طریقہ مسلوک ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب ان آثار کا ثبوت ایسے طریق روایت پر موقوف ہو، تو اس کی صحت اور عدم صحت بھی صحت اسناد اور عدم صحت اسناد پر موقوف ہوگی اور جب اس کے لیے سند ضعیف بھی میسر نہ ہو، تو صرف جاہلوں کے محضر نامے اس کو ثابت نہیں کر سکتے، پس خلاصہ کلام یہ ہوگا کہ بلاشبہ تعظیم آثار نبوی علامات ایمان میں سے ہے، جس کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ہوتا ہے، لیکن وہ تعظیم اور تبرک انہی طرق میں منحصر ہے، جو احادیث سے ثابت ہیں اور یہ تعظیم اس بات کی فرع ہے کہ ان آثار و تبرکات کا انتساب حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی طرف صحیح ہو اور صحت انتساب صحت روایت پر موقوف ہے، پس جو آثار بصحت روایت ثابت ہیں، بلا شبہ ان کی تعظیم حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقہ کے موافق کرنا چاہیے اور ان سے برکت حاصل کرنے میں کوئی شبہ نہیں اور جو بصحت روایت ثابت نہ ہوں، ان کے ساتھ بغیر تحقیق کے وہ معاملہ کرنا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار ثابتہ سے کرنا چاہیے، ایسا ہے جیسے بے سند کلام کو حدیث کہنا اور اس پر عمل کرنا جن کی نسبت سخت وعید وارد ہے۔
(مجموع الفتاوی از لکھنوی: 175/3-176)

ایک اور رائے:

❀ مفتی محمد شریف الحق امجدی بریلوی (مبارک پور، اعظم گڑھ، یو پی) لکھتے ہیں:
محض شاہی مسجد میں رکھا ہونا، کوئی ثبوت نہیں کہ فلاں چیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کی ہوئی ہے، اس کے لیے ثبوت کی حاجت ہے، اس لیے دلیل آپ کے ذمے ہے۔
(فتاوی شارح بخاری: 479/1)

موجودہ آثار اور دیگر اہل علم:

❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
هذا إذا كان النعل صحيحا، فكيف بما لا يعلم صحته، أو بما يعلم أنه مكذوب، كحجارة كثيرة يأخذها الكذابون وينحتون فيها موضع قدم، ويزعمون عند الجهال أن هذا الموضع قدم النبى صلى الله عليه وسلم
یہ (تعظیم والا معاملہ) تو اس وقت (زیر بحث آ سکتا) ہے، جب ان جوتوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو، لیکن اگر ان کی صحت کا علم ہی نہیں، یا ان کا جھوٹا ہونا بالکل معلوم ہے، بعض جھوٹے لوگ پتھر لے کر اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کا نقش بناتے ہیں اور پھر جاہلوں کے سامنے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس جگہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان ہیں، تو اس صورت میں ان کی تعظیم کیسے درست ہو سکتی ہے؟ (اقتضاء الصراط المستقیم: 337/2)
❀ حافظ ذہبی (م: 748ھ) فرماتے ہیں:
مثل هذا يقوله هذا الإمام بعد النبى صلى الله عليه وسلم بخمسين سنة، فما الذى نقوله نحن فى وقتنا لو وجدنا بعض شعره بإسناد ثابت، أو شسع نعل كان له، أو قلامة ظفر، أو شقفة من إناء شرب فيه، فلو بذل الغني معظم أمواله فى تحصيل شيء من ذلك عنده، أكنت تعده مبذرا أو سفيها؟ كلا
اس طرح کی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پچاس سال بعد امام (ابن سیرین) نے کہی ہے۔ اب اگر ہمارے زمانے میں ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بال، جوتے کے تسمے، ناخن یا برتن کا ٹکڑا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پانی نوش فرمایا کرتے تھے، کا ثبوت صحیح سند کے ساتھ مل جائے، تو ہم کیا کہیں گے؟ اگر کوئی امیر آدمی اس کے حصول کی خاطر کثیر زر خرچ کر دے، تو کیا آپ اسے فضول خرچ اور بیوقوف کہیں گے؟ نہیں! ہرگز نہیں۔
(سیر اعلام النبلاء: 42/4)
ثابت ہوا کہ اہل علم تبرکات نبویہ میں سند کو صحت اور عدم صحت کے لیے بنیاد بناتے ہیں، لہذا ہمیں بھی سند پر اعتبار کرنا چاہیے، یہی سبیل المومنین ہے۔
❀ علامہ البانی رحمہ اللہ (م: 1420ھ) فرماتے ہیں:
هذا ولا بد من الإشارة إلى أننا نؤمن بجواز التبرك بآثاره صلى الله عليه وسلم، ولا ننكره خلافا لما يوهمه صنيع خصومنا، ولكن لهذا التبرك شروطا؛ منها الإيمان الشرعي المقبول عند الله، فمن لم يكن مسلما صادق الإسلام؛ فلن يحقق الله له أى خير بتبركه هذا، كما يشترط للراغب فى التبرك أن يكون حاصلا على أثر من آثاره صلى الله عليه وسلم ويستعمله، ونحن نعلم أن آثاره صلى الله عليه وسلم من ثياب أو شعر أو فضلات قد فقدت، وليس بإمكان أحد إثبات وجود شيء منها على وجه القطع واليقين، وإذا كان الأمر كذلك؛ فإن التبرك بهذه الآثار يصبح أمرا غير ذي موضوع فى زماننا هذا، ويكون أمرا نظريا محضا، فلا ينبغي إطالة القول فيه
مخالفین ہمارے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں، ہمارا آثار نبویہ سے تبرک کے جواز پر ایمان ہے، ہمیں اس سے بالکل انکار نہیں۔ لیکن اس تبرک کی چند شرائط ہیں؛
① تبرک لینے والا خود مسلمان اور ایمان والا ہو، جو سچا مسلمان نہیں ہوتا، اللہ اسے آثار نبویہ سے تبرک میں کوئی خیر نہیں دیتا۔
②جس چیز سے تبرک لے رہا ہے، اس چیز کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت ثابت ہو، مگر ہمیں معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال، لباس اور دیگر آثار مفقود ہو چکے ہیں۔ اب کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ انہیں یقینی اور قطعی طور پر ثابت کر سکے۔ سو، ہمارے اس زمانے میں آثار نبویہ سے تبرک لینا بے جا ہے، یہ محض ایک خیالی معاملہ ہے، جس پر لمبی گفتگو کرنا نامناسب ہے۔
(التوسل وأنواعه وأحکامه، ص 144)

سبیل مومنین اور ایک شاذ موقف:

❀ امام بریلوی احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں:
ایسی جگہ ثبوت یقینی باسند محدثانہ کی اصلاً حاجت نہیں، اس کی تحقیق و تنقیح کے پیچھے پڑنا اور بغیر اس کے تعظیم و تبرک سے باز رہنا سخت محرومی و کم نصیبی ہے۔ ائمہ دین نے صرف حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے اس شے کا معروف ہونا کافی سمجھا ہے۔
(فتاوی رضویہ: 412/21)
نہ معلوم وہ کون سے ائمہ دین ہیں، جو آثار نبویہ کے لیے سند کو بنیاد نہیں بناتے؟ بلکہ بے سروپا دعوؤں پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ یقیناً ائمہ میں سے کسی ایک امام کا نام نہیں بتایا جا سکتا کہ جس نے آثار نبویہ میں سند کو بنیاد نہ بنایا ہو۔
ہم کہتے ہیں کہ تحقیق کے پیچھے نہ پڑنا اور بغیر تحقیق کے تعظیم و تبرک میں پڑنا کم نصیبی اور محرومی ہے۔
❀مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں:
تبرکات کے ثبوت کے لیے مسلمانوں میں یہ مشہور ہونا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات ہیں، کافی ہے۔
(جاء الحق: 376/1)

نکاح و ولدیت کا ثبوت اور تبرکات:

نعیمی صاحب مزید لکھتے ہیں:
ہم کہتے ہیں کہ ہم فلاں کے بیٹے فلاں کے پوتے ہیں، اس کا ثبوت نہ قرآن میں ہے، نہ حدیث سے، نہ ہماری والدہ کے نکاح کے گواہ موجود، مگر مسلمانوں میں اس کی شہرت ہے، اتنا ہی کافی ہے، اسی طرح یادگاروں کے ثبوت کے لیے صرف شہرت معتبر ہے۔
(جاء الحق: 376/1)
عرض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کا معاملہ عام دعوؤں سے مختلف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی چیز کو منسوب کرنا دلیل و ثبوت کا متقاضی اور احتیاط طلب معاملہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آثار کے انتساب کا مطلب ہے کہ ایک وصف کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جا رہی ہے۔ اس کی مثال یوں لیں کہ کسی جوتے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جوتا قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ جوتا پہنا کرتے تھے۔ یوں یہ ایک حدیث ہے اور کسی جھوٹی حدیث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کا انجام یہ ہے:
من كذب على متعمدا؛ فليتبوأ مقعده من النار
جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ باندھا، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔
(صحیح البخاری: 1291، صحیح مسلم: 3)
موجودہ دور کے تبرکات ثابت نہیں، لہذا ان کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز نہیں۔
نکاح کی مثال تو بے محل ہے، کیونکہ نکاح علی الاعلان کیا جاتا ہے۔ دو خاص گواہوں کے علاوہ باقی لوگ بھی اس کے گواہ ہوتے ہیں۔ گواہ اس لیے ہوتے ہیں کہ اگر اس بارے میں کوئی قانونی پیچیدگی ہوئی، تو یہ لوگ عدالت کو اس حوالے سے مطمئن کر سکیں۔ جب پورے علاقے والے لوگ نکاح کے گواہ ہوتے ہیں، تو موجودہ اور آنے والی تمام نسلوں کو بھی یہ گواہی پہنچ جاتی ہے۔ اگر کسی شخص کے نکاح کے دونوں گواہ فوت ہو چکے ہوں، تو کیا عدالت میں اس کے نکاح کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکے گا؟
جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب تبرکات کو ثابت کرنا ممکن ہی نہیں۔ محدثین اور اہل علم نے ان کے لیے صحیح سند کی شرط لگائی ہے اور موجودہ تبرکات کو خود شفیق اہل علم نے بھی مسترد کر دیا ہے، جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں۔
❀ نعیمی صاحب ایک واقعہ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان سے پوچھا گیا کہ جناب کا اسم شریف کیا ہے؟ فرمایا: عبدالرحمن، والد مہربان کا اسم گرامی کیا ہے؟ فرمایا کہ عبدالرحیم، ہم نے پوچھا کہ اس کا ثبوت کیا ہے کہ آپ عبدالرحیم صاحب کے فرزند ہیں؟ اولاً تو اس نکاح کے گواہ نہیں، اگر کوئی ہو بھی تو وہ صرف عقد نکاح کی گواہی دے گا، یہ کیسے معلوم ہوا کہ جناب کی ولادت شریف ان کے ہی قطرے سے ہے؟ رُک کر بولے کہ جناب، مسلمان کہتے ہیں کہ میں ان کا بیٹا ہوں اور مسلمانوں کی گواہی معتبر ہے، ہم نے کہا: جب مسلمان کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بال شریف ہے اور مسلمانوں کی گواہی معتبر ہے، تو شرمندہ ہو گئے۔
(جاء الحق: 378/1)
یہ خلط مبحث ہے۔ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی چیز کی نسبت کی ہو رہی ہے، جس کے بارے میں بڑی وضاحت سے یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی نسبت جہنم میں جانے کا باعث ہے۔ اس کے برعکس شریعت ہی نے یہ بتایا ہے کہ اگر کسی کے گھر کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے، تو وہ اسی کی طرف منسوب ہو گا۔ اگر کوئی شخص یہ بھی دعویٰ کر دے کہ میں نے اس کی ماں کے ساتھ زنا کیا تھا اور یہ میرا بچہ ہے، تو بھی اس کا دعویٰ مسترد کر دیا جائے گا۔ یہ بچہ تو اسی کا ہو گا، جس کے بستر پر پیدا ہوا ہے، جبکہ زنا کا دعویٰ کرنے والے کو زنا کی سزا دی جائے گی۔
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الولد للفراش، وللعاهر الحجر
بچہ بستر (والے) کا ہی ہو گا، البتہ (شادی شدہ زانی کے لیے) زنا کی سزا کے طور پر پتھر ہیں۔
(صحیح البخاری: 6749، صحیح مسلم: 1457)
اگر کوئی کہے کہ فلاں شخص فلاں کا بیٹا نہیں، تو اس نے اس پر ناجائز ہونے کا دعویٰ کیا ہے، اس دعوے پر اسے چار گواہ پیش کرنا ہوں گے، ورنہ اسے کوڑے لگائے جائیں گے، مگر تبرکات کے متعلق کوئی دعویٰ کر دے کہ یہ تبرکات اصلی نہیں، تو اسے گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ تبرکات کے اصلی ہونے کے دعویدار پر ثبوت پیش کرنا ضروری ہے۔ لہذا تبرکات کو نکاح یا کسی کے حلالی و حرامی ہونے کے دعوے پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق کی قبیل سے ہے۔

ایک جھوٹے نقش پا کا قصہ:

حال ہی کا واقعہ ہے کہ موضع دھرابی، ضلع چکوال میں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم کا نشان باقی ہے۔ لوگ قافلوں کی صورت میں وہاں پہنچے، لیکن بہت جلد اس جھوٹے دعوے کی قلعی کھل گئی۔
ہر مسلمان کو معلوم ہونا چاہیے کہ تبرکات کا تعلق دین اور عقیدہ سے ہے، انہیں لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آثار نبوی کے بارے میں اللہ کا خوف اور ڈر مدنظر رکھنا چاہیے، احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ اللہ کے سامنے جواب دہی کا مسئلہ بڑا سخت ہے، یہ جھوٹے دعوے روز قیامت وبال جان بن جائیں گے۔

تبرکات نبویہ کی تشبیہ:

آثار نبویہ سے تبرک حاصل کرنا حق ہے، مگر تبرک اس طریقے سے حاصل کیا جائے، جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور تبع تابعین حاصل کیا کرتے تھے۔ لوگوں نے تبرکات کی شبیہات بنا رکھی ہیں۔ اسی طرح نعلین کریمین کی فرضی اور مصنوعی تصاویر جھنڈیوں کی زینت بنتی ہیں۔
اولاً تو جن نعلین کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے، وہ نسبت ثابت ہی نہیں۔ ثانیاً آثار نبویہ کی فرضی تصاویر اور تشبیہ سے تبرک حاصل کرنا بدعت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور تبع تابعین اس سے ناواقف تھے۔ خیر القرون میں اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ یہ ایجاد دین اور غلو ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا ہرگز یہ تقاضا نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار کی شبیہ بنائی جائے، اس فرضی تصویر اور شبیہ کی وہی تعظیم و تکریم بجائی جائے، جو اصلی تبرکات کی بھی جائز نہیں۔ تبرکات کی تصویر بدعت اور منکر ہے۔ یہ شرک تک پہنچنے کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی دلیل کا طالب ہو، تو اسے گستاخ کہہ دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی ان تصاویر اور شبیہات کو مصنوعی اور فرضی کہہ دے، تو اسے طرح طرح کے فتووں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر کوئی فرضی تصاویر کو ختم کر دے تو اسے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیا جاتا ہے، بلکہ اس کے خلاف شور برپا کیا جاتا ہے۔

آثار نبویہ کی شبیہات اور اسلاف امت:

❀ امام بریلوی احمد رضا خان لکھتے ہیں:
بالجملہ مزار اقدس کا نقشہ تابعین کرام اور نعل مبارک کی تصویر تبع تابعین اعلام سے ثابت ہے اور جب سے آج تک ہر قرن و طبقہ کے علما و صلحا میں معمول و رائج ہے، ہمیشہ اکابر دین ان سے تبرک اور ان کی تکریم و تعظیم رکھتے آئے ہیں۔
(شفاء الوالہ فی صور الحبیب و مزارہ و نعالہ، مندرج فی فتاویٰ رضویہ: 456/2)
تابعین اور اکابر دین کی طرف اس بات کی نسبت کو اگر نرم سے نرم الفاظ میں بھی بیان کیا جائے، تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک بے حقیقت بات ہے، جس کا ثبوت قیامت تک ممکن نہیں۔

نعلین کی شبیہ پر ایک دلیل کا جائزہ:

قال عبد العزيز: وأخرج إلى أبو طالب عبد الله بن الحسن تمثالا، فذكر أن أبا بكر محمد بن عدي بن على بن زحر المنقري أخرج إليه تمثالا، فذكر أن أبا عثمان سعيد بن الحسن بن على التستري أخرج إليه تمثالا، فذكر أنه تمثال لنعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأن أحمد بن محمد الفزاري أخرج ذلك إليه بأصبهان وحدثه به، قال: ونا أبو طالب، قال: وحدثني محمد بن عدي بن على بن زحر المنقري، حدثني سعيد بن الحسن التستري بتستر: أنا أحمد بن محمد الفزاري، قال: قال أبو إسحاق إبراهيم بن الحسن، قال: قال أبو عبد الله إسماعيل ابن أبى أويس، واسم أبى أويس؛ عبد الله بن عبد الله بن أويس ابن مالك بن أبى عامر الأصبحي، قال: كانت نعل رسول الله صلى الله عليه وسلم التى حذيت هذه النعل على مثالها؛ عند إسماعيل بن عبد الله بن أويس الحذاء، فحذا مثال هذا النعل بحضرته على مثال نعل رسول الله صلى الله عليه وسلم سواء، ولها قبالان.
ابو عبداللہ اسماعیل اصبہی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک اسی طرح کے تھے، جس طرح اسماعیل بن عبداللہ بن اویس موچی کے پاس ان کی بنی ہوئی شبیہ تھی۔ اس (اسماعیل موچی) نے ان کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتوں جیسے جوتے بنائے، جن کے دو تسمے تھے۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر: 362/27-363)
یہ روایت ایک جھوٹا سلسلہ ہے۔
① ابو طالب عبداللہ بن حسن بن احمد بن حسن بصری کی توثیق نہیں مل سکی۔
②ابو بکر محمد بن عدی بن علی بن زحر منقری بصری کی توثیق درکار ہے۔
③ابو عثمان سعید بن حسن بن علی تستری کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
④ احمد بن محمد فزاری کا تعین اور توثیق مطلوب ہے۔
سند پر نامعلوم اور مجہول راویوں کا قبضہ ہے اور یہ انہی میں سے کسی کی کارستانی ہے۔ معلوم ہوا کہ آثار نبویہ کی شبیہات کے جواز پر بیان کی گئی روایت ایک من گھڑت روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نعلین کی تصویر بنا کر اور اس کے جھوٹے فوائد بیان کرنا دین میں دخل اندازی ہے۔

قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر یا حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شبیہ بنا کر اس کی تکریم و تعظیم کرنا قبیح بدعت ہے، اس کا موجد کون تھا؟ کچھ معلوم نہیں، کسی ثقہ مسلمان سے ایسا کرنا قطعاً ثابت نہیں۔
❀ جناب احمد رضا خان لکھتے ہیں:
رہا نقشہ روضہ مبارکہ، اس کے جواز میں اصلاً مجال سخن و جائے دم زدن نہیں، جس طرح ان تصویروں کی حرمت یقینی ہے، یوں ہی اس کا جواز اجماعی ہے۔
(فتاویٰ رضویہ: 439/21)
یہ کسی اہل سنت مسلمان سے بھی ثابت نہیں، چہ جائیکہ اس پر اجماع ہو۔

قبر نبوی سے تبرک اور سلف صالحین:

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تبرکات میں سے نہیں ہے، مبارک ضرور ہے، کیونکہ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں، متبرک اس لیے نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خیر القرون میں کوئی اس کا قائل نہیں۔
بعض لوگ بلا دلیل قبر مبارک سے تبرک کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
❀ علامہ سبکی رحمہ اللہ (م: 756ھ) فرماتے ہیں:
إن معلوما من الدين وسير السلف الصالحين التبرك ببعض الموتى من الصالحين، فكيف بالأنبياء والمرسلين، ومن ادعى أن قبور الأنبياء وغيرهم من أموات المسلمين سواء؛ فقد أنى أمرا عظيما نقطع ببطلانه وخطئه فيه، وفيه حط لمرتبة النبى إلى درجة من سواه من المؤمنين، وذلك كفر بيقين، فإن من حط رتبة النبى عما يجب له؛ فقد كفر، فإن قال: إن هذا ليس بحط، ولكنه منع من التعظيم خوفا كما يجب له، قلت: هذا جهل وسوء أدب
دین اور سلف صالحین کی سیرت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بعض نیک فوت شدگان سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، تو انبیا اور رسولوں سے کیوں جائز نہیں؟ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انبیائے کرام کی قبریں اور عام مسلمانوں کی قبریں برابر مقام رکھتی ہیں، اس کے دعوے کے غلط اور باطل ہونے پر ہمیں یقین ہے۔ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو عام مسلمان کے برابر سمجھا، تو یقیناً یہ کفر ہے اور جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ کم کیا، یقیناً اس نے بھی کفر کیا۔ اگر وہ کہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گھٹانا نہیں ہے، بلکہ تعظیم میں مبالغہ سے روکنے کے لیے ہے، تو میں کہتا ہوں کہ یہ جہالت اور بے ادبی ہے۔
(شفاء السقام فی زیارہ خیر الانام، ص: 312)
دین اسلام یا خیر القرون کے سلف صالحین میں کسی سے قبروں سے تبرک حاصل کرنا ثابت نہیں۔ رہا انبیا و مرسلین کی قبروں سے تبرک حاصل کرنا، تو یہ بھی دین میں نئی بات ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین عظام اور تبع تابعین اعلام سے ایسا کرنا ثابت نہیں۔ وہ دین ہی کیا، جو خیر القرون میں موجود نہیں تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور عام مسلمان آدمی کی قبر کو کوئی مسلمان برابر نہیں سمجھتا۔ یہ محض بدگمانی ہے۔ بھلا کوئی سچا مسلمان کیسے سمجھ سکتا ہے کہ ایک قبر مبارک میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اقدس ہو، دوسری میں عام امتی کا، تو دونوں قبریں برابر مقام رکھتی ہوں؟ ہاں! عدم تبرک میں قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور قبر امتی کا مسئلہ ایک جیسا ہے، قبر رسول مبارک ہے، متبرک نہیں۔ اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نقص کا کوئی پہلو نہیں، تعظیم وہی ہے، جسے قرآن وحدیث میں بیان کیا گیا ہو اور خیر القرون میں جسے اپنایا گیا ہو، اس بات میں جہالت یا سوء ادب کا شائبہ تک نہیں۔
قبر نبوی سے عدم تبرک کے قائلین کو جہالت یا سوء ادب کا طعنہ دینا، دراصل سلف صالحین کو مطعون کرنے کی کوشش ہے۔ سلف صالحین میں سے کسی ایک ایسے شخص کا نام بتایا جائے، جو قبر نبوی سے تبرک کا قائل و فاعل ہو۔ اگر ایسا ممکن نہیں، تو انصاف سے بتایا جائے کہ قبروں سے تبرک کا نظریہ سلف صالحین کے اجماعی عقیدہ کی مخالفت نہیں؟

نقش نعلین سے تبرک:

نقش نعلین سے تبرک بھی بدعت ہے، کیونکہ نقش نعلین بذات خود منکر اور بدعت ہے، جیسا کہ آپ نے معلوم کر لیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھے۔
❀ عیسی بن طہمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
أخرج إلينا أنس نعلين جرداوين، لهما قبالان، فحدثني ثابت البناني بعد، عن أنس، أنهما نعلا النبى صلى الله عليه وسلم
انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہمارے پاس بغیر بالوں کے چمڑے والے دو جوتے لائے، جن کے دو تسمے تھے۔ اس کے بعد مجھے ثابت بنانی نے انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بتایا کہ وہ نعلین کریمین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔
(صحیح البخاری: 3107)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے بعد یہ مبارک جوتے کس کے پاس تھے، اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ لہذا آج کل جو لوگ نعلین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں، یہ نسبت غلط ہے۔ جب یہ نسبت ثابت نہیں، تو نقش نعلین بنا کر اسے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک جوتوں کا نقش قرار دینا یقیناً جرم عظیم ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آثار نبویہ سے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تبرک حاصل کیا، ویسے ہی تبرک حاصل کرنا جائز ہو گا۔ بعض لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نعلین کا فرضی و مصنوعی نقشہ بنا رکھا ہے، اس کے جھوٹے فوائد بتائے جاتے ہیں، جھوٹے تجربات بیان کیے جاتے ہیں، مثلاً: جس لشکر میں یہ نقشہ ہو گا، وہ فتح یاب ہو گا، جس قافلے میں ہو گا، وہ بہ حفاظت اپنی منزل پر پہنچے گا، جس کشتی میں ہو گا، وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی، جس گھر میں ہو گا، وہ جلنے سے محفوظ رہے گا، جس مال و متاع میں ہو گا، وہ چوری سے محفوظ رہے گا اور کسی بھی حاجت کے لیے صاحب نعلین سے توسل کیا جائے، تو وہ پوری ہو کر رہے گی اور اس توسل سے تنگی فراخی میں تبدیل ہو جائے گی۔
نقش نعلین کے فوائد و برکات میں یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ جو شخص اس کو حصول برکت کی نیت سے اپنے پاس محفوظ رکھے گا، تو اس کی برکت سے وہ شخص ظالم کے ظلم، دشمنوں کے غلبہ، شیاطین کے شر اور حاسدین کی نظر بد سے محفوظ رہے گا، اسی طرح اگر کوئی حاملہ عورت درد زہ میں اس کو اپنے دائیں پہلو میں رکھ لے، تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و مشیت سے اس خاتون پر آسانی فرمائے گا۔ اس نقش نعلین کی برکتوں میں سے یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس کے ذریعہ نظر بد اور جادو ٹونے سے آدمی امان میں رہتا ہے، نیز حادثات سے بچاؤ کے لیے بھی اسے اکسیر بتایا جاتا ہے۔
یہ سب خود ساختہ باتیں ہیں۔ نقش نعلین سے تبرک حاصل کرنے میں ان کا سلف کون ہے؟ ایک مصنوعی نقشہ کے متعلق یہ کہنا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک جوتیوں کا نقش ہے اور پھر اس کے فوائد و برکات بیان کرنا کون سا دین ہے؟

منسوب تبرکات کی زیارت:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب تبرکات کی زیارت ہوتی ہے، باقاعدہ مخصوص مہینے، مخصوص تاریخ اور مخصوص موقع کے اعلانات ہوتے ہیں، اشتہار چھپتے ہیں۔ وہاں کیا کچھ ہوتا ہے، کسی پر مخفی نہیں۔ ان تبرکات کو مس کیا جاتا ہے، انہیں بوسہ دیا جاتا ہے، جسموں پر ملا جاتا ہے، ان کی زیارت باعث خیر و برکت اور کار ثواب سمجھی جاتی ہے۔ اخلاقی حوالے سے بھی کئی قباحتیں اور خرابیاں پائی جاتی ہیں، مرد و زن کا اختلاط، بے حیائی اور بے پردگی عروج پر، نوخیز لڑکوں اور لڑکیوں کا اکٹھا، تصاویر، عورتوں کا بن ٹھن کر گھروں سے نکلنا، اس کی قباحتوں میں سے ہے۔
❀ علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
جب یہ تمام امور ظاہر ہو چکے، تو مسائل کو سمجھنا چاہیے کہ جو لوگ مذکورہ سوال کے موافق موئے مبارک کی زیارت کراتے ہیں، وہ بدعات و مخترعات کے پابند ہیں، روایت مذکورہ بالا کے موافق جب حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے موئے مبارک کا پانی مریض کے لیے مانگا گیا، تو انہوں نے نہ ڈول تاشہ بھجوایا، نہ قرآن خوانی کرائی، نہ مجلس مرتب کی، نہ وقت مقرر کیا، نہ تاریخ معین کی، غرض کسی قسم کے تعینات خاصہ سے اس کو مفید نہیں کیا، بلکہ اس کی برکت کو ہر وقت میں قابل استفادہ خیال کیا، بخلاف اس صورت کے جس کو سائل نے بیان کیا ہے، جس میں تعین ماہ و یوم و تاریخ کو امر ضروری اور ازدیاد ثواب میں مؤثر خیال کیا ہے، جس کی سنت نبویہ میں کوئی اصل نہیں ہے اور تداعی اور انعقاد محافل خاصہ کو ضروری خیال کیا ہے، اس میں نوبت و نقارہ اور جملہ مزامیر مہیا کیے جاتے ہیں، جو سراسر شیاطین کے افعال ہیں، مالیدہ موئے مبارک بھی بطور نذر لغیر اللہ کیا جاتا ہے اور تبرک کی طرح بانٹا جاتا ہے، حالانکہ اس سے انتفاع حرام قطعی ہے، غزلیں گاتے ہیں، حالانکہ ایسے راگ بالاتفاق حرام ہیں، پس برکت حاصل کرنا جو زائد سے زائد مستحب ثابت ہو گا، ایسے محرمات شرعیہ کے ارتکاب کا باعث ہوا جن سے اجتناب واجب ہے اور ظاہر ہے جس امر مستحب کے ارتکاب سے ترک واجب لازم آئے، اس کا ترک کرنا واجب ہے، پس اس صورت میں ہرگز شریعت اس بات کی اجازت نہ دے گی کہ ایسی بدعات کے ساتھ اس امر مستحب کا ارتکاب صحیح ہو اور اس کا نفس استحباب بھی اس صورت میں مسلم ہے، جب ثابت ہو جائے کہ واقعی یہ موئے مبارک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور اگر یہ امر پایہ ثبوت کو نہ پہنچے تو ایسے جلسے میں بقصد تبرک حاضر ہونا بھی جائز نہیں اور موئے مبارک پر نذر ماننا اور چڑھاوا چڑھانا حرام ہے، کیونکہ نذر عبادت ہے اور غیر خدا کی عبادت حرام ہے۔
(مجموع الفتاویٰ از لکھنوی: 177/3-178)
❀ سیدنا عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھے میری والدہ نے خبر دی:
شهدت آمنة لما ولدت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما ضربها المخاض نظرت إلى النجوم تدلى، حتى إني أقول لتقعن علي، فلما ولدت، خرج منها نور أضاء له البيت الذى نحن فيه والدار، فما شيء أنظر إليه، إلا نور
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، تو میں آمنہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی، وہ درد زہ میں تھیں، میں نے آسمان کے ستاروں کو زمین کی طرف جھکتے دیکھا، مجھے ڈر تھا کہ وہ مجھ پر گر نہ جائیں، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے، تو ایک نور نکلا، جس نے سارا گھر روشن کر دیا، میں جس چیز کی طرف دیکھتی نور ہی نور دکھائی دیتا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی: 147/25، تاریخ الطبری: 157/2، دلائل النبوة للبیہقی: 111/1، دلائل النبوة للاصبہانی: 135/1، ح: 75، تاریخ ابن عساکر: 79/3)
سند سخت ضعیف ہے۔
① عبدالعزیز بن عمران متروک ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر: 4114)
② محمد بن ابی سوید ثقفی طائفی مجہول الحال ہے، اسے صرف ابن حبان نے الثقات: 363/5 میں ذکر کیا ہے۔
③ حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
لاَ يعرف
غیر معروف ہے۔
(میزان الاعتدال: 576/3)
④حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے۔
(تقریب التہذیب: 7656)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ آمنہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے تین جھنڈے دیکھے، ایک مشرق میں گاڑا گیا، دوسرا مغرب اور تیسرا خانہ کعبہ کی چھت پر لہرا رہا تھا۔
(دلائل النبوة لأبی نعیم الاصبہانی: 610/1-613، ح: 555)
سند سخت ضعیف ہے۔
① ابو بکر بن ابی مریم ضعیف ہے۔
②یحییٰ بن عبداللہ بابلتی ضعیف ہے۔
❀ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں چند اشعار کہے:
أنت لما ولدت أشرقت الأرض وضاءت بنورك الأفق فنحن فى ذلك الصياء وفي النور وسبل الرشاد نخترق
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے، تو زمین روشن ہونے لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے آفاق چمک اٹھے، ہم اس روشنی اور نور کی گود میں ہیں اور ہدایت کے راستے واضح ہو چکے ہیں۔
(الغیلانیات لأبی بکر الشافعی: 285، المعجم الکبیر للطبرانی: 213/4، ح: 4167، المستدرک للحاکم: 327/3، ح: 5417، دلائل النبوة للبیہقی: 268/5، دلائل النبوة لأبی نعیم: 2520، دلائل النبوة لابن مندہ: 522/1، تاریخ ابن عساکر: 409/3)
سند ضعیف ہے۔
① زحر بن حصن طائی مجہول الحال ہے، اسے صرف ابن حبان نے الثقات: 619/3 میں ذکر کیا ہے۔
❀ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يعرف
غیر معروف ہے۔
(میزان الاعتدال: 69/2)
❀ ابو حسن محمد بن احمد بن براء سے مروی ہے: جب ایک یہودی کو خبر دی گئی کہ رات عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے، تو اس نے کہا:
ذهبت النبوة من بني إسرائيل، هذا الذى سر أحبارهم، أفرحتم يا معشر قريش؟ والله ليسطون بكم سطوة يخرج نبأها من المشرق إلى المغرب
بنی اسرائیل سے نبوت چلی گئی، یہی وہ چیز تھی، جس پر ان کے احبار کو خوشی تھی، قریش والو! کیا آپ بھی اس سے خوش ہوئے؟ اللہ کی قسم! آپ کے ہاں ایک ایسا سورج طلوع ہوا ہے، جس کی روشنی مشرق و مغرب میں پھیلے گی۔
(الوفاء بأحوال المصطفیٰ لابن الجوزی: 161/1، المنتظم لابن الجوزی: 248/2)
مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔ طبقات ابن سعد (101/1-102) والی سند من گھڑت ہے۔ اس کا مدار محمد بن عمر واقدی کذاب پر ہے۔
❀ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ابولہب کی وفات کے ایک سال بعد اسے خواب میں دیکھا، وہ بری حالت میں تھا، کہنے لگا کہ کوئی راحت نہیں، البتہ ہر سوموار کو عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے۔
ذلك أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ولد يوم الإثنين، وكانت تويبة قد بشرته بمولده، فقالت له: أشعرت أن آمنة ولدت غلاما لأخيك عبد الله؟ فقال لها: اذهبي، فأنت حرة
عذاب میں تخفیف کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سوموار کو ہوئی، تو ثویبہ نے ابولہب سے کہا، کیا تو جانتا ہے کہ آمنہ رضی اللہ عنہا نے تیرے بھائی عبداللہ کا بیٹا جنم دیا ہے، تو ابولہب نے ثویبہ سے کہا: جا آج کے بعد تو آزاد ہے۔
(الروض الأنف للسہیلی: 192/5)
یہ بے سروپا روایت ہے، سند نہیں ہے، بے سند روایتوں کا کوئی اعتبار نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے