غیر ثابت قصے
سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ ایک جگہ ہم نے پڑاؤ کیا تو اچانک ایک وادی میں کوئی شخص کہہ رہا تھا:
اے اللہ ! مجھے امت محمدیہ مرحوم مغفور اس سے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے جس سے بنا۔ انس بن مالکؓ نے کہا:
میں نے وادی کے اوپر سے جھانک کر دیکھا تو وہ ایک آدمی تھا جس کا قد تین سو ہاتھ سے زیادہ تھا اس نے مجھے کہا:
تو کون ہے؟ میں نے کہا:
میں رسول اللہ (ﷺ ) کا خادم انس بن مالک ہوں۔ اس نے کہا:
وہ کہاں ہیں؟ میں نے کہا:
وہ آپ کی بات سن رہے ہیں۔ اس نے کہا:
ان کے پاس جا اور انھیں میر اسلام کہہ اور بتا کہ آپ کا بھائی الیاس آپ کو سلام کہتا ہے۔ میں نبی ﷺ کے پاس آیا اور آپ کو خبر دی ۔ آپ (ﷺ) نے ان کے پاس آکر معانقہ کیا اور انھیں سلام کیا، پھر دونوں باتیں کرنے کے لیے بیٹھ گئے ۔ پس انھوں (الیاسؑ) نے آپ (ﷺ) کو کہا:
اے اللہ کے رسول! میں سال میں ایک دن کھاتا ہوں اور آج میری افطاری کا دن ہے۔ میں کھاؤں گا آپ بھی کھائیں ۔ انسؓ نے کہا:
ان دونوں پر آسمان سے دستر خواں نازل ہوا، جس میں روٹیاں ، مچھلی (وغیرہ) تھی۔ ان دونوں نے کھایا اور مجھے بھی کھلایا اور ہم نے عصر کی نماز پڑھی، پھر انھیں الوداع کیا تو میں نے ان کو دیکھا کہ وہ بادلوں میں آسمان کی طرف چڑھ گئے۔ یہ واقعہ درج ذیل کتابوں میں موجود ہے:
➊ امام بیہقی نے کہا:
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ: أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ الْبَغْدَادِى ببخارا ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَحْمُودٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَانُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقْيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الْعَلَوِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ ، عَنِ الأوْزَاعِيُّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ ….. إلخ
(دلائل النبوة ج 5 ص 421)
➋ امام حاکم نے فرمایا:
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ الْمَعْدَانِيُّ بِبُخَارَى، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَحْمُودِ ، ثنا عَبْدَانُ بْنُ سَيَّارِ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَرْقِيُّ ، ثنايَزِيدُ بْنُ يَزِيدَ الْبَلَوِيُّ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ، عَنِ الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ له ، قَالَ ….. إلخ
(مستدرك ج2 ص674)
➌ امام ابن ابی دنیا نے کہا:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدِ الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ يَزِيدَ الْمَوْصِلِيُّ الْبَلَوِيُّ مَوْلَى لَهُمْ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْجُرَشِيُّ ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ،عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ قَالَ ….. إلخ
( هواتف الجنان ج 1 ص 105)
پہلی دونوں سندیں درج ذیل بنا پر ضعیف ہیں: ۱:
عبدان بن سنان مجہول راوی ہے۔
تنبیہ:
پہلی سند میں عبدان بن سنان ہے جبکہ دوسری سند میں عبدان بن سیار ہے، لیکن حافظ ذہبی نے کہا:
عبدان بن یسار نے احمد بن البرقی سے ایک موضوع خبر بیان کی ہے جسے میں نہیں پہچانتا۔
( میزان الاعتدال 2/ 685)
یہ راوی ابن سنان یا ابن سیار یا ابن بیسار جو بھی ہو یہ مجہول ہے۔
➍ اسی طرح یزید بن یزید بھی مجہول راوی ہے۔
تنبیہ:
پہلی سند میں یزید العلوی لکھا ہے جو غلط ہے۔ صحیح البلوی ہے، جیسا کہ آخری دونوں سندوں میں ہے۔ تیسری سند بھی یزید بن یزید البلوی کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ وہ مجہول ہے۔
تنبیہ:
تیسری سند میں ایک راوی ابو اسحاق الجرشی تحریر ہے جو غلط ہے کیونکہ باقی سندوں میں الفزاری ہے اور وہی صحیح ہے لیکن اگر یہ کوئی اور راوی ہے تو یہ بھی مجہول ہے۔
➊ علاوہ ازیں امام بیہقی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (حوالہ مذکورہ)
➋ امام ذہبی نے کہا:
خَبْرًا مَوْضُوعًا
من گھڑت خبر ہے۔
( میزان 2/ 685)
➌ حافظ ابن حجر نے کہا:
حدیث باطل .
(لسان الميزان 8/ 508)
امام حاکم نے اس کو صحیح الاسناد کہا ہے ،لیکن امام ذہبی نے ان کا تعاقب کیا ہے اور اسے موضوع قرار دیا ہے۔
( تلخیص المستدرك 2/ 674 ح 4231)