نبیﷺ پر جادو
تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

242۔ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جانے والاجادو صرف ان کی ازواج ہی کے خلاف تھا ؟
جواب :
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا :
سحر رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إن كان ليخيل إليه أنه يأتي نساءه، ولم يأتهن
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا،حتی کہ آپ کو اپنی ازواج کے پاس جائے بغیر یہ خیال آتا کہ آپ ان کے پاس گئے ہیں۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5765 صحيح مسلم، كتاب السلام، باب السحر، رقم الحديث 2189 ]
——————

243۔ جب میں کسی کو جادو یا کسی اور مرض میں مبتلا دیکھوں تو کیا کہوں ؟
جواب :
جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے،
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من رأى مبتلى فقال: الحمد لله الذى عافاني مما ابتلاك به، وفضلنى على كثير ممن خلق تفضيلا
”جو کسی مصیبت زدہ کو دیکھے تو وہ کہے: سب تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے مجھے اس مصیبت سے عافیت بخشی، جس میں اس نے تجھے مبتلا کیا اور اپنی مخلوق میں سے بہت سوں پر مجھے فضیلت بخشی۔ “ [ سنن ترمذي 493، 494/5 رقم الحديث 3432]
——————

244۔ جادو زدہ کے لیے کیا دعا ہے ؟
جواب :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا :
من عاد مريضا لم يحضر أجله فقال عنده سبع مرات: أسأل الله العظيم رب العرش العظيم أن يشفيك. إلا عافاه الله من ذلك المرض
”جس نے کسی مریض کی عیادت کی اور اس کے پاس سات مرتبہ یہ کہا: "أسأل الله العظيم رب العرش العظيم أن يشفيک، میں اس عظیم اللہ سے سوال کرتا ہوں، جو عرش عظیم کا رب ہے کہ وہ تجھے شفا عطا فرمائے اللہ اس کو اس مرض سے عافیت بخشیں گے۔“ [ صحيح مسلم، رقم الحديث 974 سنن أبى داود، رقم الحديث 3106 سنن الترمذي، رقم الحديث 2083 صحيح الجامع، رقم الحديث 6388 ]
——————

241۔ کیا مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کی تہمت لگائی تھی ؟
جواب :
جی ہاں،
الله تعالیٰ کا فرمان ہے:
نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُونَ بِهِ إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ وَإِذْ هُمْ نَجْوَىٰ إِذْ يَقُولُ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ‎ ﴿٤٧﴾
”ہم اس (نیت) کو زیادہ جاننے والے ہیں جس کے ساتھ وہ اسے غور سے سنتے ہیں، جب وہ تیری طرف کان لگاتے ہیں اور جب وہ سرگوشیاں کرتے ہیں، جب وہ ظالم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ تم پیروی نہیں کرتے مگر ایسے آدمی کی جس پر جادو کیا گیا ہے۔ “ [الإسراء: 47 ]
آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سرداران قریش کے درمیان ہونے والی سرگوشیوں کی خبر دے رہے ہیں، جب وہ اپنی قوم سے چھپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت سننے آئے تھے۔ کہنے لگے کہ یہ آدمی تو جادو زده ہے۔ اگر مَّسْحُورًا کو ”سحر“سے ماخوذ سمجھیں تو پھر مطلب ہو گا کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو گے جو ایسا آدمی ہے جو غذا کھاتا ہے۔ ان میں سے بعض نے کہا: کاہن ہے، کسی نے کہا: مجنون ہے اور کچھ کہنے والوں نے کہا: جادوگر ہے۔ ظالموں کی اس بات : إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا :
انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا ‎ ﴿٩﴾
” دیکھ انھوں نے تیرے لیے کیسی مثالیں بیان کیں، سو گمراہ ہو گئے، پس وہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔“ [الفرقان: 9]
یعنی یہ لوگ آپ کو ساحر مسحور، مجنون، کذاب اور شاعر کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تہمت لگاتے اور آپ کی تکذیب کرتے ہیں۔ ان کی یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں اور وہ شخص جو ادنا سا فہم و عقل بھی رکھتا ہو، وہ ان کے جھوٹ اور بہتان بازی کو فورا جان لے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ‎ ﴿٧﴾
اور اگر ہم ان پر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی چیز اتارتے، پھر وہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھوتے تو یقیناً وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، یہی کہتے کہ یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔ [الأنعام: 7]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے بارے میں خبر دی ہے کہ انھوں نے حق کے نزول کو دیکھ لینے اور معائنہ کر لینے کے بعد بھی تکبر و عناد کی بنیاد پر اس کا انکار کیا اور کہا کہ وإن هذا إلا ب ر مبين اور اس میں اللہ نے محسوسات کے بارے میں ان کے تکبر کی اطلاع دی ہے، اسی طرح اللہ کا یہ فرمان ہے :
أَفْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَم بِهِ جِنَّةٌ ۗ بَلِ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ فِي الْعَذَابِ وَالضَّلَالِ الْبَعِيدِ ‎ ﴿٨﴾
کیا اس نے اللہ پر ایک جھوٹ باندھا ہے، یا اسے کچھ جنون ہے؟ بلکہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، وہ عذاب اور بہت دور کی گمراہی میں ہیں۔ [سبأ: 8]
اس آیت میں اللہ نے مشرکین کا رد کرتے ہوئے فرمایا: معاملہ ایسے نہیں ہے، جیسے انھوں نے سمجھا ہے اور نہ ویسے ہے جس کی طرف وہ گئے ہیں، بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس حق میں جسے وہ لائے، سچ بولنے والے، نیکوکار اور رشد و ہدایت پانے والے ہیں، جب کہ کافر لوگ جھوٹے، جاہل، غبی اورحق سے دور ہیں۔
——————

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: