ناجائز کاروبار کے لئے دکان کرایہ پر دینا
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا کوئی مالک مکان اپنی دکان یا مکان کسی اور کو ایسے کو دے سکتا ہے جو اس میں غیر شرعی امور کا مرتکب ہے جبکہ وہ خود اس کام میں ملوث نہ ہو؟
جواب : اللہ تعالیٰ نے فحاشی و بے حیائی پھیلانے سے منع فرمایا ہے اور جو لوگ ایسا کام کرتے ہیں انہیں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
«إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» [النور : 19]
”یقیناًً جو لوگ اہل ایمان میں برائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔“
ویڈیو فلمیں اور گانوں کی کیسٹیں صراحتاً احکامِ خداوندی کی نافرمانی پر مشتمل ہیں جو شرعاً حرام ہیں۔
سورۂ لقمان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
« وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِيْنٌ » [لقمان : 6]
”اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو گانے بجانے کے آلات خریدتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بھٹکائیں اور اسے ہنسی و مذاق بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔“
اس آیت سے قبل اللہ تعالیٰ نے اہل سعادت جو کتاب الہیٰ کے سماع سے فیض یاب ہوتے ہیں، کا ذکر کرنے کے بعد اہل شقاوت کا ذکر کیا ہے جو کلام اللہ کی تلاوت کے سماع سے اعراض کرتے ہیں لیکن ساز و موسیقی، نغمہ و سرود اور گانے وغیرہ خوب شوق سے سنتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ صحابیٔ رسول اور فقیہ امت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”لہو الحدیث سے مراد اللہ کی قسم ! گانا بجانا ہے۔“ [حاكم 411/2، ابن جرير 62/21]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مفسر قرآن بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی تفسیر عکرمہ، حسن بصری، سعید ابن جبیر، قتادہ اور ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔ [ابن جرير 11/21]
لہٰذا جب گانا بجانا، آلاتِ طرب، رقص و سرود شرعاً حرام ہیں اور ویڈیو فلمیں اور گانے کی کیسٹیں فروخت کرنا بھی حرام ہیں تو ایسے کاموں کے لیے دکان کرایہ پر دینا فعلِ حرام میں تعاون ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
« وَتَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ » [المائدة : 2]
”نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔“
معلوم ہوا کہ گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا حرام ہے، لہٰذا فعلِ حرام کی تجارت کے لیے دکان کرائے پر دینا حرام ہے۔ اس سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح وہ مساجد جن کی دکانیں شیو، ویڈیو کیسٹیں اور اس طرح کے دیگر امور کے لیے کرائے پر دی گئی ہیں ان پر متولیوں کو چاہیے کہ وہ فی الفور خالی کرا لیں اور کسی جائز کام کرنے والے تاجر کو دے دیں تاکہ غضب الٰہی سے بچا جا سکے۔

شیو کی کمائی
سوال : کیا داڑھی مونڈنے والا حجام بھی گنہگار ہوگا؟ اور اس کی کمائی کا کیا حکم ہے؟
جواب : اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت کے ساتھ پیدا فرمایا ہے اور مرد و زن کے درمیان جو امتیازات رکھے ہیں ان میں سے ایک امتیاز اور فرق داڑھی ہے۔ داڑھی مرد کی زینت ہے اور یہ ایسی زینت ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام انبیاء ورسل کو مزین فرمایا۔ اگر یہ بدصورتی اور قباحت کا باعث ہوتی تو یہ کسی نبی اور رسول کو اللہ تعالیٰ عطا نہ کرتا۔ داڑھی فطرتِ اسلام میں داخل ہے۔
جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« عَشْرٌ مِّنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَاِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ » [مسلم، كتاب الطهارة : باب خصال الفطرة 261]
”دس خصلتیں فطرت سے ہیں، ان میں سے مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا بھی ہے۔“
«إعفاء اللحية» کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دے، اس میں کاٹ چھانٹ نہ کرے۔
امام نووی رحمہ اللہ «اَعْفُوْا، اَوْفُوْا، اَرْخُوْا، اَرْجُوْا، وَفِّرُوْا» پانچ طرح کے الفاظ نقل کر کے فرماتے ہیں :
”ان سب کا معنی ہے داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو۔“ [شرح مسلم 129/1]
قاضی شوکانی رحمہ اللہ ایک مقام پر رقمطراز ہیں :
«ان هٰزه الاشياء ازا فعلت اتصف فاعلها بالفطرة التى فطره الله العباد عليها و حثهم عليها واستحبها لهم ليكونوا علٰي اكمل الصفات واشرفها صورة“» [نيل الأوطار 130/1]
”ان اشیاء پر عمل کیا گیا تو ان کا عامل اس فطرت سے موصوف ہوا جس پر اللہ تعالیٰ نے بندوں کو پیدا کیا اور ان کو اس پر رغبت دلائی اور ان کے لیے پسند فرمایا تاکہ وہ صورت کے لحاظ سے کامل ترین اور اعلیٰ صفات کے مالک بن جائیں۔“
اس کے بعد مزید فرماتے ہیں :
«هِيَ السُّنَّةُ الْقَدِيْمَةُ الَّتِيْ اِخْتَارَهَا الْاَنْبِيَاءُ وَاتَّفَقَتْ عَلَيْهَا الشَّرَائِعُ فَكَاَنَّمَا اَمْرٌ جِبِلِّيٌّ يَنْطُوُوْنَ عَلَيْهَا» [نيل الأوطار 130/1]
”یہ سنت قدیمہ ہے جس کو تمام انبیاء علیہم السلام نے اختیار کیا اور تمام شریعتیں اس پر متفق ہیں کیونکہ یہ پیدائش اور طبعی چیز ہے جس پر سب اکھٹے ہیں۔“
صحیح مسلم کی اس حدیث سے واضح ہوا کہ داڑھی بڑھانا فطری اور جبلی امر ہے، اس کو منڈوانا یا کتروانا فطرت کو بدلنا ہے اور شیطانی عمل ہے۔ علاوہ ازیں دیگر متعدد صحیح احادیث میں داڑھی رکھنے کا حکم موجود ہے اور یہ بات اصول میں ثابت ہے کہ حکم وجوب پر دلالت کرتا ہے اور وجوب پر عمل نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے اور جو شخص کسی دوسرے شخص کی داڑھی مونڈتا ہے وہ اس کے ساتھ گناہ پر تعاون کرتا ہے جو شرعاً بلکل منع ہے۔ جب داڑھی مونڈنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے تو اس پر تعاون کرنا گناہ پر تعاون ہے اور شرعاً حرام ہے۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ جس کام کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اس کی اجرت اور کمائی بھی حرام ہے، لہٰذا داڑھی مونڈنا پھر اس پر اجرت لینا حرام ہے۔ اسی طرح داڑھی مونڈنے والے کو دکان کرائے پر دینا اس کے ساتھ فعلِ حرام پر تعاون ہے، یہ بھی حرام ہے۔

 

فوٹوگرافی کا پیشہ
سوال : کیا فوٹوگرافی کا پیشہ اختیار کرنا اسلام کی رو سے جائز ہے؟
جواب : تصویریں بنانا کتاب و سنت کی رو سے قطعاً ناجائز اور کبیرہ گناہ ہے۔ آج کل تو یہ فعل اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اسمبلی سے لے کر ایک کچی جھونپڑی تک ہمارے ملک کے در و دیوار تصاویر سے مزین نظر آتے ہیں۔ جابجا تصاویر آویزاں کر کے اللہ کی رحمت سے دوری اور لعنت کو حاصل کیا جا رہا ہے اور یہ وبا اس قدر پھیل چکی ہے کہ اس نے اپنی لپیٹ میں ہر خاص وعام کو لے لیا ہے۔ کوئی گناہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے تو اس گناہ کو گناہ کہنا ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بہر صورت کوئی گناہ کتنا ہی عام ہو جائے اس سے شرعی حکم پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ زبانِ نبوت سے صادر ہونے والا ایک ایک حکم اپنی جگہ قائم و دائم ہے۔ سابقہ اقوامِ عالم میں کفر و شرک کی گمراہی انہی تصاویر کی بنا پر آئی تھی۔ شیطان نے انہیں ورغلا کر تصویر سازی کی لعنت میں گرفتار کر دیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«اولئك إذا مات منهم الرجل الصالح، بنوا على قبره مسجدا , ثم صوروا فيه تلك الصورة، اولئك شرار الخلق عند الله» [بخاري، كتاب الجنائز : باب بناء المسجد على القبر 1341]
”ان اہلِ کتاب میں کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے پھر اس میں تصویریں رکھتے، یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین لوگ ہیں۔“
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«ولم يشع الشرك فى الامم ولم يدخل فيهم الا من باب التصوير » [تنقيح 252/3]
”امتوں میں شرک کا پھیلاؤ اور داخلہ تصویر کی جانب سے ہوا۔“
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
« وكان غلب كفر الامم من جهة الصور » [فتح الباري 17/8]
”اکثر امتوں میں کفر کی بیماری تصویروں کے زریعے داخل ہوئی۔“
موجودہ دور میں جب کہ فحاشی، عریانی، بے حیائی و بے پردگی کا سیلِ رواں تمام حدود پھلانگ چکا ہے، ہر شخص جانتا ہے کہ یہ سارا فتنہ تصاویر کا شاخسانہ ہے اور یہ پورا سیلاب وی سی آر، ٹی وی، گندے اخبارات و رسائل کے ذریعے عروج پکڑ رہا ہے۔ تصویر کی حرمت پر دلائل بے شمار ہیں، چند ایک درج کیے جاتے ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«أشد الناس عذابا يوم القيامة الذين يضاهون بخلق الله» [بخاري، كتاب اللباس : باب ماوطئ من التصاوير 5954]
”قیامت والے دن سخت ترین عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی صفتِ تخلیق میں نقل اتارتے ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
« ومن أظلم ممن ذهب يخلق كخلقي فليخلقوا ذرة أو ليخلقوا حبة أو شعيرة» [بخاري، كتاب التوحيد : باب قول الله تعالىٰ۔۔۔ إلخ 7559]
”اس سے بڑا ظالم کون ہے جو عملِ تخلیق میں میرا مقابلہ کرے ؟ انہیں چاہیے کہ ایک چیونٹی یا گندم یا جو کا ایک دانہ پیدا کر کے دکھائیں۔“
صاحب تنقیح الرواۃ رقمطراز ہیں :
«وفيه حرمة التصوير وانه من اعظم المعاصي والمناهي لانه تشبه بالخالق» [تنقيح الرواة 253/3]
”اس حدیث میں تصویر کی حرمت پر دلیل ہے اور یقیناًً یہ سب سے بڑے گناہوں اور منع کردہ اشیاء میں سے ہے، اس لیے کہ اس میں خالق کے ساتھ مشابہت ہے۔“
نواب صدیق حسن رحمہ اللہ کی کتاب میں ہے :
”اس حدیث میں تصویر کو استعمال کرنے والے کے لیے وعید ہے، جس نے تصویر بنائی، اس نے خالق کے ساتھ اس کام میں مشابہت کی جو اس کے علاوہ کسی کے لئے جائز نہیں اور جس شخص نے مصور کی بنائی ہوئی تصویر کو استعمال کیا گیا کہ وہ مصور کے فعل سے راضی ہے اور حدیث اگرچہ تکیہ کے متعلق وارد ہوئی ہے لیکن یہ ہر اس چیز کو شامل ہے جس میں تصویر ہے خواہ وہ کپڑا، گاؤ تکیے، کہنی کے نیچے سہارا دینے والی اشیاء سے ہو یا برتن، اسلحہ یا کتابوں کی جنس سے ہو۔ خواہ اس نے تصویر کو ہاتھ سے بنایا ہو یا کسی آلہ سے۔ اس لیے کہ آلات کے عمل کے ذریعے حاصل ہونے والی شکل پر بھی تصویر کا اطلاق درست بیٹھتا ہے۔ اس کا حکم تصویر کا حکم ہو گا اور اس کا استعمال تصویر کے استعمال ہی کی طرح ہو گا۔“ [الدين الخالص بحوالة تنقيح الرواة 253/3]
مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ تصویر بنانے والے، خواہ وہ تصویر ہاتھ سے بنائیں یا آلے کے ذریعے، اس کو استعمال کرنے والے دونوں قسم کے افراد اس وعید کے مستحق ہیں جو حدیث میں وارد ہوئی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«ومن صور صورة عزب وكلف ان ينفخ فيها و ليس بنافخ» [بخاري، كتاب التعبير : باب من كذب فى حلمه 7042]
”جس شخص نے کوئی تصویر بنائی، اسے عذاب دیا جائے گا اور اس بات کا مکلّف ٹھہرایا جائے گا کہ وہ اس تصویر میں روح پھونکے اور وہ پھونکنے والا نہیں ہو گا۔“
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا تصاوير » [بخاري، كتاب اللباس : باب التصاوير 5949]
”جس گھر میں کتا اور تصویریں ہوں اس میں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے۔“
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ تصویر بنانے والے افراد قیامت کے روز سخت ترین عذاب میں مبتلا ہوں گے اور ان تصویروں میں روح پھونکنے کے لیے انہیں کہا: جائے گا لیکن وہ ان میں روح نہیں پھونک سکیں گے۔ تصویر بنانا اللہ تعالیٰ کے ساتھ صفتِ خلق میں مشابہت ہے اور اس فعل پر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے جس بنا پر یہ کبیرہ گناہ ہے۔ یہ وعید ہر قسم کی تصویر کے متعلق ہے خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی، کپڑا، کاغذ، در و دیوار یا نوٹوں اور کتابوں پر چھاپی جائے، خواہ ہاتھ سے بنائی جائے یا آلات کے زریعے۔ ہمیں ان سے اجتناب کرنا چاہیے اور اسی طرح وہ آدمی جو تصاویر بنواتا ہے وہ چونکہ اس فعل پر راضی ہے، اس کی رضا مندی کی بنا پر وہ بھی ان وعیدوں کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ تصاویر کا کاروبار اور خرید و فروخت کرنا بھی حرام ہے جیسا کہ اسلام میں شراب حرام ہے تو اس شراب کو بیچ کر قیمت لینا بھی حرام ہے۔
آج کل چونکہ ہماری حکومت اسلام سے بالکل عاری ہے اور ملک میں رہنے والے افراد پر یہ پابندی عائد ہے کہ وہ اپنا شناختی کارڈ بنوائیں اور تمام اداروں میں کام کرنے کے لیے شناختی کارڈ کے بغیر حکومت کوئی بات نہیں سنتی تو ایسے عالم میں اتنی تصویر بنانا جس کی ضرورت ہے اسی طرح جائز ہے جیسے موت کی کشمکش میں مبتلا انسان کو مردار وغیرہ کھانے کی اجازت ہے۔
قرآن میں ہے :
« فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ » [البقرة : 173]
”جو شخص مجبور کر دیا جائے اور وہ بغاوت کرنے والا اور حد سے بڑھنے والا نہ ہو تو اس پر (جان بچانے کے لیے حرام کھانے میں) کوئی گناہ نہیں۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

ناجائز کاروبار کے لئے دکان کرایہ پر دینا