سوال :
ایک شخص نے اپنی بیٹی کا نکاح بچپن میں کر دیا، کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو لڑکی کو بالغ ہونے کے بعد نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہے یا نہیں؟
جواب :
قرآن وسنت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نکاح صحیح ہے اور لڑکی بالغ ہونے کے بعد اس نکاح پر راضی رہے تو تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور اگر بلوغت کے بعد اس نکاح پر رضامند نہ ہو تو اسے فسخ نکاح کا اختیار ہے۔ نابالغ لڑکی کے نکاح کی دلیل اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہے۔
﴿وَالَّٰئِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَالَّٰئِي لَمْ يَحِضْنَ﴾
(الطلاق: 4)
”تمھاری وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اور وہ جنھیں حیض نہیں آیا، اگر تمھیں شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے۔“
امام بخاری نے بھی صحیح بخاری کتاب اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے طلاق یافتہ عورتوں کی عدت بیان کی ہے کہ ان طلاق یافتہ عورتوں میں سے جو عمر رسیدہ ہو چکی ہوں اور ان کے ایام ماہواری آنے بند ہو چکے ہوں، یا ابھی نابالغ ہیں، جن کو حیض بالکل نہیں آیا، ان کی عدت تین ماہ ہے۔ ظاہر ہے طلاق نکاح سے پہلے نہیں ہوتی ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز کا انسان مالک نہیں اس میں طلاق نہیں ۔“ ابن ماجہ (1181)، ابو داؤد (2190)
امام بخاری نے بھی صحیح بخاری، کتاب النکاح میں اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے یہ عنوان قائم کیا ہے: ”باب إنكاح الرجل ولده الصغار “ ”آدمی کا اپنی چھوٹی اولاد کا نکاح کرنا“ اور اس باب میں سورۃ طلاق کی اس آیت کریمہ کو ذکر کرنے کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے چھ سال کی عمر میں نکاح والی حدیث لائے ہیں۔ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ﴾
(النساء : 3)
”اگر تمھیں ڈر ہو کہ تم یتیم بچوں کے بارے انصاف نہیں کر سکو گے تو دوسری عورتوں سے، جو تمھیں پسند ہوں ، نکاح کر لو، خواہ دو دو ، خواہ تین تین خواہ چار چار ۔“
اس آیت کریمہ کے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے ہاں یتیم بچوں کا جان ومال ہے، اس آیت کریمہ سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اگر انصاف و عدل کا یقین ہو تو ان اولیاء کو نابالغ یتیم بچیوں سے نکاح کر لینا درست ہے۔ لہذا باپ کا اپنی نابالغ بچی کا نکاح کر دینا بدرجہ اولی جائز ٹھہرا۔ علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس آیت کریمہ میں چھوٹی یتیم بچی کے نکاح کے جواز کی دلیل ہے ، تاہم لڑکی بلوغت کے بعد اگر اس نکاح کو قائم نہ رکھنا چاہے تو اسے نکاح فسخ کرنے کا حق حاصل ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک کنواری لڑکی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ اس نے بیان کیا کہ اس کے باپ نے اس کی شادی کر دی ہے اور وہ اسے ناپسند کرتی ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دے دیا۔ (ابو داؤد : 3306 ۔ ابن ماجہ: (1874) معلوم ہوا کہ نابالغہ لڑکی کو بعد از بلوغت فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں فتاوی محدث شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ۔