سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حدیث میں ہے کہ پہلے مردوں، پھر بچوں اور پھر عورتوں کی صف ہو۔ ہماری مسجد میں نماز تراویح کے امام صاحب کے سامع حافظ صاحب نابالغ بچے ہیں، کیا وہ پہلی صف میں سماعت کے لئے کھڑے ہو سکتے ہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نابالغ حافظِ قرآن بطور سامع پہلی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس کا پہلی صف میں کھڑا ہونا بلا شبہ جائز ہے۔ جس طرح نابالغ لڑکا بوقت ضرورت امامت کر سکتا ہے، اسی طرح وہ بطور سامع بھی پہلی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔
حدیث سے استدلال
صحیح بخاری باب مقام النبی ﷺ بمکۃ من الفتح کے ذیلی باب میں حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: قَالَ لِي أَبُو قِلاَبَةَ: أَلاَ تَلْقَاهُ فَتَسْأَلَهُ؟ قَالَ فَلَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: كُنَّا بِمَاءٍ مَمَرَّ النَّاسِ، وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا الرُّكْبَانُ فَنَسْأَلُهُمْ: مَا لِلنَّاسِ، مَا لِلنَّاسِ؟ [ص:151] مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُونَ: يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ، أَوْحَى إِلَيْهِ، أَوْ: أَوْحَى اللَّهُ بِكَذَا، فَكُنْتُ أَحْفَظُ ذَلِكَ الكَلاَمَ، وَكَأَنَّمَا يُقَرُّ فِي صَدْرِي، وَكَانَتِ العَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلاَمِهِمُ الفَتْحَ، فَيَقُولُونَ: اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَيْهِمْ فَهُوَ نَبِيٌّ صَادِقٌ، فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الفَتْحِ، بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلاَمِهِمْ، وَبَدَرَ أَبِي قَوْمِي بِإِسْلاَمِهِمْ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: جِئْتُكُمْ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا، فَقَالَ: «صَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَصَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا» . فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي، لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ، وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ، كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّي، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الحَيِّ: أَلاَ تُغَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ؟ فَاشْتَرَوْا فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا، فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْءٍ فَرَحِي بِذَلِكَ القَمِيصِ.
(صحیح بخاری: ج۲ ص۶۱۶)
حدیث کی وضاحت
عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
✿ ہم ایک چشمے پر رہائش پذیر تھے جہاں سے قافلے گزرتے۔
✿ جب قافلے آتے تو ہم ان سے رسول ﷺ کے بارے میں پوچھتے۔ وہ بتاتے کہ یہ شخص اللہ کے نبی ہیں اور ان پر وحی نازل ہوتی ہے۔
✿ میں ان کی باتیں یاد کر لیتا اور میرے سینے میں محفوظ رہتیں۔
✿ جب فتح مکہ ہوئی تو سب قبائل نے اسلام قبول کیا۔ میرے والد بھی ایمان لے آئے۔
✿ والد محترم رسول اللہ ﷺ کی خدمت سے واپس آئے اور کہا: "میں نبی کریم ﷺ کے پاس سے آیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ نمازیں ان کے اوقات پر پڑھو، اذان تم میں سے ایک دے اور جو قرآن سب سے زیادہ جانتا ہو وہ امامت کرے۔”
✿ جب قوم نے دیکھا کہ مجھے سب سے زیادہ قرآن یاد ہے تو مجھے امام بنا دیا گیا۔ اس وقت میری عمر چھ یا سات سال تھی۔
✿ نماز کے وقت میری کملی سجدہ میں پیچھے ہٹ جاتی اور جسم کا کچھ حصہ ننگا ہو جاتا۔ ایک عورت نے کہا: "کیا تم اپنے امام کا ستر نہیں ڈھانکتے؟”
✿ پھر لوگوں نے میرے لئے قمیص تیار کر دی، جس پر میں بے حد خوش ہوا۔
فقہی نتیجہ
◈ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نابالغ لڑکا اگر زیادہ قرآن جانتا ہو اور نماز کے طریقے سے واقف ہو تو اس کی امامت جائز اور صحیح ہے۔
◈ جب امامت جیسے حساس اور اہم معاملے میں نابالغ کی اجازت ہے، تو بطور سامع اس کا پہلی صف میں کھڑا ہونا بالکل درست ہے۔
◈ امامت کا مسئلہ زیادہ اہم اور نازک ہے، اس کے مقابلے میں ایک سمجھدار حافظ بچے کا پہلی صف میں سامع کے طور پر کھڑا ہونا بالکل جائز اور غیر نازک معاملہ ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب