نابالغ بچی کا نکاح: قرآنی، حدیثی اور اجماعی دلائل
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

نابالغ بچی کا نکاح

کم سن بچی جو ابھی بلوغت کی عمر کو نہ پہنچی ہو، اس کا نکاح اس کے والد کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اس بارے میں قرآن، حدیث، اور اجماع سے دلائل ملتے ہیں۔

✔ قرآنی دلائل

فرمانِ باری تعالیٰ:

(وَاللَّائِي یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِنْ نِّسَائِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثَۃُ أَشْہُرٍ وَّاللَّائِي لَمْ یَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْـأَحْمَالِ أَجَلُہُنَّ أَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَہُنَّ) (الطلاق : ٤)
"اگر تمہیں شبہ ہو کہ وہ عورتیں، جو حیض سے مایوس ہو گئیں اور جنہیں ابھی تک حیض نہیں آیا (ان کی عدت ہے یا نہیں؟ تو جان لو کہ) ان کی عدت تین ماہ ہے، نیز حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔”

اس آیت میں تین قسم کی عورتوں کا ذکر ہے:

◈ وہ عمر رسیدہ خواتین جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں۔
◈ وہ نابالغ بچیاں جنہیں ابھی حیض شروع نہیں ہوا۔
◈ حاملہ خواتین۔
ان تینوں کی عدتِ طلاق بیان کی گئی ہے، جو تین ماہ ہے، سوائے حاملہ خواتین کے جن کی عدت وضع حمل ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نابالغ بچیوں کا نکاح جائز ہے، ورنہ ان کی طلاق کی عدت کا ذکر بے معنی ہوتا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اس آیت سے نابالغ بچی کے نکاح کے جواز پر استدلال کیا ہے اور یوں باب قائم کیا:

بَابُ إِنْکَاحِ الرَّجُلِ وَلَدَہُ الصِّغَارَ
"باپ کا اپنے نابالغ بچوں اور بچیوں کے نکاح کردینے کا بیان۔”
(صحیح البخاري، قبل حدیث : ٥١٣٣)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٨٥٢ھ) لکھتے ہیں:

"ترجمۃ الباب میں لفظ ‘ولد’ جنس ہے، جو مذکر و مؤنث دونوں کو شامل کرتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ کہنا: ‘(وَالَّلَائِي لَمْ یَحِضْنَ) میں اللہ تعالیٰ نے نابالغ کی عدت تین ماہ بتائی ہے۔’ امام بخاری رحمہ اللہ اس آیت سے نابالغ کے نکاح کا جواز بیان کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک اچھا استنباط ہے، لیکن آیت میں باپ یا باکرہ کی تخصیص نہیں ہے۔ نکاح کی اصل حرمت ہے، جب تک کہ کوئی دلیل نہ مل جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اس وقت کیا جب آپ رضی اللہ عنہا نابالغ تھیں۔ لہٰذا نابالغ بچی کے علاوہ باقی اپنی اصل (حرمت) پر رہیں۔ شاید امام بخاری رحمہ اللہ کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا ذکر کرنے میں یہی راز ہے۔”
(فتح الباري : ٩/١٩٠)

فرمانِ الٰہی:

(وَیَسْتَفْتُونَکَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیکُمْ فِیہِنَّ وَمَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فِي الْکِتَابِ فِي یَتَامَی النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا تُؤْتُونَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ وَالْمُسْتَضْعَفِینَ مِنَ الْوِلْدَانِ وَأَنْ تَقُومُوا لِلْیَتَامٰی بِالْقِسْطِ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِہٖ عَلِیمًا) (النّساء : ١٢٧)
"لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ مانگتے ہیں۔ فرمائیے کہ اللہ تمہیں ان عورتوں کے بارے میں بھی نصیحت کر رہا ہے اور ان یتیم بچیوں کے بارے میں بھی، جن کے احکام پہلے بھی بیان ہوچکے ہیں۔ تم ان سے نکاح میں تو رغبت رکھتے ہو، لیکن حق مہر پورا نہیں دیتے۔ نیز کمزور اور نادار بچے بچیوں کے بارے میں بھی نصیحت کر رہا ہے۔ یتیموں کے حقوق میں انصاف کا دامن مت چھوڑو۔ یاد رکھو کہ اللہ تمہارے نیک اعمال سے بخوبی واقف ہے۔”

جلیل القدر تابعی عروہ بن زبیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:

"میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے (سورۃ النساء : ٣) کے متعلق پوچھا، فرمانے لگی: بھانجے! اس سے وہ یتیم بچی مراد ہے، جو اپنے ولی کی زیرِ سرپرستی ہو اور اس کا ولی اس کے مال و جمال میں دلچسپی لینے لگے، اور پورا مہر دیے بغیر اس سے نکاح کرنا چاہے۔ ایسے لوگوں کو روکا گیا کہ نکاح کرنا ہے تو مہر پورا ادا کریں، یا پھر کسی اور عورت سے نکاح کریں۔”
(صحیح البخاري : ٢٤٩٤)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

"یہ حدیث دلیل ہے کہ باپ کے علاوہ سرپرست نابالغ کنواری یا شوہر دیدہ بچی کا نکاح کر سکتا ہے، کیونکہ حقیقی یتیم وہ ہوتی ہے جو نابالغ ہو اور جس کا باپ فوت ہو چکا ہو۔ یتیم بچی کی شادی کرنے کی اجازت دی گئی ہے، اور اس کے عدمِ جواز کا دعویٰ دلیل کا محتاج ہے۔”
(فتح الباري : ٩/١٩٧)

شیخ الاسلام ثانی، علامہ ابن قیم جوزیہ رحمہ اللہ (٧٥١ھ):

"نبوی فیصلہ ہے کہ نابالغ یتیم بچی سے اس کے رشتے کے معاملے میں (از روئے شفقت) مشورہ لیا جائے گا، کیونکہ بلوغت کے بعد تو یتیمی باقی نہیں رہتی۔ لہٰذا یہ واضح دلیل ہے کہ یتیم بچی کا نکاح قبل از بلوغت جائز ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھی یہی مذہب ہے اور قرآن و سنت بھی اسی کی حمایت کرتے ہیں۔”
(زاد المعاد في ھدي خیر العباد : ٥/٩١)

تنبیہات

یتیمہ کی تعریف:

یتیمہ کی جمع "یتامیٰ” ہے، اور اس کا لغوی و حقیقی معنی ایسی بچی ہے جو بلوغت کی عمر کو نہ پہنچی ہو اور جس کا باپ فوت ہو چکا ہو۔ سیدنا حنظلہ بن حذیم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:

لَا یُتْمَ بَعْدَ احْتِلَامٍ، وَلَا یُتْمَ عَلٰی جَارِیَۃٍ إِذَا ہِيَ حَاضَتْ
"بچہ احتلام کے بعد اور بچی حیض کے بعد یتیم نہیں رہتے۔”
(المعجم الکبیر للطبراني : ٤/١٤، ح : ٣٥٠٢، النفقۃ علی العیال لابن أبي الدنیا : ٦٣٤، سندہ، حسنٌ)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے (التلخیص الحبیر : ٣/١١٠) میں اس کی سند کو "لا باس بہ” کہا ہے۔ البتہ بلوغت کے بعد بھی مجازی طور پر یتیمہ کہا جاتا ہے، جیسا کہ سورۃ النساء کی آیت (٢) میں ذکر ہے۔ اس آیت میں یتیمہ سے مراد نابالغ بچی ہے، جس کا باپ فوت ہو چکا ہو، نہ کہ بالغ عورت۔ یہاں یتیمہ سے بالغ عورت مراد لینا، بغیر دلیل کے حقیقت سے مجاز کی طرف جانا ہے، جو سراسر غلط ہے۔

نیز، اس آیت کی تفسیر خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کر رہی ہیں اور یہ سببِ نزول بیان کرتی ہیں، جو کسی بھی آیت کے فہم میں معاون ہوتا ہے۔ اس لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کو ترجیح حاصل ہے۔

لفظ "نساء” کے اطلاق پر اعتراض:

اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ آیت میں دو مرتبہ "نساء” کا لفظ آیا ہے، اور یہ بالغ عورتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، جیسے کہ "رجال” کا لفظ بالغ مردوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، لہٰذا یہاں بالغ عورتیں ہی مراد ہیں، تو ہمارا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ "نساء” کا لفظ بالغ عورتوں کے لیے ہوتا ہے، لیکن نابالغ بچیوں پر بھی اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

یُذَبِّحُونَ أَبْنَاء َکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَ کُم (البقرۃ : ٤٩)
"آل فرعون تمہارے بچوں کو ذبح کرتے تھے اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے۔”

یہاں "نساء” سے مراد دودھ پینے والی بچیاں ہیں، نہ کہ بالغ عورتیں۔ اس لیے نابالغ بچیوں پر بھی "نساء” کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے۔

لفظ "نساء” کا اطلاق بچیوں پر بھی:

جنسِ "نساء” میں بچیاں بھی شامل ہوتی ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَلَا تَنْکِحُوا مَا نَکَحَ آبَاؤُکُمْ مِنَ النِّسَاءِ (النساء : ٢٢)
"جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہے، ان سے نکاح نہ کرو۔”

نیز، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَأُمَّہَاتُ نِسَائِکُمْ (النساء : ٢٣)
"اپنی ساسوں سے نکاح نہ کرو۔”

ان دونوں آیات میں "نساء” کا لفظ نابالغ بچیوں کو بھی شامل کرتا ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص کسی نابالغ بچی سے نکاح کرتا ہے، تو بلا اختلاف بچی کی ماں اس کے لیے محرماتِ ابدیہ میں شمار ہوگی۔

قریب البلوغ یتیمہ کا نکاح:

جو یتیم بچی قریب البلوغ ہو، اس سے از روئے شفقت مشورہ لیا جائے گا۔ اگر اس کی اجازت کے بغیر نکاح کیا جائے اور وہ راضی ہو، تو نکاح معتبر ہوگا، ورنہ نکاح ختم ہو جائے گا۔ وہ تمام احادیث جن میں یتیمہ سے مشورہ لینے کا ذکر ہے، اس صورت پر محمول ہیں۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
توفي عثمان بن مظعون رضي اللٰہ عنہ، وترک ابنۃ لہ، من خویلۃ بنت حکیم بن أمیۃ بن حارثۃ بن الـأوقص قال : وأوصٰی إلٰی أخیہ قدامۃ بن مظعون قال عبد اللٰہ : فہما خالاي قال : خطبت إلٰی قدامۃ بن مظعون ابنۃ عثمان بن مظعون، فزوجنیہا، فدخل المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللٰہ عنہ إلٰی أمہا، فأرغبہا في المال فحطت إلیہ، وحطت الجاریۃ إلٰی ہوٰی أمہا، فأبتا حتی ارتفع أمرہما إلٰی رسول اللٰہ صلی اللٰہ علیہ وسلم قال : فقال قدامۃ بن مظعون : ابنۃ أخي أوصٰی بہا إلي، فزوجتہا من عبد اللٰہ بن عمر، فلم أقصر بہا في الصلاح، ولا في الکفاء ۃ، ولٰکنہا امرأۃ، وإنہا حطت إلٰی ہوٰی أمہا قال : فقال رسول اللٰہ صلی اللٰہ علیہ وسلم : ہي یتیمۃ ولا تنکح إلا بإذنہا، قال : فانتزعت واللٰہ مني بعد ما ملکتہا، وزوجوہا المغیرۃ بن شعبۃ رضي اللٰہ عنہ .

”سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ اپنی بیوی خولہ بنت حکیم سے ایک بیٹی کو داغ ِ یتیمی دے کر اللہ کو پیارے ہو گئے اور اپنے بھائی قدامہ بن مظعون کو اس کا وصی بنا دیا۔ یہ دونوں بھائی میرے (ابن عمر) ماموں ہیں۔ میں نے اپنے لیے ماموں قدامہ کو اس یتیم بچی کے حوالے سے رشتے کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے اس سے میرا نکاح کر دیا۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بچی کی ماں کے پاس آئے اور مال کا لالچ دیا، ماں باتوں میں آگئی۔ لڑکی بھی ماں کی طرف مائل ہو گئی اور دونوں نے انکار کردیا۔ معاملہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں آیا۔ قدامہ بن مظعون نے کہا : اللہ کے رسول! یہ لڑکی میری بھتیجی ہے، اس کے باپ نے مجھے اس کا ولی بنایا ہے اور میں نے اسے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ اس کی یکسانیت اور راست روی کا پورا پورا خیال رکھا ہے، لیکن ہے تو یہ عورت ذات ہی! اپنی ماں کی چاہت کی طرف مائل ہو کر شادی سے انکار کر رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ یتیم بچی ہے، نکاح میں اسی کی مرضی چلے گی۔ واللہ! وہ نکاح کے بعد مجھ سے چھین لی گئی اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے عقد میں دے دی گئی۔”

(مسند الإمام أحمد : ٢/١٣٠، سنن الدار قطني : ٣/٢٣٠، السنن الکبریٰ للبیھقي : ٧/١٢٠، وسندہ، حسنٌ)
امام حاکم رحمہ اللہ (٢/١٦٧) نے اس حدیث کو "امام بخاری و امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح” کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

علامہ سندھی حنفی (١١٣٨ھ) لکھتے ہیں:

‘وَالْیَتِیمَۃُ’ یَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ نِکَاحِ الْیَتِیمَۃِ بِالِاسْتِئْذَانِ قَبْلَ الْبُلُوغِ
"لفظ یتیمہ نابالغ بچی کی اجازت کے ساتھ اس کے نکاح کے جواز پر دلالت کرتا ہے۔”
(حاشیۃ السندھي علی النسائي : ٦/٨٤)

قبل از بلوغت نکاح کی مخالفت پر اعتراض:

بعض لوگ قبل از بلوغت نکاح کے عدم جواز پر یہ آیت پیش کرتے ہیں:

وَابْتَلُوا الْیَتَامٰی حَتّٰی إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِّنْہُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَیْہِمْ أَمْوَالَہُمْ (النساء : ٦)
"یتیموں کی جانچ کرو تاآں کہ وہ بالغ ہو جائیں، اگر تمہیں ان میں معاملہ شناسی کا مادہ محسوس ہو، تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو۔”

وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں نکاح کا لفظ شادی کے معنی میں ہے، یعنی انہیں مال اس وقت تک نہ دیا جائے جب تک وہ شادی کی عمر کو نہ پہنچ جائیں۔ لیکن ہمارا جواب یہ ہے کہ قرآن میں "نکاح” کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اور یہاں "نکاح” کا مطلب بلوغت ہے نہ کہ شادی۔ جیسا کہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ (٧٩٤ھ) اور حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٩١١ھ) لکھتے ہیں:

وَکُلُّ نِکَاحٍ فِیہِ تَزَوُّجٌ إِلَّا (حَتّٰی إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ) فَہُوَ الْحُلُمُ
"قرآن میں لفظ نکاح رشتہ ازدواج کے لیے استعمال ہوتا ہے، سوائے اس فرمان کے: (حَتّٰی إِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ)، یہاں لفظ نکاح بلوغت کے معنی میں ہے۔”
(البرھان في علوم القران : ١/١٠٩، الإتقان في علوم القران : ٢/١٥٩)

اس کے علاوہ، قرآن و حدیث اور اجماع امت میں نکاح کے لیے بلوغت کی شرط نہیں۔ یہ آیت بھی اپنے دعوے میں مجمل ہے، اور دیگر صریح دلائل کے مقابلے میں کسی کی من چاہی تفسیر قابل قبول نہیں ہے، جب کہ شریعت میں نابالغ بچی کے نکاح کا جواز موجود ہے۔

فرمانِ باری تعالیٰ:

وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْیَتَامٰی فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنٰی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ذَالِکَ أَدْنٰی أَلَّا تَعُولُوا (النساء : ٣)
"اگر تمہیں یتیم نابالغ بچیوں کے معاملہ میں عدل نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو، تو (ان کے علاوہ دوسری) پسندیدہ عورتوں سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار (تک کر سکتے ہو)۔ اگر ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں عدل نہ کر سکو، تو ایک سے یا لونڈی سے نکاح کرلو۔ یہ بے اعتدالی سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔”

اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن ہمام حنفی (٨٦١ھ) لکھتے ہیں:

مَنَعَ مِنْ نِکَاحِہِنَّ عِنْدَ خَوْفِ عَدَمِ الْعَدْلِ فِیہِنَّ، وَہٰذَا فَرْعُ جَوَازِ نِکَاحِہَا عِنْدَ عَدَمِ الْخَوْفِ…
"اللہ تعالیٰ نے ان مردوں کو یتیم بچیوں سے نکاح کرنے سے منع کر دیا، جو ان سے عدل نہیں کر سکتے۔ یہ دلیل ہے کہ جب بے اعتدالی کا خوف نہ ہو، تو نکاح جائز ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول بھی صریح دلیل ہے کہ یہ آیت یتیم بچی کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو اپنے ولی کی سرپرستی میں ہے۔”
(فتح القدیر : ٣/٢٧٥)

✔ حدیثی دلائل

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِینَ، وَأُدْخِلَتْ عَلَیْہِ وَہِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَمَکَثَتْ عِنْدَہ، تِسْعًا
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح ہوا، تو میں چھ سال کی بچی تھی، رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں نے نو سال گزارے۔”
(صحیح البخاري: ٥١٣٣)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے:

إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہِيَ بِنْتُ سَبْعِ سِنِینَ، وَزُفَّتْ إِلَیْہِ وَہِيَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِینَ، وَلُعَبُہَا مَعَہَا، وَمَاتَ عَنْہَا وَہِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَۃَ
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا، تو میری عمر سات برس تھی، رخصتی کے وقت عمر نو سال تھی، میں کھلونے بھی ساتھ لے آئی۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میری عمر اٹھارہ برس تھی۔”
(صحیح مسلم: ١٩٢٢/٧١)

اسی طرح ایک اور روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

تَزَوَّجَہَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَہِيَ بِنْتُ سِتٍّ، وَبَنٰی بِہَا وَہِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَمَاتَ عَنْہَا وَہِيَ بِنْتُ ثَمَانَ عَشْرَۃَ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت میری عمر چھ سال تھی، رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی، اور آپ کی وفات کے وقت میری عمر اٹھارہ برس تھی۔”
(صحیح مسلم: ١٩٢٢/٧٢)

علامہ عینی حنفی (م: ٨٥٥ھ) لکھتے ہیں:

وَحَدِیثُ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا مَشْہُورٌ وَّقَرِیبٌ إِلَی التَّوَاتُرِ
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث متواتر کی حد تک مشہور ہے۔”
(البِنایۃ في شرح الھدایۃ: ٥/٩٠)

شارح صحیح مسلم، حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١-٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:

"ایک روایت میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر سات سال تھی، جب کہ دوسری روایات میں چھ کا ذکر ہے۔ دونوں روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نکاح کے وقت ان کی عمر چھ سال مکمل اور کچھ ماہ تھی۔ ایک روایت میں صرف سالوں کے ذکر پر اکتفا کیا اور دوسری میں اسے بھی علیحدہ سال تصور کیا، جس میں وہ داخل ہوچکی تھیں۔ واللہ اعلم!”
(شرح النووی: ٩/٢٠٧)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣-٨٥٢ھ) فرماتے ہیں:

اَلصَّحِیحُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَہَا وَہِيَ بِنْتُ سِتٍّ، وَقِیلَ: سَبْعٍ، وَیُجْمَعُ بِأَنَّہَا کَانَتْ أَکْمَلَتِ السَّادِسَۃَ وَدَخَلَتْ فِي السَّابِعَۃِ، وَدَخَلَ بِہَا وَہِيَ بِنْتُ تِسْعٍ
"صحیح یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، تو سیدہ کی عمر چھ برس تھی، دوسری روایت کے مطابق سات برس تھی۔ دونوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نکاح کے وقت سیدہ عمر کا چھٹا سال گزار کر ساتویں میں داخل ہو چکی تھیں، اور رخصتی کے وقت نو سال کی عمر تھی۔”
(الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: ٨/٢٨٢)

نکاح کی پیشکش اور منظوری کا واقعہ:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

لَمَّا تُوُفِّیَتْ خَدِیجَۃُ… أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَخْطِبُ عَلَیْہِ عَائِشَۃَ،… قَالَتْ: وَدِدْتُ انْتَظِرِي أَبَا بَکْرٍ،… أَبُو بَکْرٍ… فَقَالَ: ہَلْ تَصْلُحُ لَہ، وَإِنَّمَا ہِيَ بِنْتُ أَخِیہِ،… فَقَالَ: ارْجِعِي إِلَیْہِ فَقُولِي لَہ،: أَنْتَ أَخِي فِي الْإِسْلَامِ، وَأَنَا أَخُوکَ وَابْنَتُکَ تَصْلُحُ لِي،… وَأَنَا یَوْمَئِذٍ ابْنَۃُ سِتِّ سِنِینَ
"سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد مکہ کے دور کی بات ہے کہ عثمان بن مظعون کی بیوی خولہ بنت حکیم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: ‘اللہ کے رسول! آپ شادی کرنا پسند کریں گے؟’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘کس سے؟’ خولہ نے جواب دیا: ‘اگر آپ چاہیں تو کنواری یا چاہیں تو شوہر دیدہ سے۔’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ‘کنواری کون ہے؟’ خولہ نے جواب دیا: ‘ابوبکر کی بیٹی عائشہ، جو آپ کو محبوب ہے۔’
… پھر خولہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر گئیں اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ طلب کیا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: ‘وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی ہیں، کیا یہ رشتہ جائز ہوگا؟’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘ہم بھائی بھائی ہیں، عائشہ کا رشتہ میرے لیے جائز ہے۔’ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکاح کر دیا۔ اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ برس تھی۔”
(المعجم الکبیر للطبراني: ٢٣/٢٣، ح: ٥٧، مسند الإمام أحمد: ٦/٢١٠، سندہ، حسنٌ)

امام حاکم رحمہ اللہ (٣/٧٣) نے اسے "امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر صحیح” قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی موافقت کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (فتح الباری: ٧/٢٢٥) نے بھی اس حدیث کی سند کو "حسن” کہا ہے۔

✔اجماعِ امت

حافظ ابن المنذر رحمہ اللہ (٢٤٢۔٣١٩ھ) فرماتے ہیں:

أَجْمَعَ کُلُّ مَنْ نَّحْفَظُ عَنْہُ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ نِکَاحَ الْـأَبِ ابْنَتَہُ الْبِکْرَ الصَّغِیرَۃَ جَائِزٌ
"تمام معتبر اہل علم کا اجماع ہے کہ باپ اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کر سکتا ہے۔”
(المغني لابن قدامۃ المقدسي: ٧/٣٧٩)

مہلب بن احمد بن ابو صفرہ اندلسی (م: ٤٣٥ھ)، شارح بخاری، لکھتے ہیں:

أَجْمَعُوا أَنَّہ، یَجُوزُ لِلْـأَبِ تَزْوِیجُ ابْنَتِہِ الصَّغِیرَۃِ الْبِکْرِ وَلَوْ کَانَتْ لَا یُوطَأُ مِثْلُہَا
"علمائے کرام کا اجماع ہے کہ باپ کے لیے اپنی نابالغ بیٹی کا نکاح کرنا جائز ہے، اگرچہ وہ جماع کے قابل نہ ہو۔”
(فتح الباري لابن حجر: ٩/١٩٠)

علامہ ابن بطال رحمہ اللہ (م: ٤٤٩ھ) فرماتے ہیں:

یَجُوزُ تَزْوِیجُ الصَّغِیرَۃِ بِالْکَبِیرِ إِجْمَاعًا وَّلَوْ کَانَتْ فِي الْمَہْدِ لَکِنْ لَا یُمَکَّنُ مِنْہَا حَتّٰی تَصْلُحَ لِلْوَطْءِ
"نابالغ بچی کا بالغ مرد سے نکاح بالاجماع جائز ہے، گو وہ ابھی پنگھوڑے میں ہی ہو، لیکن رخصتی اس وقت کی جائے، جب وہ جماع کے قابل ہو جائے۔”
(فتح الباري لابن حجر: ٩/١٢٤)

حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:

وَأَجْمَعَ الْمُسْلِمُونَ عَلٰی جَوَازِ تَزْوِیجِہِ ابْنَتَہُ الْبِکْرَ الصَّغِیرَۃَ لِھٰذَا الْحَدِیثِ
"اس حدیث کی رو سے مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نابالغ بچی کی شادی کرنا جائز ہے۔”
(شرح النووي: ٩/٢٠٦)

اجماعِ امت کی حیثیت:

اجماعِ امت کے مقابلے میں کوئی دلیل قابل قبول نہیں ہوتی کیونکہ یہ حق پر مبنی ہوتا ہے۔ حق کبھی بھی دوسرے حق کی مخالفت نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ نکاح کا بنیادی مقصد شہوت کی تکمیل اور نسل کا تسلسل ہے، اور نابالغ بچی کے ساتھ نکاح میں یہ دونوں مقاصد موجود نہیں ہیں، تو اس نکاح کا کیا فائدہ؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ شریعت نے نابالغ بچی سے نکاح کو جائز قرار دیا ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس نکاح کے فطری فوائد بھی حاصل ہو جائیں گے۔ ضروری نہیں کہ یہ فوائد فوراً نکاح کے وقت ہی حاصل ہوں۔ بہرحال، نکاح ایک نیک عمل ہے۔

عقل و نقل کا نکتہ نظر:

عقل اور نقل دونوں اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ مباشرت اس وقت کی جائے گی جب بچی اس کے قابل ہو جائے۔ شریعت نے قبل از بلوغ نکاح کا جواز فراہم کیا ہے، لیکن کچھ لوگ نہ صرف بلوغت سے پہلے بلکہ بلوغت کے بعد بھی نکاح میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور مختلف پابندیاں عائد کرتے ہیں۔ ان پابندیوں کی نہ تو عقلی بنیاد ہے اور نہ ہی نقلی، بلکہ یہ شریعت میں خود ساختہ تبدیلیاں ہیں۔

جلدی شادی کے فوائد:

مسلمان والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی جلدی شادی کرکے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوں۔ شادی میں تاخیر کئی مسائل کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اور انسانی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس لیے، جلد شادی کرنا بہتر ہے تاکہ زندگی میں سکون و خوشحالی حاصل ہو۔

خلاصہ

خلاصہ یہ ہے کہ نابالغ بچی کے نکاح کے جواز کا مسئلہ قرآن، حدیث اور اجماعِ امت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے، جس میں باپ کے ذریعے نابالغ بیٹی کا نکاح کرنا جائز قرار دیا گیا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!