سوال
جدید مسجد میں نماز پڑھنے کا مسئلہ
ہمارے علاقے میں دو محلوں کے لوگ، جو تمام کے تمام اہل حدیث ہیں، ایک ہی مسجد میں جمعہ اور پانچ وقت کی نمازیں باجماعت ادا کیا کرتے تھے۔ لیکن ایک محلہ، جس میں کوئی مسجد موجود نہ تھی، وہاں کے رہائشی مسجد سے دوری کی وجہ سے باجماعت نماز کی ادائیگی میں سستی کرتے تھے۔ چنانچہ سب کے باہمی مشورے سے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس محلے میں ایک الگ مسجد تعمیر کی جائے تاکہ وہاں کے تمام لوگ باجماعت نماز ادا کرسکیں۔
چنانچہ اس نئی مسجد کی تعمیر مکمل ہوگئی اور اسے بنے ہوئے اب دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بعد ازاں بعض دنیوی معاملات میں اختلافات کی وجہ سے اس نئی مسجد میں بھی ایک سال سے جمعہ کی نماز شروع کردی گئی ہے۔
اسی سال رمضان المبارک کے دوران، اس نئی مسجد سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے دونوں محلوں کے افراد کو دعوت دی۔ لیکن ایک مولوی صاحب نے فتویٰ دیا کہ اس دعوت کو قبول کرنا جائز نہیں اور اس نئی مسجد میں نماز پڑھنا بھی درست نہیں کیونکہ ان لوگوں نے علیحدہ جمعہ قائم کرلیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ مولوی صاحب کا یہ فتویٰ درست ہے؟
جواب
الحمد للہ، والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
اس نئی مسجد میں نماز پڑھنا بلا شبہ جائز ہے، کیونکہ یہ مسجد "مسجد ضرار” کے حکم میں نہیں آتی۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مقام قباء میں منافقین نے جو مسجد بنائی تھی، اس کی تعمیر کی نیت ہی مسجد بنانے کی نہ تھی۔ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق مسجد بنانا قربِ الٰہی کا ذریعہ نہیں تھا۔
اس کے برعکس، زیرِ بحث معاملے میں جن لوگوں نے نئی مسجد تعمیر کی ہے، ان کا ارادہ تقرب الٰہی حاصل کرنا تھا اور وہ اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس نئی مسجد کو "مسجد ضرار” پر قیاس کرنا ایک بے بنیاد قیاس (قیاس مع الفارق) ہے، اور اس میں نماز پڑھنے کو ناجائز قرار دینے کا فتویٰ درست نہیں۔
البتہ، محض دنیاوی امور یا ایسے دینی معاملات میں جن میں شرعاً اختلاف کی کوئی گنجائش نہ ہو، جمعہ کی نماز کو الگ نہیں کرنا چاہیے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ مسلمانوں کے درمیان تفریق پیدا کرنے والے شمار ہوتے ہیں۔
لہٰذا، ایسے افراد کی دعوت قبول نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ اس دعوت کو رد کرنا یقیناً درست عمل ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب