میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے: روایت کی حقیقت اور وضاحت
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

ایک روایت بیان کی جاتی ہے: ”میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے“ اس روایت کا مطلب و معنی کیا ہے اور کیا یہ روایت صحیح ہے؟

جواب :

بعض لوگ جب علی رضی اللہ عنہ میں غلو سے کام لیتے ہوئے ضعیف و موضوع روایات کو بنیاد بنا کر غلط نظریات و عقائد اختراع کرتے ہیں اور تاویلات باطلہ، آرائے کاسدہ اور خیالات فاسدہ کے ذریعے عامتہ الناس کو گمراہ کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں روافض اس روایت کو کثرت سے ذکر کرتے اور اس کے الفاظ کی مناسبت سے اپنے جامعات و معاهد کے نام رکھتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دار الحکمت اور مدینہ العلم ہیں اور اس دار اور گھر کا دروازہ علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ گھر میں داخل ہونے کے لیے دروازہ استعمال کیا جاتا ہے، لہذا حکمت و علم کا حصول علی رضی اللہ عنہ سے مختص ہے اور اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے:
﴿وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا﴾
(البقرة: 189)
”گھروں میں ان کے دروازوں کی جانب سے داخل ہو۔“
یہ بھی کہتے ہیں کہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد متصل خلیفہ علی رضی اللہ عنہ ہیں اس لیے کہ گھر میں داخلے کے لیے دروازہ ہیں۔ اس لیے علم نبوت کے وارث علی رضی اللہ عنہ ہیں اور وہی خلیفہ بلا فصل ہیں۔ ان کی یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے:
① علامہ طیبی شارح مشکوۃ فرماتے ہیں:
ولا حجة لهم فيه إذ ليس دار الجنة بأوسع من دار الحكمة ولها ثمانية أبواب
(شرح الطیبی على المشكوة 3887/12)
اس روایت میں ان کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے دار الجنة، دار الحکمہ سے زیادہ وسیع نہیں ہے اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ یعنی دار جنت جو دار حکمت سے وسیع نہیں ہے، اس کے آٹھ دروازے ہیں تو دار حکمت اور مدینہ العلم کا ایک ہی دروازہ کیوں؟ ملا علی قاری رقمطراز ہیں:
والمعنى على باب من أبوابها
(مرقاة 269/10)
”اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ علی اس شہر کے جملہ دروازوں میں سے ایک دروازہ ہیں۔“
② یہ روایت اپنی جمیع اسانید کے ساتھ ضعیف ہے، بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس پر موضوع و من گھڑت ہونے کا حکم لگایا ہے۔ (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة ح 2955)
اس کی ایک سند میں ابو الصلت عبد السلام بن صالح الہروی متہم بالکذب ہے، یہ سند مستدرک حاکم (126/3-127 ح 4637-4638)، طبرانی کبیر، تاریخ بغداد، تہذیب الآثار اور تاریخ دمشق میں موجود ہے۔ عبد السلام کے حالات کے بارے ملاحظہ ہو المغنی فی الضعفاء (624/1)، الجرح والتعديل (257/6)، میزان الاعتدال (616/2)، لسان المیزان (287/7) اور الضعفاء الكبير (70/3 )وغیرہ۔
دوسری سند میں شریک بن عبد اللہ قاضی ضعیف الحفظ راوی ہے۔ یہ سند ترمذی ح (3723 )اور حلیة الأولياء (64/1) وغیرہ میں مروی ہے۔
یہ روایت جابر رضی اللہ عنہ سے مستدرک حاکم (127/3 ح 4639) اور تاریخ بغداد میں مروی ہے، اس کی سند میں احمد بن عبد اللہ بن یزید حرانی دجال و کذاب ہے۔ (تلخيص المستدرك 127/3-129) مزید تفصیل کے لیے سلسلہ ضعیفہ اور امام شوکانی کی الفوائد المجموعة ح (2 )ملاحظہ کریں۔
③ اس ضعیف و موضوع روایت کو اگر تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کے پہلے حصے کو بھی منظر عام میں رکھیں۔ عبد اللہ بن سعید کی روایت میں ہے:
أنا مدينة العلم وأبو بكر أساسها وعمر حيطانها وعثمان سقفها وعلي بابها لا تقولوا فى أبى بكر وعلي وعثمان إلا خيرا
(مسند الفردوس 105 ص 44-43، تاريخ دمشق 20/9-321/45، كشف الخفاء ومزيل الإلباس 204/1، مرقاة 470/10-471)
”میں علم کا شہر ہوں، ابو بکر اس کی بنیاد ہیں، عمر اس کی دیواریں ہیں، عثمان اس کی چھت ہیں اور علی اس کا دروازہ ہیں اور تم ابو بکر، علی اور عثمان رضی اللہ عنہم کے بارے میں خیر کے سوا کچھ نہ کہو۔“
لیکن مدينة العلم والی روایت پر شور و غوغا کرنے والے اس روایت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔
④ عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ دروازے کا نمبر پہلا نہیں ہوتا، بلکہ چوتھا ہی ہوتا ہے، جب بھی کوئی گھر اور مکان تعمیر کرتا ہوتا ہے تو پہلے اس کی بنیاد رکھی جاتی ہے، پھر دیواریں بنتی ہیں، پھر چھت ڈالی جاتی ہے اور پھر بعد میں دروازوں کا نمبر آتا ہے، یہ ہمارے روزمرہ کے مشاہدے اور معاینے میں ہے۔ کوئی کم عقل آدمی نہیں ہوگا جو بنیاد، دیواریں اور چھت ڈالنے کے بغیر ہی دروازہ لگا کر بیٹھ جائے۔ اس لحاظ سے بھی علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا نمبر چوتھا بنتا ہے۔
⑤ بعض علماء نے اس روایت کا ترجمہ یوں بھی کیا ہے کہ ”میں علم کا شہر ہوں اور اس کا دروازہ بہت بلند و عالی شان ہے۔“ انھوں نے ”علی“ کو علم کی بجائے صفت کا صیغہ قرار دیا ہے، بہر حال یہ بات شاذ و نادر ہے۔
مذکورہ بالا مختصر توضیح سے واضح ہو گیا کہ یہ روایت درست نہیں اور اس کا مقصود و مطلوب وہ نہیں جو روافض لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہدایت نصیب فرمائے۔ (آمین!)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے