میدانِ جہاد میں کفار سے مدد لینے کا شرعی حکم صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

کیا میدان جہاد میں کفار ومشرکین سے مدد لینا جائز ہے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنگ بدر میں ایک مشرک آپ کی مدد کے لیے آیا تو آپ نے فرمایا:ارجع فإنا لا نستعين بمشرك”لوٹ جاؤ، میں مشرک سے ہرگز مدد نہیں لوں گا ۔“ کتاب وسنت کی رو سے واضح فرمائیں۔

جواب :

علماء و محدثین رحمہم اللہ کا اس پر اتفاق ہے کہ مسلمان جب کفار کی طرف سے مطمئن نہ ہوں اور یہ ڈر لاحق ہو کہ یہ لوگ ہمارے دشمنوں کے سامنے ہمارے راز افشا کر دیں گے اور ہماری قوت کو کمزور کر دیں گے تو ایسی صورت میں کفار ومشرکین سے استعانت نہیں لی جائے گی، کیونکہ ایسی حالت میں استعانت مقصود و مطلوب کے متضاد ہوگی۔ ایسے کفار جن پر اعتماد نہ ہو، انھیں بالخصوص لشکروں کی تیاری، خندقیں اور سرنگیں کھودنے ، قلعے اور بنگر تعمیر کرنے ، راستے ہموار کرنے اور اصلاح آلات حرب میں ساتھ ملانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے البته اگر کسی کافر و مشرک پر اعتماد ہو، وہ جنگ میں ہمارا حلیف ہو اور پھر کفار و اعدائے دین کے خلاف اس کی مدد کی حاجت ہو تو اس وقت اس سے تعاون لینا راجح موقف کی رو سے درست ہے۔ یہ تعاون خواہ آلات حرب کی صورت میں ہو، یا مال امتاع کی شکل میں، افرادی قوت ہو یا راستے بنانے کے لیے گائیڈز ہوں، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنے والوں پر مخفی نہیں کہ اللہ تعالی نے آپ کی مدد بہت سے مواقع پر کفار سے کروائی ہے، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:۔
① جب قریش نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا معاملہ بڑھتا ہوا دیکھا اور محسوس کیا کہ لوگ دن بدن محمد صلى الله عليه وسلم کے حلقہ بگوش ہو رہے ہیں تو انھوں نے آپ کا بائیکاٹ کیا اور آپ مجبورا شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے۔ اس وقت بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب نے آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی حمایت و نصرت میں وہ بھی شعب ابی طالب میں آپ کے ساتھ رہے۔ (زاد المعاد 3/30 سيرة ابن هشام 1/175 السيرة النبوية لابن كثير 2/43) نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے اس موقع پر یہ نہیں فرمایا کہ اے بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب! چلے جاؤ، مجھے تمھاری حمایت و نصرت کی کوئی حاجت نہیں۔
② پھر جب شعب ابی طالب کا حصار ختم ہوا، ابو طالب اور آپ کی اہلیہ خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا فوت ہوئیں تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر اس قوم کے بے وقوف لوگوں کی جانب سے آفات و بلیات کی شدت ہوئی اور انھوں نے آپ کو تکالیف و مصائب سے دو چار کیا تو آپ طائف کے کافروں کی طرف چلے گئے ، تاکہ وہ آپ کی نصرت و حمایت کریں اور آپ کو جگہ دیں ۔
(زاد المعاد 3/31)
③ پھر جب وہاں سے امداد نہ ملی اور مکہ کی جانب آپ مغموم و محزون ہو کر واپس پلٹے اور نخلہ میں چند دن قیام کیا تو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلى الله عليه وسلم سے کہا: ”آپ کفار مکہ کے ہاں کیسے داخل ہوں گے، انھوں نے تو آپ کو نکال دیا ہے؟“ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اے زید! جو حالات تم دیکھ رہے ہو اللہ تعالی ان سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ بنادے گا اپنے دین کی مدد کرے گا اور اپنے نبی کو غلبہ دے گا۔“ پھر آپ مکہ کے قریب ہوئے تو بنو خزاعہ قبیلے کے ایک کافر مطعم بن عدی کے پاس پیغام بھیجا اور کہا: ”کیا میں تیرے پڑوس میں داخل ہو سکتا ہوں؟ اس نے مثبت جواب دیا اور اپنے بیٹوں اور قوم کو آواز دے کر کہا: ”اسلحہ پہن لو اور بیت اللہ کے ارکان کے پاس جمع ہو جاؤ۔“ وہ خود زبان سے کہہ رہا تھا: ”میں نے محمد صلى الله عليه وسلم کو پناہ دی ہے !“ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے ، یہاں تک کہ جب مسجد حرام کے قریب پہنچے تو مطعم بن عدی اپنی سواری پر کھڑا ہو گیا۔ اس نے بلند آواز سے کہا: ”اے قریش کے لوگو! میں نے محمد (صلى الله عليه وسلم )کو پناہ دی ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی انھیں نقصان نہ پہنچائے ۔“ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رکن کے قریب ہوئے اس کا استلام کیا ، دو رکعت نماز ادا کی اور مطعم اور اس کے بیٹوں کے اسلحہ کی چھاؤں میں آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے ۔ (زاد المعاد 2/31-32 السيرة النبوية لابن كثير 2/153-154)
اس لیے آپ صلى الله عليه وسلم نے بدر کے قیدیوں کے بارے کہا تھا: ”اگر مطعم زندہ ہوتا اور وہ مجھے ان بد بو دار لوگوں کے لیے کہتا تو میں اس کے کہنے پر انھیں چھوڑ دیتا۔“
(بخاری 3139)
④ جب قریش نے اصحاب رسول صلى الله عليه وسلم کو سخت ایذا دی تو آپ نے انھیں حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تا کہ انھیں اس حکومت کی حمایت نصیب ہو جائے ، اس وقت نجاشی ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔
⑤ اس طرح آپ کا مشرک چچا ابو طالب، جس نے مرتے دم تک کلمہ طیبہ نہیں پڑھا تھا، اس کی حمات و نصرت آپ کو حاصل رہی۔
⑥ ہجرت مدینہ سے پہلے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ایام ہائے مصائب میں ابن الدغنہ کافر کی پناہ لی۔
(بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب هجرة النبي و أصحابه إلى المدينة 3905)
⑦ جب آپ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو عبد اللہ بن اریقط الدیلی، جو مشرک مگر راستوں کا بڑا ماہر تھا۔ اسے راستہ بتانے کے لیے اجرت پر رکھ لیا۔
(بخاری، کتاب مناقب الأنصار 3906)
اس میں بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جب کسی مشرک پر اعتماد ہو کہ وہ دھوکا نہیں دے گا تو اس سے تعاون کیا جا سکتا ہے، اسے راستے کا گائیڈ بنایا جا سکتا ہے۔ کفار نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے قتل کا منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔ اگر کفار سے راستے میں آمنا سامنا ہو جاتا اور وہ آپ کی مدد کرتا تو کیا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اسے کہتے کہ تم مشرک ہو، ہماری مدد نہ کرنا۔
⑧ اسی طرح رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہجرت مدینہ کے وقت سراقہ بن مالک سے بھی مدد لی، سراقہ بھی اس وقت مشرک تھا۔ وہ فتح مکہ کے دن اسلام لایا تھا۔ (الاصابة 35/3 اسد الغابة 1955) آپ نے سراقہ کو امان لکھ کر دی، وہ جسے بھی راستہ میں ملتا کہتا تم کفایت کیے گئے ہو، وہ ادھر نہیں ہیں اور جسے بھی ملا اسے واپس لوٹا دیتا۔ (بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب هجرة النبي صلى الله عليه وسلم و أصحابه إلى المدينة 3906-3905)
یہ چند ایک واقعات تو وہ تھے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مکی زندگی میں کفار سے حسب ضرورت تعاون لیا۔ مسلم (1817) اور مسند الدارمی (2538) کی حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے معلوم ہوتا ہے کہ بدر کے میدان میں آنے والے مشرک سے آپ نے کہا تھا: "واپس پلٹ جا! ہم مشرک سے ہرگز مدد نہیں لیں گے اس سے شبہ ہو سکتا ہے کہ مدینہ میں مشرک سے مدد لینا نا جائز ہو گیا تھا۔ ہم وہ دلائل ذکر کرتے ہیں جو مدنی زندگی میں مشرکین و کفار سے حسب حاجت تعاون پر دلالت کرتے ہیں:
① غزوہ حنین میں جانے کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے صفوان بن امیہ سے زر ہيں عاریتالي تھیں۔
(مسند احمد 3/404 ح 15376 – 6/465 ح 28188 ابو داود 3062 نسائی 410 مستدرك حاكم 2/47 ح 2301-2300)
غزوہ حنین، فتح مکہ کے بعد 8 ہجری میں ہوا، صفوان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، بلکہ وہ کافر ہونے کی حالت میں آپ کے ساتھ غزوہ طائف میں شریک ہوا۔ (اتحاف الكرام وغیرہ)
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے کفار کے ساتھ جو صلح حدیبیہ کی ، اس معاہدے کی شرائط میں سے ایک شق یہ تھی کہ جو شخص محمد (صلى الله عليه وسلم) کا حلیف بننا چاہے وہ ان کا حلیف بن جائے اور جو قریش کا حلیف بنا چاہے اسے بھی اجازت ہے۔ بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے ۔ (السیرۃ لابن هشام 318/3 السيرة لابن كثير 321/3) یہ صلح نبی اکرم صلى الله عليه وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان تھی۔ بنو خزاعہ کے مشرکین نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا حلیف بننا پسند کیا ، جس کا تقاضا تھا کہ وہ لڑائی میں مسلمانوں کے مددگار ہوں گے اور جب بنو خزاعہ پر ان کے دشمن حملہ کریں گے تو مسلمان ان کی مدد کریں گے۔ پھر ہوا یہ کہ بنو خزاعہ پر بنو بکر نے حملہ کر دیا اور قریشیوں نے ان کا ساتھ دیا تو نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے بدلہ لینے کے لیے ان پر چڑھائی کر دی اور یہی بات فتح مکہ کا سبب بن گئی۔ تفصیل کے لیے دیکھیں الرحیق المختوم میں غزوہ فتح مکہ (ص 236)۔ اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حسب ضرورت کفار سے معاہدہ کر کے اپنے دشمنوں کے ساتھ لڑا جا سکتا ہے۔
③ مولانا صفی الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”(احد کے میدان میں) مقتولین میں بنو ثعلبہ کا ایک یہودی تھا، اس نے اس وقت جب جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے، اپنی قوم سے کہا: ”اے جماعت یہود! خدا کی قسم ! تم جانتے ہو کہ محمد (صلى الله عليه وسلم) کی مدد تم پر فرض ہے۔“ یہود نے کہا: ”مگر آج سبت (سنيچر )کا دن ہے ۔ “ اس نے کہا: ”تمھارے لیے کوئی سبت نہیں۔“ پھر اس نے اپنی تلوار لی، ساز و سامان اٹھایا اور بولا: ”اگر میں مارا جاؤں تو میرا مال محمد کے لیے ہے، وہ اس میں جو چاہیں کریں گے ۔“ اس کے بعد میدان جنگ میں گیا اور لڑتے بھڑتے مارا گیا، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”مخيريق بہترین یہودی تھا۔“
(الرحيق المختوم ص 455)
اس کی موت کے بعد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس کے اموال کو قبضے میں لے لیا اور عام صدقات مدینہ اس مال سے ہوتے تھے۔
(مزید دیکھیں سیرت ابن هشام 26/2 سيرة ابن هشام مع روض الانف 375/2 مطبوعه بيروت البداية والنهاية 32/4 سيرة النبي لابن كثير اردو 59/2 طبقات ابن سعد 501/1 تاريخ مدينة دمشق لابن عساکر 229/10)
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی کافر مسلمانوں کے حق میں بہتر ہو تو اسے لڑائی میں حسب ضرورت شریک کیا جا سکتا ہے اور اس کے مال و متاع کو اسلام کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
④ ذی مخمر صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”تم رومیوں کے ساتھ امن والی صلح کرو گے، پھر تم اور وہ ایک دشمن سے لڑائی کرو گے، تم غالب آؤ گے اور صحیح سلامت غنیمت کا مال پاؤ گے، پھر تم واپس پلٹو گے، یہاں تک کہ نیلے والی چراگاہ کے پاس اترو گے تو عیسائیوں میں سے ایک آدمی صلیب اٹھا کر کہے گا: ”صلیب غالب آگئی۔“ اس پر مسلمانوں میں سے ایک آدمی غضبناک ہو کر اسے توڑ ڈالے گا۔ اس وقت روم کے عیسائی غدر کریں گے، یعنی صلح والا معاہدہ توڑ ڈالیں گے، جنگ کے لیے جمع ہوں گے اور 80 جھنڈوں تلے آئیں گے۔ ہر جھنڈے کے ساتھ دس ہزار آدمی ہوں گے اور اللہ مسلمانوں کی جماعت کو شہادت کے ساتھ عزت عطا کرے گا۔“
(مسند احمد 4/91 ح 1990 – 6/371-372 ح 33544 – 5/409 ح 23873 ابو داود 4292 اور اس معنی کی ایک حدیث صحیح بخاری 2924 میں بھی موجود ہے)
اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین و کفار سے صلح کر کے مشترکہ دشمن کے ساتھ لڑا جا سکتا ہے۔
⑤ اللہ تبارک و تعالی جب چاہے اپنے دین کی مدد کسی فاسق و فاجر، عیسائی کافر سے لے لے، جیسا کہ صحیح بخاری (3062) میں ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک آدمی کے بارے کہا۔ ”یہ جہنمی ہے۔“ پھر جنگ کے وقت وہ بڑی شدت سے لڑا اور زخمی ہو گیا۔ آپ سے کہا گیا: ”یا رسول اللہ ! جس کے بارے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے جہنمی ہونے کا کہا تھا وہ آج بڑی شدت سے لڑا اور مرگیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے پھر فرمایا وہ جہنم میں گیا۔ اب قریب تھا کہ بعض لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہوتے کہ اس دوران کسی نے کہا: ”وہ ابھی مرا نہیں، بلکہ شدید زخمی ہے ۔“ بالآخر رات کے وقت وہ زخموں پر صبر نہ کر سکا اور اپنے آپ کو قتل کر بیٹھا۔ جب نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ نے فرمایا:الله أكبر أشهد أني عبد الله ورسوله ”الله اکبر! میں شہادت دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“ پھر آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انھوں نے لوگوں میں اعلان کیا: ”مسلمان کے سوا کوئی بھی جنت میں داخل نہیں ہو گا اور بلاشبہ اللہ اس دین کی مدد فاجر آدمی سے بھی لے لیتا ہے ۔“ اس مفہوم کی کئی ایک احادیث مجمع (الزوائد کتاب الجهاد، باب فيمن يؤيد بهم الإسلام من الأشرار 5/548 تا 550) میں موجود ہیں۔
⑥ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اگر میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ ”بے شک اللہ اس دین کی مدد فرات کے کنارے ربیعہ قبیلے کے نصاری سے لے لے گا“ تو میں کوئی اعرابی باقی نہ چھوڑتا ، وہ یا تو مسلمان ہو جاتے یا میں انھیں قتل کر دیتا ۔“
(مسند بزار 1723 مجمع الزوائد 6/95 ابو يعلى 236)
مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ بوقت ضرورت اگر مسلمان کو کافر سے مدد حاصل کرنی پڑے تو مدد لی جاسکتی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے (کتاب الأم 4/276) میں بھی تقریباً یہی موقف اختیار کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے (التعليقات الرضية على الروضة الندية 3/443 )میں اسے جید قرار دیا ہے۔ (اسی طرح الروضة الندية 2/442-443 مع التعليقات المرضية السيل الجرار 3/717 بهتی 9/37 حنفی فقہاء کے موقف کے لیے ملاحظه هو رد المحتار لابن عابدین شامی 4/147-148 شرح السير الكبير للسرخی 4/1516 اور حنبلی مذہب کے لیے المغني لابن قدامة 9/656 اس مسئلہ کی مفصل بحث کے لیے صد عدوان الملحدين للشيخ ربيع بن هادي المدخلی) کا مطالعہ مفید ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ یہ فرماتے ہیں۔
وقال الشافعي وآخرون إن كان الكافر حسن الر أى فى المسلمين و دعت الحاجة إلى الاستعانة به استعين به وإلا فيكره و حمل الحديثين على هذين الحاليي وإذا حضر الكافر بالإذن رضخ له ولا يسهم له، هذا مذهب مالك والشافعي وأبي حنيفة والحمهور
(شرح صحيح مسلم للنووي 12/166 ط دار الكتب العلمية، بيروت)
”امام شافعی اور دیگر فقہاء و محدثین نے کہا ہے کہ اگر کافر مسلمانوں کے بارے اچھی رائے رکھنے والا ہو اور اس کی مدد کی حاجت ہو تو اس سے مدد کی جائے گی، وگرنہ مکروہ ہوگی۔ دونوں قسم کی احادیث کو ان حالتوں پر محمول کیا گیا ہے ۔ جب کافر اجازت کے ساتھ میدان جنگ میں حاضر ہو تو اسے غنیمت کے مال سے کچھ عطیہ دیا جائے گا۔ با قاعدہ اس کا حصہ نہیں نکالا جائے گا، یہ مذہب امام مالک، امام شافعی ، امام ابو حنیفہ اور جمہور محدثین کا ہے۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے