سوال:
کیا میت کے گھر بلند آواز سے قرآن خوانی کرنا یا ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے قرآن کی تلاوت سنانا جائز ہے؟ بعض ممالک میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ میت کے انتقال کے بعد اس کے گھر میں اجتماعی طور پر یا ریکارڈ شدہ تلاوت کو بلند آواز سے سنایا جاتا ہے۔ اس عمل کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ عمل بدعت ہے کیونکہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں اس کا کوئی ثبوت موجود ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:
قرآن سے تسلی حاصل کرنا
◈ قرآن مجید یقیناً غم و فکر کو دور کرتا ہے، لیکن اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان خود تلاوت کرے۔
◈ لاؤڈ اسپیکر یا بلند آواز سے قرآن پڑھنے کا طریقہ درست نہیں کیونکہ:
➊ اس سے ہر شخص سننے پر مجبور ہوتا ہے، چاہے وہ لہو و لعب میں مشغول ہو یا موسیقی کا دلدادہ۔
➋ اس صورت میں گویا وہ ایک ہی وقت میں قرآن اور موسیقی دونوں سن رہے ہوتے ہیں۔
➌ یہ عمل قرآن کے ساتھ بے ادبی اور استہزاء کے مترادف بن جاتا ہے۔
میت کے گھر تعزیت کے لیے اجتماع کا حکم
◈ میت کے اہل خانہ کے پاس تعزیت کے لیے لوگوں کا اجتماع بھی ایسی ہی بدعت ہے جس کا نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وجود تھا اور نہ صحابہ کرام کے دور میں۔
◈ بعض علماء نے واضح طور پر اس اجتماع کو بدعت قرار دیا ہے۔
اہلِ میت کو کیا کرنا چاہیے؟
◈ اہل میت کو چاہیے کہ تعزیت کے لیے آنے والوں کے استقبال کے لیے اجتماعی طور پر نہ بیٹھیں۔
◈ بہتر یہ ہے کہ وہ دروازے بند رکھیں۔
◈ اگر کوئی شخص اتفاقاً بازار میں مل جائے یا بغیر کسی اہتمام کے تعزیت کے لیے آجائے تو کوئی حرج نہیں۔
◈ البتہ ہر آنے جانے والے کے لیے دروازے کھلے رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رائج نہیں تھا۔
نوحہ، ماتم اور اس کے متعلق وعید
◈ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نوحہ کرنے، ماتم کرنے، اور اس کے لیے کھانے مخصوص کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے۔
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے اور سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔
◈ ایک حدیث مبارک میں ہے:
«اَلنَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ جَرَبٍ»
(صحيح مسلم، الجنائز، باب التشديد فی النياحة، ح: ۹۳۴)
ترجمہ:
"نوحہ کرنے والی عورت اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اسے گندھک (یا تارکول) کا کرتا اور خارش والی اوڑھنی پہنا کر کھڑا کیا جائے گا۔”
بدعات سے اجتناب کی نصیحت
◈ میں اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ:
➊ ایسی تمام بدعات کو ترک کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی بہتر اور باعث خیر ہے۔
➋ یہ طریقے نہ صرف انہیں اللہ سے دور کرتے ہیں بلکہ میت کے لیے بھی اذیت کا باعث بنتے ہیں۔
میت پر رونے اور نوحہ کے اثرات
◈ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"میت کو اس کے گھر والوں کے رونے اور نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔”
◈ اس کا مطلب یہ ہے کہ میت کو تکلیف ہوتی ہے، سزا کی نوعیت نہیں بلکہ اذیت اور غم مراد ہے۔
◈ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزرَ أُخرى﴾
(سورة الأنعام، آیت: 164)
ترجمہ:
"کوئی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔”
عذاب کے مفہوم کی وضاحت
◈ عذاب کا مطلب ہر صورت سزا نہیں ہوتا۔
◈ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اَلسَّفَرُ قِطْعَةٌ مِنْ الْعَذَابِ»
(صحيح البخاري، ح: ۱۸۰۴، وصحيح مسلم، ح: ۱۹۲۷)
ترجمہ:
"سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔”
◈ حالانکہ سفر کوئی سزا نہیں بلکہ اس میں مشقت و تکلیف ہوتی ہے، اس لیے اسے عذاب کہا گیا ہے۔
◈ عوام الناس بھی دل پر گزرنے والے غم و پریشانی کو "ضمیر کا عذاب” کہتے ہیں۔
اختتامی نصیحت
◈ خلاصہ یہ ہے کہ میرے بھائیو!
➊ ایسی عادتیں اور رسومات ترک کر دو جو تمہیں اللہ تعالیٰ سے دور کرتی ہیں۔
➋ یہ اعمال نہ صرف دنیاوی نقصان کا سبب بنتے ہیں بلکہ تمہارے مرحوم عزیزوں کے لیے اذیت کا باعث بھی بنتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب