سوال:
میت کے ناخن تراشنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اگر کوئی شخص کسی شرعی عذر کی بنا پر یا سستی و کاہلی کی وجہ سے ناخن نہ تراش سکا اور اسے موت آ گئی، تو زندہ لوگ اس کے ناخن نہیں تراشیں گے، کیونکہ اس عمل کی کوئی شرعی دلیل نہیں، نیز یہ عمل زندہ لوگوں کے لیے باعث ضرر ہے، جبکہ میت کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
❀ محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے بارے میں ہے:
إنه كان يكره أن يؤخذ من عانة أو ظفر الميت.
”وہ میت کے زیر ناف بال مونڈنا اور اس کے ناخن تراشنا مکروہ سمجھتے تھے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 245/3، وسنده صحيح)
اس کے خلاف اسلاف امت سے کچھ ثابت نہیں۔
ایک روایت میں ہے کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے میت کو غسل دیا اور استرا منگوایا۔
(مصنف ابن أبي شيبة: 246/3)
اس کی سند مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے۔
❀ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا:
تقلم أظفار الميت.
”میت کے ناخن اتار دیے جائیں گے۔“
(مصنف ابن أبي شيبة: 246/3)
امام شعبہ بن حجاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے یہ بات حماد رحمہ اللہ کے سامنے ذکر کی، تو انہوں نے اس کا رد کیا اور فرمایا:
أرأيت إن كان أقلف، أيختتن؟
”بھلا بتائیے کہ اگر وہ مختون نہ ہو، تو کیا اس کا ختنہ بھی کیا جائے گا؟“
(مصنف ابن أبي شيبة: 246/3، وسنده صحيح)
یہ سارے کام زندگی سے متعلق ہیں۔ اگر اس نے زندگی میں سستی و کاہلی کی ہے، تو اس کا گناہ لکھ دیا گیا ہے اور اگر کسی شرعی عذر کی بنا پر ایسا نہ کر سکا، تو اسے معاف کر دیا جائے گا۔ اب موت کے بعد کی صفائی پر کوئی جزا و سزا نہیں۔
❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا، تو فرمایا:
من الناس من يقول ذلك، ومنهم من يقول: إذا كان أقلف أيختتن؟، يعني: لا يفعل.
”بعض لوگ کہتے ہیں: میت کے ناخن کاٹ دیے جائیں، جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر وہ مختون ہو، تو کیا اس کا ختنہ کیا جائے گا؟ یعنی ایسا کرنا درست نہیں۔“
(مسائل الإمام أحمد لأبي داؤد: 246/3)
جب غیر مختون کا موت کے بعد ختنہ کرنے کا کوئی بھی قائل نہیں، تو ناخن اور بال کاٹنا بھی جائز نہیں۔
ثابت ہوا کہ میت کے ناخن کاٹنا درست نہیں۔ یہ مُردے کے لیے بے فائدہ اور زندوں کے لیے تکلیف دہ عمل ہے۔