میت کے سلسلے میں چند بدعات اور ان کا رد
سوال:
بعض لوگ میت کو غسل دینے کے بعد یا میت کو گھر سے جنازہ گاہ (جہاں میت کی نمازِ جنازہ پڑھی جاتی ہے) کی طرف لے جانے کے بعد حلوہ تقسیم کرتے ہیں، جسے "قبر کا توشہ” کہا جاتا ہے۔ اس "توشہ” (حلوے) کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ دلیل سے بیان کریں۔ (ایک سائل)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قبر کے توشہ (حلوے) کی شرعی حیثیت:
◈ قرآن و حدیث میں اس عمل (حلوہ تقسیم کرنے) کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
◈ سلف صالحین سے بھی اس عمل کی کوئی روایت نہیں ملتی۔
◈ لہٰذا یہ عمل بدعت ہے۔
صحیح حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(( وكل بدعة ضلالة ))
اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
(صحیح مسلم: 867/2005)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول:
◈ مشہور صحابی، متبع سنت، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"كل بدعة ضلالة وان راها الناس حسنا”
"ہر بدعت گمراہی ہے اگرچہ لوگ اسے اچھا ہی کیوں نہ سمجھیں۔”
(السنۃ للمروزی: 86، وسندہ صحیح)
اہلِ میت کے ساتھ شرعی سلوک:
◈ اہلِ میت غم و پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔
◈ ایسے وقت میں اردگرد کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ کھانا تیار کر کے اہلِ میت کو کھلائیں۔
ثبوت حدیث سے:
جب سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جہاد فی سبیل اللہ میں شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اصنعوا لآل جعفر طعاما، فإنه قد أتاهم أمر يشغلهم))
"آل جعفر (جعفر رضی اللہ عنہ کے گھروالوں) کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایسی بات آ گئی ہے جس نے انھیں مشغول کر دیا ہے۔”
(سنن ابی داؤد: 3132، مسند الحمیدی بتحقیقی: 537، وسندہ حسن، وصححہ الترمذی: 998، والحاکم 1/372، والذہبی)
علماء کی آراء:
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ:
◈ کتاب: جلاء القلوب (ص 77) سے نقل کرتے ہیں:
◈ اہلِ میت کی طرف سے کھانے کی دعوت قبول کرنا بدعت ہے۔
◈ دیکھئے: احکام الجنائز و بدعہا (ص 256، فقرہ: 113)
قاضی شیخ احمد بن حجر البوطامی (دوحہ، قطر):
◈ تعزیت و سوگ کے لیے مجالس منعقد کرنا اور آنے والوں کے لیے تین دن تک کھانے کا انتظام کرنا:
◈ بدعت ہے۔
◈ بعض لوگ یہ عمل ہفتے بھر جاری رکھتے ہیں اور اس میں:
✿ بہت سی فضول خرچیاں کی جاتی ہیں
✿ جانور ذبح کیے جاتے ہیں
✿ قسم قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں
◈ اس عمل میں:
✿ یتیموں کے اموال تک خرچ کیے جاتے ہیں
✿ جو سراسر ظلم اور حرام ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِ نَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ﴾
"جو لوگ یتیموں کا مال ظلماً کھا جاتے ہیں بے شک وہ لوگ اپنی پیٹ میں جہنم کی آگ کھا رہے ہیں۔”
(النساء: 10)
بدعت حسنہ کہنے والوں کا بھی اعتراف:
◈ وہ متاخرین علماء جنہوں نے بعض بدعات کو "بدعت حسنہ” کہا:
◈ وہ بھی اس عمل کو "بدعت ضالہ” قرار دیتے ہیں۔
◈ اس کی وجہ یہ ہے کہ:
✿ یہ عمل سنت کے خلاف ہے۔
✿ سنت یہ ہے کہ اہلِ میت کے لیے پڑوسی کھانا تیار کریں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے:
((اصنعوا لآل جعفر طعاما))
"آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو۔”
(عام کتب حدیث)
اس عمل کے مفاسد:
➊ اسراف و فضول خرچی۔
➋ باطل طریقے سے مال کھانے کا ذریعہ:
✿ کیونکہ اہلِ میت کبھی فقراء یا یتیم بچے ہوتے ہیں۔
➌ لوگوں کے ڈر سے قرض لے کر بھی یہ عمل کیا جاتا ہے:
✿ جو انتہائی قبیح اور شنیع عمل ہے۔
ماخذ: بدعات اور ان کا شرعی پوسٹ مارٹم، ص 675-676
خلاصہ:
◈ مسئولہ بالا عمل یعنی قبر کا توشہ (حلوہ تقسیم کرنا):
✿ شرعاً جائز نہیں
✿ بلکہ بدعتِ سیئہ ہے۔
تنبیہ:
فتاویٰ سمرقندی کی ایک روایت:
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"اے مومنو! قرآن کو مردوں کی نجات کا وسیلہ بناؤ، تو حلقہ بنالو اور کہو: اے اللہ! اس میت کو قرآن مجید کی حرمت سے بخش دے۔الخ”
◈ یہ روایت مردود ہے کیونکہ:
✿ اس میں راوی عباس بن سفیان مجہول ہے۔
✿ اگر اسے کتاب "الثقات” لابن حبان والا راوی مانا جائے:
◈ تب بھی ابو اللیث سمرقندی کی اس سے ملاقات ثابت نہیں۔
✿ اگر یہ کوئی دوسرا شخص ہے تو اسماعیل بن ابراہیم عرف سے ملاقات کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔
حوالہ: (26 نومبر 2007)، (الحدیث: 45)
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب