میت کی طرف سے نمازوں کی قضا دینا کیسا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

میت کی طرف سے نمازوں کی قضا دینا کیسا ہے؟

جواب:

کسی زندہ یا فوت شدہ کی طرف سے نمازوں کی قضا د بینا جائز نہیں ، یہ بدعت ہے، کیونکہ اس کی اصل کتاب وسنت میں نہیں ہے، بلکہ اس کے خلاف دلائل موجود ہیں۔
❀ سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لا يصلي أحد عن أحد، ولا يصوم أحد عن أحد ولكن يطعم عنه مكان كل يوم مدا من حنطة .
کوئی کسی کی طرف سے نماز پڑھے، نہ روزہ رکھے، بلکہ ( روزے کی جگہ ) اس کی طرف سے مستحقین کو ہر روز گندم کا ایک مدکھلائے ۔“
(السنن الكبرى للنسائي : 2918 ، وسنده صحيح)
اس پر اجماع ہے کہ کوئی کسی کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا۔
❀ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
قد أجمعوا أن لا تقضى الصلاة عن حي ولا ميت .
اہل علم کا اجماع ہے کہ کسی زندہ یا فوت شدہ کی طرف سے نمازوں کی قضا نہیں دی جا سکتی ۔“
(167/4 : الاستذكار)
❀ علامہ ابن العطار رحمہ الله ( 724ھ) فرماتے ہیں:
أجمعوا على أنه لا يصلى عن الميت صلاة فائتة .
”اہل علم کا اجماع ہے کہ میت کی طرف سے اس کی فوت شدہ نماز نہیں پڑھی جاسکتی ۔“
(العدة في شرح العمدة : 879/2)
❀ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ (855ھ) فرماتے ہیں:
قد أجمعوا أنه لا يصلي أحد عن أحد .
مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ کوئی کسی کی طرف سے نماز نہیں پڑھ سکتا ۔
(عمدة القاري : 125/9)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے