میت کی طرف سے قربانی کا حکم
سوال:
کیا والدین یا دیگر مرحومین کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے؟ جیسے کہ مشہور ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک قربانی اپنی طرف سے اور ایک اپنی امت کی طرف سے کیا کرتے تھے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
راقم الحروف نے اس موضوع پر مفصل تحقیق ماہنامہ شہادت میں پیش کی ہے۔ یہاں اس کا خلاصہ درج کیا جا رہا ہے:
میت کی طرف سے قربانی کے جواز کا معاملہ
◈ میت کی طرف سے قربانی کے جواز کے حوالے سے جو حدیث بیان کی جاتی ہے، وہ ضعیف (کمزور) ہے۔
◈ تاہم، صدقہ کے بارے میں جو عمومی دلائل احادیث و آثار میں موجود ہیں، ان کی روشنی میں میت کی طرف سے قربانی جائز ہے۔
◈ ایسی صورت میں قربانی کا سارا گوشت صدقہ کر دینا چاہیے۔
شیخ الاسلام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کا قول:
"أحب إلي أن يتصدق عنه ولا يضحى عنه، وإن ضحى فلا يأكل منها شيئاً ويتصدق بها كلها”
میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے اور قربانی نہ کی جائے، تاہم اگر کوئی قربانی کرے تو اس میں سے کچھ بھی نہ کھائے بلکہ سارا گوشت صدقہ کر دے۔
(سنن ترمذی، ابواب الأضاحی، باب ما جاء في الأضحية عن الميت، حدیث: 1495)
نتیجہ
میت کی طرف سے قربانی اگرچہ کسی ضعیف حدیث کی بنیاد پر مشروع نہیں، لیکن صدقہ کے عام دلائل کی وجہ سے اس کی اجازت موجود ہے۔ تاہم احتیاط اسی میں ہے کہ اگر قربانی کی جائے تو گوشت کو خود استعمال کرنے کے بجائے مکمل طور پر صدقہ کر دیا جائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب