میت کی طرف سے قربانی کا مسئلہ اور وصیت و غیر وصیت کی وضاحت
سوال:
ہمارے علاقے میں میت کی طرف سے قربانی کرنے کے مسئلے پر کافی اختلاف اور بحث پائی جاتی ہے۔ اس مسئلے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ نیز، وصیت اور غیر وصیت کے درمیان فرق کو بھی واضح کریں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میں نے اس موضوع پر کافی تحقیق اور جستجو کی، لیکن قرآن و حدیث میں اس بارے میں کوئی واضح اور صریح نص مجھے دستیاب نہیں ہوئی۔
◈ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی وصیت سے متعلق جو روایت ہے، وہ ضعیف (کمزور) ہے، لہٰذا اس پر شرعی حکم کی بنیاد رکھنا درست نہیں۔
◈ اس موضوع پر جو دلائل دیے جاتے ہیں، وہ دور کے استدلال و استنباط پر مبنی ہیں اور براہ راست نصوص سے ثابت نہیں۔
زندہ کی طرف سے قربانی کا ثبوت:
◈ یہ بات ثابت ہے کہ زندہ انسان کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے۔
اصولی نقطۂ نظر:
اگر یہ اصول ثابت ہو جائے کہ:
"جو عمل زندہ کی طرف سے کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ صدقہ دینا یا قرض دینا، وہی عمل میت کی طرف سے بھی کیا جا سکتا ہے”
تو پھر اس اصول کی بنیاد پر میت کی طرف سے قربانی کرنے کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
◈ لیکن ابھی تک میرے دل کو اس اصول پر شرح صدر حاصل نہیں ہوا۔
◈ مزید غور و فکر اور تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ کسی مضبوط شرعی دلیل پر عمل کیا جا سکے۔
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب