میت کی طرف سے قربانی

تحریر: عبد القادر عبد الواحد، کراچی (پی ڈی ایف لنک)

سوال:

کیا فوت شدگان کی طرف سے قربانی جائز ہے؟ (ایک سائل)

الجواب:

سنن ابی داود ( کتاب الضحايا باب الاضحیۃ عن الميت ح۲۷۹۰) اور جامع ترمزی ( ابواب الاضاحی باب ماجاء فی الاضحیة عن المیت ح ۱۴۹۵) میں (شریک بن عبد الله القاضی عن ابی الحسناء عن الحکم عن حنش) کی سند سے مروی ہے کہ میں نے علیؓ کو دیکھا، آپ دو مینڈوں کی قربانی کرتے تھے۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت کی تھی کہ میں آپ کی طرف سے قربانی کروں، اس لئے میں آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں ۔ [انتھی]

اس کی سند ضعیف ہے ۔

شریک القاضی مدلس تھے اور یہ روایت ان سے ہے ۔

ابوالحسناء مجہول راوی ہے۔ (دیکھئے تقریب التہذیب: ۸۰۵۳، اور آثار السن ص ۳۹۹ تحت ح ۷۸۴)

حاکم اور ذہبی دونوں کو وہم ہوا ہے۔

انھوں نے اسے الحسن بن الحکم سمجھ کر حدیث کو صحیح کہہ دیا ہے۔

جبکہ ابن الحکم دوسرے راوی تھے اور ابوالحسناء مذکور دوسرا راوی ہے۔

حکم بن عتیبہ بھی مدلس تھے اور (بشرط صحت) عن سے روایت کر رہے ہیں ۔

امام ترمذی نے اس روایت کو ’’غریب “ لکھا ہے۔

جب یہ ثابت ہو گیا کہ حدیث مذکور ضعیف ہے تو معلوم ہوا کہ فوت شدگان کی طرف سے قربانی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص ضرور بالضرور قربانی کرنا ہی چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے صدقہ قرار دے کر سارا گوشت مساکین و فقراء میں تقسیم کر دے کیونکہ میت کی طرف سے صدقہ کرنا جائز ہے جس کے بے شمار دلائل ہیں۔ (واللہ اعلم)
(شہادت ، مارچ ۲۰۰۱)

سوال:

کیا میت کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے ؟
اس سلسلے میں مسلم شریف کی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ آپ نے اپنے اہل اور آل اور امت محمدیہ کی طرف سے قربانی کی۔ اور اس کے علاوہ سید ناعلیؓ ، کا عمل ظاہر کیا جاتا ہے کہ آپ نے دو دنبے ذبح کیے ۔ صحابی یا تابعی کے پوچھنے پر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ایک میری طرف سے اور دوسرا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف سے ہے ۔ اس حدیث سے میت کی طرف سے قربانی کا جواز نکالنا کیسا ہے؟ اس کے علاوہ خطبہ حجتہ الوداع سے اقتباس بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ میری اگلی اور پچھلی امت کی طرف سے یہ قربانی پیش کر رہا ہوں۔ کیا حجتہ الوداع میں ایسے اقتباس ہیں؟ اب مندرجہ بالا باتوں میں سائل کو کون سی راہ اختیار کرنی چاہیے؟ کیا آپ صلى الله عليه وسلم نے امت مسلمہ کو اس عمل کو جاری رکھنے کا حکم دیا ؟ کیا صحابہ کی جماعت کا یہ عمل رہا ہے؟ کیا یہ آپ صلى الله عليه وسلم کے لیے خاص ہے یا ہم بھی اس قربانی سے مستفید ہو سکتے ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیجئے؟ جزاکم اللہ خیرأ

الجواب:

صحیح مسلم والی حدیث سے زندہ مراد ہیں پھر صحیح مسلم کے لفظ ہیں:
﴿وَأَخَذَ الْكَيْشَ فَأَضْجَعَهُ ، ثُمَّ ذَبَحَهُ ، ثُمَّ قَالَ: بِسْمِ اللهِ اللَّهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ ، ثُمَّ ضَحَى بِهِ ﴾
[اور آپ صلى الله عليه وسلم نے مینڈھا پکڑا اور اس کو لٹایا پھر اس کو ذبح کیا پھر فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ قبول فرما محمد صلى الله عليه وسلم کی طرف سے اور آل محمد صلى الله عليه وسلم کی طرف سے اور امت محمدیہ صلى الله عليه وسلم کی طرف سے پھر قربانی کی ساتھ اس کے ] اس میں یہ نہیں آیا کہ آپ نے اپنے اہل اور آل اور امت محمدیہ کی طرف سے قربانی کی اس میں تو ذبیح کے بعد اپنی ، آل محمد اور امت محمد صلى الله عليه وسلم کی طرف سے قبولیت کی دعا کا تذکرہ ہے۔

علیؓ کی اپنی اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف سے دو دنبے قربانی کرنے والی روایات ثابت نہیں کیونکہ اس کی سند میں شریک نامی راوی کثرت خطا اور سوء حفظ کے باعث ضعیف ہیں اور ان کے شیخ ابوالحسناء مجہول ہیں۔

رہا خطبہ حجۃ الوداع کا اقتباس ’’آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ میری اگلی اور پچھلی امت کی طرف سے یہ قربانی پیش کر رہا ہوں‘‘ تو وہ مجھے ابھی تک نہیں ملا۔

رہے لفظ ’’اللهُم مِنكَ وَلَكَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ ‘‘، الخ اور لفظ ’’اللَّهُمَّ هَذَا عَنِّى وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحٌ مِنْ امتی‘‘ تو وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے ثابت نہیں۔

آپ کے باقی تین چار سوال میت کی طرف سے قربانی کے ثبوت پر مبنی ہیں تو جب ثبوت کا حال معلوم ہو گیا تو یہ تین چار سوال خود بخود ختم ہو گئے۔ (واللہ اعلم) (١٤١٩/١/١٤هـ)

سوال:

میت کی طرف سے وارث قربانی کر سکتے ہیں یا نہیں جو کہتے ہیں کر سکتے ہیں تو دلیل دیتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے کی ہے دوسری دلیل ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے امت کی طرف سے بھی کی ہے۔
جو کہتے ہیں کہ نہیں کر سکتے تو وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا جب انسان مر جائے تو اس کے عمل منقطع ہو جاتے ہیں ان احادیث کی تطبیق تحریر فرما دیں؟ شبیر احمد خطیب نگری بالا ٤ ذو القعده ١٤١٦هـ

الجواب:

زندہ کی طرف سے قربانی کر سکتے ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حج کے موقع پر اپنی بیویوں کی طرف سے گائے ذبح فرمائی تھی میت کی طرف سے قربانی کرنے کے متعلق مجھے کوئی خاص صحیح حدیث معلوم نہیں۔ علیؓ کی روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں شریک کثیر الغلط ہیں اور ان کے شیخ ابوالحسناء مجہول میں حدیث ﴿إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثلاثة ﴾(كتاب العلم – مشكوة – جلد اول – پهلی فصل)
[جب آدمی مر جاتا ہے اس کے عمل کا ثواب موقوف ہو جاتا ہے مگر تین عملوں کا ثواب باقی رہتا ہے ] میت کی طرف سے اس کے وارثوں کے قربانی نہ کرنے یا نہ ہونے پر استدلال درست نہیں کیونکہ اس حدیث میں فوت ہونے والے کے اپنے عمل کے منقطع ہونے کا ذکر ہے۔ (١٤١٦/١٢/٥هـ)

سوال:

ہمارے علاقہ میں میت کی طرف سے قربانی کے مسئلہ پر کافی لے دے ہو رہی ہے اس مسئلہ کی شرعی حیثیت واضح کریں اور وصیت غیر وصیت کا فرق بھی واضح کریں؟ جزاک اللہ

الجواب:

کافی جستجو کی مگر اس موضوع پر کوئی واضح نص صریح قرآن وحدیث سے مجھے نہیں ملی علی بن ابی طالبؓ کی وصیت والی روایت کمزور ہے باقی دور کے استدلال و استنباط ہیں البتہ زندہ کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے اگر یہ قاعدہ ثابت ہو جائے کہ جو چیز زندہ کی طرف سے کی جاسکتی ہے مثلاً صدقہ اور قرض وہ میت کی طرف سے بھی کی جا سکتی ہے تو پھر بات بن سکتی ہے مگر اس قاعدہ کے متعلق بھی مجھے ابھی انشراح صدر نہیں مزید غور فرمالیں۔ (واللہ اعلم )
(١٤١٤/١١/٢٧هـ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل