کسی انسان کا مرنے کے بعد اپنی طرف سے قرآن خوانی کروانے کی وصیت کرنا
میت کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس کی طرف سے نیت کر کے قرآن خوانی کے لیے لوگوں کو اجرت پر منگوانا بدعت ہے، لہٰذا یہ جائز ہے نہ درست، کیونکہ فرمان نبوی ہے:
”جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا دین نہیں تو وہ مردود ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 60]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا کام پیدا کیا جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2697 صحيح مسلم 1718/17]
اس میت نے قاری کو اجرت کے طور پر دینے کی جو وصیت کی ہے، اسے اس کی طرف سے نیکی کے کاموں میں صرف کر دیا جائے، جس کی اولاد فقیر ہو ان پر ان کی ضرورت کے مطابق خرچ کر دیا جائے، اسی طرح جو قرآن کریم کے طلبا اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچے ہیں، ان میں جو ضرورت مند ہیں، ان پر خرچ کر دیا جائے کیونکہ وہ اس مالی معاونت کے مستحق ہیں، اسی طرح باقی اچھائی کے کام ہیں۔
[اللجنة الدائمة: 1207]