میت کو ثواب پہنچانے کے لیے قرآن خوانی کا حکم اور شرعی دلائل
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ صفحہ نمبر: 392

سوال

میت کو ثواب پہنچانے کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کروانا کیسا ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

میت کو ثواب پہنچانے کے بارے میں (چاہے وہ والدین ہوں یا کوئی اجنبی شخص) علماء کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اور دیگر علماء کا موقف یہ ہے کہ میت کو ثواب پہنچایا جاسکتا ہے اور یہ عمل میت کا کوئی قریبی عزیز کرے یا کوئی اجنبی، دونوں صورتوں میں ممکن ہے۔ جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب کتاب الروح سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔

موجودہ اہلحدیث علماء میں سے بھی کچھ اس رائے کے قائل ہیں۔ تاہم راقم الحروف (احقر العباد) کی سمجھ کے مطابق دلائل یہ بتاتے ہیں کہ اگر میت والدین میں سے ہو تو ان کے لیے ایصالِ ثواب جائز ہے۔ کیونکہ صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ ﷺ سے والدہ کے لیے صدقہ کرنے کے بارے میں سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

ہاں، اس کا اجر اسے ملے گا۔

یہ بات قرآن کریم کی اس آیت:

﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَـٰنِ إِلَّا مَا سَعَىٰ﴾ (النجم: 39)
’’ہر انسان کے لیے صرف وہی کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔‘‘

کے خلاف نہیں جاتی، کیونکہ اولاد خود والدین کی کمائی ہے۔ اس لیے اولاد کے اعمال کا اجر والدین کو بھی ملتا ہے۔ گویا اولاد کا عمل دراصل والدین ہی کا عمل ہے، کیونکہ وہ انہی کی محنت سے دنیا میں آئی ہے۔

روزوں کی قضا اور "ولی” کا ذکر

صحیح احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص فوت ہوجائے اور اس کے ذمہ روزے کی قضا باقی ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزہ رکھے۔ ان احادیث میں لفظ ولی عام معنوں میں آیا ہے۔ اگرچہ اس سے کسی دوسرے قریبی رشتہ دار کے لیے ایصالِ ثواب کے جواز پر دلیل لائی جاسکتی ہے، لیکن یہ دلیل کافی حد تک کھینچ تان پر مبنی ہوگی۔ البتہ اس سے آگے بڑھ کر بالکل اجنبی کے لیے ایصالِ ثواب کے جواز پر استدلال کرنا محض ضد اور زبردستی ہے۔

قیاس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے، لیکن جو لوگ قیاس کے منکر ہیں، ان کے لیے اس میں کوئی دلیل نہیں۔

خیرالقرون کا دور اور ایصالِ ثواب

خیرالقرون (صحابہ، تابعین، تبع تابعین) کے زمانے میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں کہ کسی اجنبی کے لیے ایصالِ ثواب کیا گیا ہو یا اس مقصد کے لیے قرآن خوانی کروائی گئی ہو۔ البتہ اولاد کی طرف سے والدین کے لیے صدقہ کرنے کی مثالیں ضرور موجود ہیں۔

لہٰذا بہتر اور محتاط یہی ہے کہ اجنبی کے لیے ایصالِ ثواب سے اجتناب کیا جائے اور ان کے لیے صرف دعا و مغفرت اور استغفار پر اکتفا کیا جائے، یعنی جس قدر شریعت میں اس کی اجازت آئی ہے اس سے آگے نہ بڑھا جائے۔

جواز کے قائلین کے نزدیک شرائط

جو لوگ اجنبی کے لیے بھی ایصالِ ثواب کے جواز کے قائل ہیں، ان کے نزدیک بھی چند شرائط لازم ہیں:

◈ کسی مخصوص دن کو خاص نہ کیا جائے (جیسے جاہل لوگ گیارہویں، بارہویں، عرس وغیرہ کرتے ہیں)۔
◈ کسی خاص صورت یا طریقے کو مقرر نہ کیا جائے (جیسے چند مولویوں کو بلا کر قرآن خوانی کروانا اور پھر ضیافت و کھانے کا انتظام کرنا)۔
◈ ان غیر شرعی طریقوں سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔

اولاد کی طرف سے قرآن خوانی

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اولاد اپنے والدین کے لیے قرآن خوانی کرواسکتی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے:

◈ احادیث میں والدین کے لیے صدقہ کرنے کا ذکر عام طور پر موجود ہے۔
◈ بخاری و مسلم کی صحیح حدیث میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((الكلمة الطيبة صدقه.))
’’پاکیزہ کلمہ بھی صدقہ ہے۔‘‘

قرآن حکیم سے بڑھ کر پاکیزہ کلمہ کی اور کیا مثال ہو سکتی ہے؟

راقم الحروف کی رائے

راقم الحروف کی رائے کے مطابق اولاد اپنے والدین کے لیے قرآن پڑھ سکتی ہے اور اس کا ثواب انہیں پہنچا سکتی ہے، لیکن یہ عمل خود کرے۔

◈ پیٹ پرست مولویوں کو بلا کر پڑھوانا اور پھر کھانے پینے کا انتظام کرنا درست نہیں۔
◈ اس کے لیے کسی خاص دن یا وقت کو مقرر کرنا بھی جائز نہیں، کیونکہ نہ اللہ تعالیٰ نے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے ایسا حکم دیا ہے۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے