میت کا چہرہ قبلہ رخ کرنا: دائیں پہلو یا سیدھا لٹانا؟
ماخوذ: فتاویٰ علمیہ، جلد 3: نمازِ جنازہ سے متعلق مسائل، صفحہ 131

میت کا چہرہ قبلہ رُخ کرنے کا مسئلہ

سوال:

ہمارے ہاں عمومی طور پر میت کو قبر میں سیدھا لٹا کر اس کی گردن کو موڑ کر چہرہ قبلہ کی طرف کردیا جاتا ہے۔ لیکن میں نے "فتاویٰ اسلامیہ” (مترجم، جلد دوم، طبع دارالسلام) میں شیخ ابن عثیمین رحمۃ اللہ علیہ کا جواب پڑھا ہے کہ میت کو دائیں پہلو پر قبلہ رُخ دفن کیا جائے۔ اسی طرح "احکام الجنائز” (مترجم، صفحہ 183، مسئلہ نمبر 152) میں بھی لکھا ہے کہ میت کو قبر میں دائیں کروٹ لٹایا جائے گا۔
محترم شیخ! برائے مہربانی اس مسئلہ کی صحیح وضاحت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
(محمد رمضان سلفی، عارف والا)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس بات پر امتِ مسلمہ کا اجماع (اتفاق رائے) ہے کہ میت کا چہرہ قبر میں قبلہ کی طرف ہونا چاہیے۔
(المحلی لابن حزم، جلد 5، صفحہ 173، مسئلہ 615؛ احکام الجنائز للالبانی، صفحہ 51، فقرہ 104)

احادیث سے تائید:

اس اجماع کی تائید دو احادیث سے بھی ہوتی ہے، جن کی تحقیق درج ذیل ہے:

1. حدیث:

"قِبْلَتكُمْ أَحْيَاءً وَأَمْوَاتًا”
ترجمہ: "تمہارے زندہ اور فوت شدہ لوگوں کا قبلہ”

(ابوداود: 2875، نسائی: 4017، المستدرک للحاکم: 359، 459)
اس حدیث کی سند یحییٰ بن ابی کثیر کی "عن” کی روایت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
السنن الکبریٰ للبیہقی (جلد 3، صفحہ 409) میں اس کے ضعیف شواہد موجود ہیں، لہٰذا یہ حدیث مجموعی طور پر ضعیف ہی ہے۔

2. سیدنا براء بن معرور رضی اللہ عنہ کی وصیت:

انہوں نے استقبالِ قبلہ کی وصیت کی تھی۔
(الاوسط لابن المنذر: 3205، السنن الکبریٰ للبیہقی: جلد 3، صفحہ 384، المستدرک للحاکم: صفحہ 353–354، حدیث 1305)
یہ روایت یحییٰ بن عبداللہ بن ابی قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد عبداللہ بن ابی قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے بیان کی ہے،
جن کی توثیق ابن حبان، حاکم، اور دیگر محدثین نے کی ہے۔

البتہ المستدرک للحاکم میں اس کو سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے،
جس کو نصب الرایہ (جلد 2، صفحہ 252) اور اتحاف المہرۃ (جلد 4، حدیث 4054) نے ذکر کیا ہے۔
یہ اضافہ دراصل وہم (غلطی) ہے۔
(دیکھئے: ارواء الغلیل، جلد 3، صفحہ 153، حدیث 689)

اس روایت پر نعیم بن حماد پر کیا گیا اعتراض باطل اور مردود ہے،
لیکن چونکہ یہ مرسل ہے، اس لیے سنداً ضعیف شمار ہوتی ہے۔
السنن الکبریٰ للبیہقی (جلد 3، صفحہ 384) میں بھی اس کا ضعیف و مرسل شاہد موجود ہے،
جسے "مرسل جید” کہنا محلِ نظر ہے۔

تابعین اور ائمہ کا عمل:

امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ:

مشہور تابعی امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ یہ پسند فرماتے تھے کہ میت کو موت کے وقت قبلہ رُخ کیا جائے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 3، صفحہ 239، حدیث 10872، سندہ صحیح)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ:

انہوں نے فرمایا:
"اگر میت کا پہلو قبلہ رخ کیا جائے تو یہ (زیادہ بہتر) ہے، اور (ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے کہا:) میرا خیال ہے کہ انہوں نے فرمایا: اگر چاہیں تو میت کو پشت کے بل لٹائیں اور اس کا چہرہ قبلہ رُخ کر دیں۔”
(مسائل ابی داود، صفحہ 138)

خلاصہ:

عربوں کی طرح میت کو اگر دائیں پہلو پر قبلہ رُخ لٹایا جائے، تو یہ جائز اور بہتر طریقہ ہے۔

❀ اگر عام لوگوں کے معمول کے مطابق میت کو پشت پر لٹا کر صرف چہرہ قبلہ کی طرف کر دیا جائے، تو یہ بھی جائز ہے۔

واللہ اعلم

(تاریخ: 5 اپریل 2011ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1