سوال:
میت کے گھر والوں کے لیے کتنے دن کھانا تیار کر کے بھیجنا جائز ہے؟ عام طور پر تین دن کا رواج ہے۔ برائے مہربانی کتاب و سنت اور آثار سلف صالحین کی روشنی میں تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔ (محمد رمضان سلفی، عارف والا)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیثِ نبوی:
سیدنا عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا فَإِنَّهُ قَدْ أَتَاهُمْ أَمْرٌ شَغَلَهُمْ”
"آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو، کیونکہ ایسی بات ہوگئی ہے جس نے انھیں مشغول کر دیا ہے۔”
(سنن ابی داود: 3132، وسندہ حسن، وصححہ الترمذی: 998، الحاکم 1/372، والذہبی)
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ میت کے اہل خانہ کے لیے ان کے رشتہ داروں، دوستوں اور ہمدردوں کو مصیبت اور غم کے وقت کھانا تیار کرکے بھیجنا چاہئے۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ یہ کھانا سادہ اور عام معیار کا ہو، اور اس میں کسی قسم کی تکلف یا دکھاوا نہ ہو۔
سوگ اور غم کی مدت:
عام طور پر میت پر سوگ اور غم تین دن کے لیے ہوتا ہے، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ثابت ہے:
صحیح بخاری (1279) اور صحیح مسلم (938، بعد 1491)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آل جعفر کو تین دن اور تین راتوں کی مہلت دی، اس کے بعد آپ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا:
"لاَ تَبْكُوا عَلَى أَخِي بَعْدَ اليَوْمِ”
"آج کے بعد میرے بھائی پر نہ رونا، یعنی اس کا سوگ نہ کرو”
(سنن ابی داود: 192، وسندہ صحیح، وصححہ النووی علی شرط البخاری ومسلم، ریاض الصالحین: 1642)
جائز مدت:
ان دونوں احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ میت کے اہل خانہ کے لیے تین دن اور راتوں تک کھانا تیار کر کے بھیجنا جائز اور درست ہے۔
اہم تنبیہ:
یہ بات قابل غور ہے کہ متاخرین حنفیہ میں سے طحاوی حنفی نے صرف ایک دن رات کا کھانا بھیجنے کا فتویٰ دیا ہے، لیکن ان کی دلیل واضح نہیں ہے۔
اس حوالے سے مزید تحقیق کے لیے دیکھئے:
شیخ فضل الرحمان بن محمدی کی کتاب: جنازے کے مسائل، صفحہ 183
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب