میت اٹھانے کے بعد وضو کا حکم – حدیث اور علماء کی آراء
ماخوذ : احکام و مسائل، طہارت کے مسائل، جلد 1، صفحہ 87

میت کو اٹھانے کے بعد وضو کا حکم – حدیث کی تحقیق اور علماء کے اقوال

سوال:

حدیث مبارکہ ہے:
«مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ»
(ترجمہ: جو شخص میت کو غسل دے وہ خود بھی غسل کرے، اور جو اسے اٹھائے وہ وضو کرے)

ہماری دسترس میں صرف دو کتب ہیں: عون المعبود اور التلخیص الحبیر۔
آپ نے التلخیص، جلد 1، صفحہ 136 کا حوالہ دیا، جس میں درج ہے:

’’وَقَالَ الْبَیْہَقِيْ وَالصَّحِیْحُ اَنَّہٗ مَوْقُوْفٌ، وَقَالَ الْبُخَارِیُّ الاَشْبَہُ مَوْقُوْفٌ، وَقَالَ عَلِیٌّ وَاَحْمَدُ لاَ یَصِحُّ فِي الْبَابِ شَیْئٌ، وَقَالَ الذُّہَلِیُّ لاَ اَعْلَمُ فِیْہِ حَدِیْثًا، وَلَوْ ثَبَتَ لَلَزِمَنَا اِسْتِعْمَالُہٗ، وَقَالَ ابْنُ الْمُنْذِرِ لَیْسَ فِي الْبَابِ حَدِیْثٌ یَثْبُتُ‘‘

کیا وہ تمام افراد جنہوں نے میت کو اپنے کندھوں پر اٹھایا ہے (اور تقریباً سبھی ایسا کرتے ہیں) انہیں دوبارہ وضو کرنا چاہیے؟
کیا میت کو اٹھانا وضو کو توڑنے والے امور (نواقض الوضوء) میں شمار ہوتا ہے؟

جواب:

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد:
آپ نے اپنی تحریر میں حدیث «مَنْ غَسَّلَ مَیِّتًا فَلْیَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَہٗ فَلْیَتَوَضَّأْ» کے حوالے سے التلخیص الحبیر میں محدثین کی کچھ آراء ذکر کیں، جن سے اس حدیث کے مرفوع ہونے کو ثابت نہیں مانا گیا۔

لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ آپ نے ان اقوال کو تو ذکر کیا جو حدیث کے مرفوع ہونے کو غیر ثابت قرار دیتے ہیں، مگر ان اقوال کو بالکل نظر انداز کر دیا جو اس حدیث کو مرفوع اور قابل حجت مانتے ہیں، حالانکہ وہ بھی التلخیص ہی میں موجود ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رجحان:

خود التلخیص الحبیر کے مؤلف حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا اس حدیث کی صحت کی طرف جھکاؤ ہے۔ وہ فرماتے ہیں:

فَیَنْبَغِيْ اَنْ یُّصَحَّحَ الْحَدِیْثُ
یعنی: ’’یہ مناسب ہے کہ اس حدیث کو صحیح قرار دیا جائے‘‘

اور حدیث کے حسن ہونے کی تصریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَفِي الْجُمْلَةِ ہُوَ بِکَثْرَةِ طُرُقِہٖ اَسْوَأُ اَحْوَالِہٖ اَنْ یَکُوْنَ حَسَنًا
یعنی: ’’اس کے متعدد طرق کے پیش نظر اس کی کم از کم حیثیت یہی ہے کہ یہ حدیث حسن درجے کی ہے‘‘

مطالعہ کی دعوت:

آپ نے صفحہ 136 کا حوالہ دیا، لیکن اگر آپ التلخیص الحبیر، جلد 1، صفحات 137 اور 138 کو بھی غور سے پڑھیں، تو ان میں اس حدیث کی تائید میں مزید دلائل اور وضاحتیں ملیں گی جو آپ کی الجھن کو دور کر دیں گی۔ امید ہے آپ ان صفحات کا مطالعہ ضرور فرمائیں گے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق:

شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب إرواء الغلیل، الجزء الأول، حدیث نمبر 144، صفحہ 173 میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

لہٰذا، یہ حدیث کم از کم حسن درجے سے کم نہیں۔
البتہ غسل کا جو حکم ہے، اسے ندب اور استحباب (یعنی مستحب اور نفل) پر محمول کیا گیا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث:

اس کی دلیل حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَیْسَ عَلَیْکُمْ فِيْ غُسْلِ مَیِّتِکُمْ غُسْلٌ
(التلخیص، حوالہ بیہقی)
ترجمہ: ’’تم پر اپنے مردے کو غسل دینے کی وجہ سے کوئی غسل (یعنی واجب) نہیں‘‘

حافظ ابن حجر کا تبصرہ:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، بیہقی کی اس حدیث پر جرح کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَالْاِسْنَادُ حَسَنٌ، فَیُجْمَعُ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْاَمْرِ فِيْ حَدِیْثِ اَبِيْ ہُرَیْرَۃَ بِاَنَّ الْاَمْرَ عَلَی النَّدْبِ، اَوْ الْمُرَادَ بِالْغُسْلِ غَسْلُ الْاَیْدِيْ کَمَا صُرِّحَ بِہٖ فِيْ ہٰذَا قُلْتُ، وَیُؤَیِّدُ اَنَّ الْاَمْرَ فِیْہِ لِلنَّدْبِ، مَا رَوَی الْخَطِیْبُ، الخ

پھر لکھتے ہیں:

اَقُوْلُ: اِنََّ حَمْلَ قَوْلِہِ صلی اللہ عليه وسلم فِيْ حَدِیْثِ اَبِيْ ہُرَیْرَۃَ فَلْیَغْتَسِلْ عَلٰی غَسْلِ الْاَیْدِيْ لَیْسَ بِصَوَابٍ، کَمَا لاَ یَخْفٰی عَلٰی اُوْلِی الْاَلْبَابِ

"وَمَنْ حَمَلَہٗ” کا مطلب:

اس جملہ "وَمَنْ حَمَلَہٗ” کے متعلق علماء نے متعدد مفاہیم ذکر کیے ہیں۔
میرے نزدیک صحیح مفہوم یہ ہے کہ:

’’جو شخص میت کو (براہ راست) اٹھائے، وہ وضو کرے‘‘

اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو میت کی چارپائی کو اٹھائے، وہ وضو کرے۔

میت اٹھانے سے وضو ٹوٹنے کا معاملہ:

جہاں تک یہ سوال ہے کہ کیا میت کو اٹھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں، تو اس بارے میں کوئی قطعی علم موجود نہیں۔
لیکن یہ بات واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’جو میت اٹھائے، وہ وضو کرے‘‘

پس جب حدیث ثابت ہو گئی ہے، تو بغیر کسی تردد اور تاویل کے اس نبوی حکم پر عمل کرنا چاہیے۔

وضو کے حکم کی نوعیت:

شیخ البانی رحمہ اللہ اور دیگر کئی علماء اس وضو کے حکم کو ندب اور استحباب پر محمول کرتے ہیں۔
البتہ، میرے علم میں فی الحال اس کی کوئی مضبوط دلیل موجود نہیں۔

دعا:

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی رضا کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے