إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ، وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ. أَمَّا بَعْدُ :
انبیاءؑ جہاں وصال کریں وہیں دفن کیے جائیں
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ ﴿٣٠﴾ (الزمر : 30)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” بے شک تو مرنے والا ہے اور بے شک وہ بھی مرنے والے ہیں۔“
حدیث ۱
وَعَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُوْلُ اللَّهِ اِخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ. فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وسلم شَيْئًا مَا نَسِيْتُهُ، قَالَ: مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي الْمَوْضِعِ الَّذِي الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيْهِ ، فَدَفَنُوهُ فِي مَوْضِع فِرَاشِهِ.
’’سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو لوگوں نے آپ ﷺ کی تدفین کے متعلق اختلاف کیا (آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟) سیدنا ابوبکرؓ نے کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ سن رکھا ہے جسے میں نے بھلایا نہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا : اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو وہیں فوت کیا جہاں وہ دفن کیا جانا پسند کرتا تھا۔ پھر صحابہ کرامؓ نے آپ ﷺ کو آپ کے بستر کی جگہ دفن کر دیا ۔“
سنن الترمذی ، کتاب الجنائز، رقم: 1018 ، صحيح الجامع الصغير، رقم: 5649.
بغلی قبر سیدھی قبر سے افضل ہے
قَالَ اللهُ تَعَالَى: مَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ ﴿٢١﴾ ثُمَّ إِذَا شَاءَ أَنشَرَهُ ﴿٢٢﴾ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَا أَمَرَهُ ﴿٢٣﴾ (عبس :21-23)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں رکھوایا۔ پھر جب وہ چاہے گا اسے اٹھائے گا۔ ہرگز نہیں، ابھی تک اس نے وہ کام پورا نہیں کیا جس کا اس نے اسے حکم دیا۔“
حدیث ۲
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِؓ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم كَانَ بِالْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَلْحَدُ وَآخَرُ يَزْرَحُ فَقَالُوا: نَسْتَخِيرُ رَبَّنَا وَنَبْعَثُ إِلَيْهِمَا ، فَأَيُّهُمَا سُبقَ تَرَكْنَاهُ. فَأُرْسِلَ إِلَيْهِمَا ، فَسَبَقَ صَاحِبُ اللَّحْدِ ، فَلَحَدُوا لِلنَّبِيِّ.
”اور حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم ﷺ فوت ہوئے تو مدینہ میں ایک آدمی بغلی قبر بناتا تھا اور دوسرا سیدھی قبر بناتا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم اسے چھوڑ دیں گے۔ پھر ان دونوں کی طرف پیغام بھیج دیا گیا تو بغلی قبر بنانے والا پہلے آن پہنچا لہذا انھوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے بغلی قبر بنائی۔“
سنن ابن ماجه، کتاب الجنائز، رقم: 1557 ، مسند احمد : 139/3
میت کو قبر کے قدموں کی جانب سے داخل کیا جائے
حدیث ۳
وَعَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ: أَوْصَى الْحَارِثُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَى الْقَبْرِ وَقَالَ: هَذَا مِنَ السُّنَّةِ.
’’اور ابو اسحاقؒ نے بیان کیا کہ حارث نے وصیت کی کہ اس کی نماز جنازہ سیدنا عبدالرحمن بن یزیدؓ پڑھائیں چنانچہ انھوں نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر اسے قبر کے پاؤں کی جانب سے قبر میں داخل کیا اور فرمایا کہ یہ سنت طریقہ ہے۔“
سنن أبی داؤد، کتاب الجنائز، رقم: 3211
غیر عورت کو قبر میں کیسا مرد اُتارے؟
حدیث ۴
وَعَنْ أَنَسِؓ قَالَ: شَهِدْنَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ وَرَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ ، فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ، فَقَالَ: هَلْ فِيكُمْ مِنْ أَحَدٍ لَمْ يُقَارِفِ اللَّيْلَةَ ۚ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَنَا، قَالَ: فَانْزِلْ فِي قَبْرِهَا ، فَنَزَلَ فِي قَبْرِهَا فَقَبَرَهَا: قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ فُلَيْحٌ : أَرَاهُ يَعْنِي الذَّنْبَ . قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: ﴿لِيَقْتَرِفُوا﴾ (الانعام:113) أَيْ لِيَكْتَسِبُوا.
’’اور سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے جنازے میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ کیا ایسا آدمی بھی یہاں کوئی ہے جس نے آج رات کوئی گناہ نہ کیا ہو؟ یہ سن کر حضرت ابوطلحہؓ نے کہا کہ میں ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پھر تم قبر میں اترو۔ سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ چنانچہ وہ اترے اور میت کو دفن کیا۔“
صحيح البخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1243، مسند احمد: 126/3
قبر پر پانی چھڑکنے کا حکم
حدیث ۵
وَعَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ ، أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وسلم رَشَ عَلَى قَبْرِ ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ الْمَاءَ ، وَوَضَعَ عَلَيْهِ الْحَصْبَاءِ.
”اور جعفر اپنے والد محمد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بیٹے ابراہیم کی قبر پر پانی چھڑکا اور اس پر کنکریاں رکھیں۔“
المسند للشافعي : 215/1 ، رقم : 599 ، التلخيص الحبير: 133/2، رقم : 793 ، السنن الكبرى للبيهقي : 411/3.
قبر کو ایک بالشت سے زیادہ بلند نہ کیا جائے
حدیث ۶
وَعَنْ أَبِي الْهَيَّاج الْأَسَدِي قَالَ: قَالَ لِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ أَلا أَبْعَتُكَ عَلى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ ؟ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتَهُ، وَلا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتَهُ.
”اور ابو الھیاج اسدی سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالبؓ نے مجھے کہا کیا میں تمھیں ایسے کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے بھیجا تھا کہ تم ہر ذی روح کی تصویر کو مٹا دو اور ہر (شرعی مقدار سے) بلند قبر کو برابر کر دو۔“
صحيح مسلم ، کتاب الجنائز، رقم: 969، سنن أبو داؤد، رقم: 3218، سنن الترمذي، رقم: 1049.
تدفین کے بعد میت کے لیے استغفار اور ثابت قدمی کی دعا
حدیث ۷
وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ فَقَالَ: اسْتَغْفِرُ وا لِأَخِيكُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ . قَالَ أَبُو دَاوُد بَحِيرُ ابْنُ رَيْسَانَ.
’’اور سیدنا عثمانؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ جب میت کی تدفین سے فارغ ہوتے تو اس پر ٹھہرتے اور فرماتے اپنے بھائی کے لیے بخشش طلب کرو اور اس کے لیے ثابت قدمی مانگو یقیناً اس سے اب سوال کیا جا رہا ہے۔“
سنن أبی داؤد، کتاب الجنائز، رقم 3221
قبر پر پتھر یا اس کی مثل کوئی نشانی رکھی جاسکتی ہے
حدیث ۸
وَعَنِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونِ أُخْرِجَ بِجَنَازَتِهِ فَدُفِنَ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم رَجُلًا أَنْ يَأْتِيَهُ بِحَجَرٍ ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ حَمْلَهُ، فَقَامَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَحَسَرَ، عَنْ ذِرَاعَيْهِ ، – قَالَ كَثِيرٌ : قَالَ الْمُطَّلِبُ : قَالَ الَّذِي يُخْبِرُنِي ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللهِ ، قَالَ: كَأَنِّى أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ ذِرَاعَيْ رَسُولِ اللهِ حِينَ حَسَرَ عَنْهُمَا ، ثُمَّ حَمَلَهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَأْسِهِ وَقَالَ: أَتَعَلَّمُ بِهَا قَبْرَ أَخِي، وَأَدْفِنُ إِلَيْهِ مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِي.
”اور مطلب بن ابی وداعہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا عثمان بن مظعونؓ فوت ہوئے ان کا جنازہ لے جایا گیا اور انھیں دفن کیا گیا تو نبی کریم ﷺ نے ایک آدمی کو پتھر لانے کا حکم دیا۔ جب وہ اسے نہ اٹھا سکا تو نبی ﷺ نے اپنی آستینوں سے کپڑا اٹھایا۔ پھر آپ ﷺ نے پتھر اٹھایا اور عثمانؓ ان کے سر کی جانب رکھ دیا اور ارشاد فرمایا : میں اس کے ذریعے اپنے بھائی کی قبر کو پہچانوں گا اور اپنے گھر والوں میں سے فوت ہونے والوں کو اس کے قریب دفن کروں گا۔“
سنن أبي داؤد، كتاب الجنائز، رقم: 3206 ، سنن الكبرى للبيهقي: 412/3، تلخيص الحبير :267/2
میت کو کسی شرعی عذر کی بناء پر قبر سے نکالا جاسکتا ہے
حدیث ۹
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبَيٍّ بَعْدَ مَا أَدْخِلَ حُفْرَتَهُ فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ ، فَوَضَعَهُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَنَفَثَ عَلَيْهِ مِنْ رِيقِهِ وَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ ، فَاللَّهُ أَعْلَمُ، وَكَانَ كَسَا عَبّاسًا قَمِيصًا ، قَالَ سُفْيَانُ: وَقَالَ أَبُو هَارُونَ: وَكَانَ عَلَى رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَمِيصَان، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلْبِسْ أَبِى قَمِيصَكَ الَّذِى يَلِى جِلْدَكَ . قَالَ سُفْيَانُ: فَيُرَوْنَ أَنَّ النَّبِيَّ أَلْبَسَ عَبْدَ اللَّهِ قَمِيصَهُ مُكَافَاةَ لِمَا صَنَعَ.
’’اور حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی(منافق) کو اس کی قبر میں ڈالا جا چکا تھا۔ لیکن آپ ﷺ کے ارشاد پر اسے قبر سے نکال لیا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا کرتہ اسے پہنایا۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ (غالباً مرنے کے بعد ایک منافق کے ساتھ اس احسان کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے سیدنا عباسؓ کو ایک قمیص پہنائی تھی)(غزوہ بدر میں جب سیدنا عباسؓ مسلمانوں کے قیدی بن کر آئے تھے) سفیان نے بیان کیا کہ ابو ہارون موسیٰ بن ابی عیسی کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے استعمال میں دو کرتے تھے۔ عبداللہ کے لڑکے (جو مومن مخلص تھےؓ) نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے والد کو آپ وہ قمیص پہنا دیجئے جو آپ کے جسد اطہر کے قریب رہتی ہے۔ سفیان نے کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنا کرتہ اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے سیدنا عباسؓ کو پہنایا تھا۔“
صحيح البخارى، كتاب الجنائز، رقم: 1350 ، صحیح مسلم، رقم: 2773.
تعزیت کرنا مشروع ہے
حدیث ۱۰
وَعَنْ قرَّةَ قَالَ: إِنَّ رَجُلًا كَانَ يَأْتِي النَّبِيِّ وَمَعَهُ ابْنُ لَهُ ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ : أَتُحِبُّهُ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ ، اَحَبَّكَ اللَّهُ كَمَا أَحَبَّهُ . فَفَقَدَهُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ: مَا فَعَلَ ابْنُ فُلَانِ؟ قَالُوا: يَا رَسُوْلَ اللهِ ، مَاتَ . فَقَالَ النَّبِيُّ لأَبِيهِ: أَمَا تُحِبُّ أَنْ لَا تَاتِيَ بَابًا مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ إِلَّا وَجَدْتَهُ يَنْتَظِرُكَ؟ فَقَالَ رَجُلٌ: يَارَسُولُ اللهِ ، اَلَهُ خَاصَّةً ، اَوَلِكُتِنَا ؟ قَالَ: بَلْ لِكُلِكُمْ.
’’اور سیدنا قرہ مزنیؓ سے مروی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ایک ساتھی کا بچہ فوت ہو گیا تو آپ ﷺ نے اس کی تعزیت کی۔ پھر ارشاد فرمایا : اے فلاں ! تمھیں کون سی چیز زیادہ پسند ہے کہ تم اس (بچے) کے ذریعے اپنی زندگی کو فائدہ پہنچاؤ یا کل کو تم جب جنت کے دروازوں میں سے کسی دروازے کے پاس آؤ گے تو اسے وہاں پہلے سے موجود پاؤ گے اور وہ تمھارے لیے اسے (جنت کا دروازہ) کھولے گا۔“
سنن النسائی، رقم: 2090، المستدرك للحاكم: 384/1، مسند أحمد: 35/5
تعزیت کرنے کی فضیلت
حدیث ۱۱
وَعَنْ أَنَسِؓ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : مَنْ عَزَّى أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ فِي مُصِيبَةٍ كَسَاهُ اللَّهُ حُلَّةً خَضْرَاءَ يُحْبَرُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قِيلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ مَا يُحْبَرُ؟ قَالَ: يُعْبَطُ.
’’اور سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے کسی مومن بھائی کو مصیبت میں تسلی دی تو اللہ تعالیٰ اسے ایسا سبز لباس پہنائیں گے جس کے ذریعے روز قیامت اس پر رشک کیا جائے گا۔“
تاريخ بغداد : 397/7، إرواء الغليل، أحكام الجنائز وبدعها، ص205
تعزیت کے مسنون الفاظ
حدیث ۱۲
وَعَنْ أَسَامَةَ بْنِ زَيْدٍؓ قَالَ: أَرْسَلَت بِنتُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم إِلَيْهِ: إِنَّ ابْنَا لِي قُبِضَ فَأْتِنَا . فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ وَيَقُولُ: إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ. وَلْتَحْتَسِبْ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا ، فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَمَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأَبَى بْنُ كَعْبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مسمی، فَلْتَصْبِرْ وَرِجَالٌ ، فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللهِ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ . قَالَ حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ كَأَنَّهَا شَنُّ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا؟ فَقَالَ: هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ.
’’اور حضرت اسامہ بن زیدؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی (حضرت زینبؓ) نے آپ ﷺ کو اطلاع کرائی کہ میرا ایک لڑکا مرنے کے قریب ہے، اس لیے اپ ﷺ تشریف لائیں آپ ﷺ نے انہیں سلام کہلوایا اور کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے، جو لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو اس نے دیا وہ بھی اسی کا تھا اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے۔ اس لئے صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو۔ پھر حضرت زینبؓ نے قسم دے کر اپنے یہاں بلوا بھیجا اب رسول اللہ ﷺ جانے کے لیے اٹھے۔ آپ کے ساتھ سعد بن عبادہ معاذ بن جبل ابی بن کعب زید بن ثابت اور بہت سے دوسرے صحابہؓ بھی تھے، بچے کو رسول الله ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا جس کی جانکنی کا عالم تھا۔ ابو عثمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اسامہؓ نے فرمایا : جیسے پرانا مشکیزہ ہوتا ہے (اور پانی کے ٹکرانے کی اندر سے آواز ہوتی ہے اسی طرح جانکنی کے وقت بچہ کے حلق سے آواز آرہی تھی) یہ دیکھ کر رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے سعدؓ اٹھے کہ یا رسول اللہ ! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے (نیک) بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے ان رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔“
صحیح بخاری، کتاب الجنائز ، رقم : 1284، صحیح مسلم، رقم : 923
میت کے لیے دُعائے مغفرت
حدیث ۱۳
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَلَى أَبِي سَلَمَةَ وَقَدْ شَقَّ بَصَرُهُ ، فَأَغْمَضَهُ ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَهُ الْبَصَرُ . فَضَجَّ نَاسٌ مِنْ أَهْلِهِ فَقَالَ لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ ، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِنُوْنَ عَلَى مَا تَقُولُونَ . ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ، وَنَوِرْ لَهُ فِيهِ.
’’اور حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابو سلمہؓ کے پاس تشریف لائے۔ جبکہ (موت کے بعد) ان کی آنکھیں اوپر کو کھلی ہوئی تھیں، تو آپ ﷺ نے ان کو بند کر دیا پھر ارشاد فرمایا : جب روح قبض کر لی جاتی ہے (روح جسم سے نکال لی جاتی ہے) تو نظر اس کا پیچھا کرتی ہے۔ (اس لیے آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں) آپ کی بات سن کر ان کے گھر کے لوگ چلا چلا کر رونے لگے (رنج اور صدمہ کی حالت میں ان کی زبان سے ایسی باتیں نکلنے لگیں جو خود ان کے حق میں بددعا تھیں) تو آپ نے ارشاد فرمایا : تم اپنے نفسوں کے حق میں خیر اور بھلائی کی دعا کرو، کیونکہ تم جو کچھ کہہ رہے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔ پھر آپ نے خود اس طرح دعا فرمائی : اے اللہ! ابوسلمہ کی مغفرت فرما اور اپنے ہدایت یافتہ بندوں میں ان کا درجہ بلند فرما، اور اس کا جانشین بن جا (اس کے بجائے تو ہی سر پرستی اور نگرانی فرما) اس کے پس ماندگان کی ، اور اے کائنات کے مالک! بخش دے ہمیں اور اس کو، اور اس کی قبر کو اس کے لیے وسیع اور روشن و منور فرما۔“
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: 2130 ، سنن أبى داؤد، رقم: 3118
میت کے گھر والوں کے لیے کھانا بھیجنا مسنون ہے
حدیث ۱۴
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : اصْنَعُوا لالِ جَعْفَرٍ طَعَامًا ، فَإِنَّهُ قَدْ أَتَاهُمْ أَمْرٌ شَغَلَهُمْ.
’’اور سیدنا عبداللہ بن جعفرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب جعفر بن ابی طالبؓ کی خبر شہادت موصول ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان کو ایسی (تکلیف دہ) اطلاع ملی ہے جو انھیں کھانا پکانے سے مشغول رکھے گی۔“
سنن أبى داؤد ، کتاب الجنائز، رقم: 3132 ، سنن الترمذی، رقم: 998، سنن ابن ماجه ، رقم:1610، شرح السنه:300/3
قبروں کی زیارت مشروع ہے
حدیث ۱۵
وعنْ أَبِي سَعِيدِ الْخُدْرِيّؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ : إِنِّى نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا ، فَإِنَّ فِيْهَا عِبْرَةٌ.
”اور سیدنا ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں نے تمھیں زیارت قبور سے روکا تھا پس تم قبروں کی زیارت کرو کیونکہ ان میں عبرت ہے۔“
مسند احمد: 38/3، المستدرك للحاكم: 374/1
حدیث ۱۶
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وسلم لَعَنَ زَوَّارَاتِ القبور.
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کثرت سے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت فرمائے۔“
سنن الترمذی، ابواب الجنائز، رقم : 1056 ، سنن ابن ماجة ، رقم : 1576
عبرت کے لیے مشرک کی قبر کی زیارت جائز ہے
حدیث ۱۷
وَعَنْهُؓ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي أَنْ أَسْتَغْفِرَ لِأُمِّي، فَلَمْ يَأْذَنْ لِي ، وَاسْتَأْذَنْتُهُ أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأَذِنَ لی
’’اور سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : میں نے اپنے رب تعالیٰ سے اپنی والدہ کے لیے استغفار کرنے کی اجازت طلب کی لیکن مجھے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ پھر میں نے اللہ سے اُس کی قبر کی زیارت کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت دے دی۔“
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: 2258 ، سنن الترمذی، رقم: 1054
دوران زیارت اہل قبور کے لیے دعا کی جاسکتی ہے
حدیث ۱۸
وَعَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ كَانَ يَخْرُجُ إِلَى الْبَقِيع فَيُدْعُوْلَهُمْ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ : إِنِّي أُمِرْتُ أَنَّ أَدْعُوَلَهُمْ.
’’اور سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ قبرستان کی طرف تشریف لے جاتے اور ان کے لیے دعا کرتے۔ پھر سیدہ عائشہؓ نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کے لیے دعا کروں۔“
مسند احمد : 252/6 ، أحكام الجنائز وبدعها، ص 239.
زیارت قبور کی دعائیں
حدیث ۱۹
وَعَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إِلَى الْمَقَابِرٍ فَكَانَ قَآئِلُهُمْ يَقُولُ فِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرِ السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ، وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ الله للاحِقُونَ أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمْ الْعَافِيَةَ.
’’اور حضرت بریدہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ انہیں تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو اس طرح جا کر کہیں، ابوبکر کی روایت ہے۔ السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ اے گھر والو! سلام ہو۔ اور زہیر کی روایت ہے۔ السّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ اے گھر والو تم پر سلام ! مومنوں میں سے اور مسلمانوں میں سے اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور تمہارے لیے عافیت (سکھ ، چین اور سکون) کا سوال کرتا ہوں۔“
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم : 975
حدیث ۲۰
وَعَنْ عَائِشَةَؓ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ كُلَّمَا كَانَ لَيْلَتُهَا مِنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَخْرُجُ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ إِلَى الْبَقِيعِ ، فَيَقُولُ: اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَأَتَاكُمْ مَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَلُونَ ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاحِقُونَ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ.
”اور حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب بھی رسول اللہ ﷺ کی باری میرے ہاں ہوتی تو رسول اللہ ﷺ رات کے آخری حصہ میں بقیع (اہل مدینہ کا قبرستان) تشریف لے جاتے اور ارشاد فرماتے : اے مومنوں کے گھر کے باسیو! تم پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی نازل ہو۔ جس کا تم سے وعدہ تھا آچکا، کل تک تمہیں مہلت ہے، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ بقیع غرقد والوں کو معاف فرما۔“
صحیح مسلم، كتاب الجنائز ، رقم : 497
قبروں کو مسجدیں بنانا حرام ہے
حدیث ۲۱
وَعَنْهَاؓ ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا، قَالَتْ وَلَوْلا ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا.
”اور حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے مرض وفات میں ارشاد فرمایا : یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاءؑ کی قبروں کو مساجد بنالیا۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلی رہتی (اور حجرہ میں نہ ہوتی) کیونکہ مجھے ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کی قبر بھی مسجد نہ بنا لی جائے۔“
صحیح البخاری ، کتاب الجنائز ، رقم: 1330
حدیث ۲۲
وَعَنْهَاؓ قَالَتْ: لَمَّا اشْتَكَى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ذَكَرَتْ بَعْضُ نِسَائِهِ كَنِيسَةٌ رَأَيْنَهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا: مَارِيَةٌ ، وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأَمْ حَبِيبَةَ وَلَا أَتَنَا أَرْضَ الْحَبَشَةِ فَذَكَرَتَا مِنْ حُسْنِهَا وَتَصَاوِيرَ فِيهَا ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ: أُولَئِكِ إِذَا مَاتَ مِنْهُمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا ثُمَّ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللهِ.
’’اور سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو آپ ﷺ کی بعض بیویوں نے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا۔ حضرت اُم سلمہ اور حضرت ام حبیبہؓ دونوں جبش کے ملک میں گئی تھیں۔ انھوں نے اس کی خوبصورتی اور اس میں رکھی گئی تصاویر کا بھی ذکر کیا۔ اس پر آپﷺ نے سر اٹھایا اور ارشاد فرمایا : ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہوتا ہے تو یہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے ہیں پھر اس کی تصویر اس میں رکھ دیتے ہیں، یہی اللہ تعالیٰ کے نزدیک مخلوق میں سے بدترین لوگ ہیں۔“
صحيح البخارى، كتاب الصلاة، رقم: 432 ، 434 ، صحیح مسلم، رقم: 530، سنن أبی داؤد، رقم: 3227
قبروں پر مساجد بنانے اور تزئین و آرائش کی ممانعت
حدیث ۲۳
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ : صَارَتِ الْأَوْثَانُ الَّتِي كَانَتْ فِي قَوْمِ نُوحٍ فِي الْعَرَبِ بَعْدُ، أَمَّا وَةٌ: كَانَتْ لِكَلْبٍ بِدَوْمَةِ الْجَنْدَلِ، وَأَمَّا سُوَاعٌ : كَانَتْ لِهُذَيْلٍ ، وَأَمَّا يَغُوثُ: فَكَانَتْ لِمُرَادٍ ثُمَّ لِبَنِي غُطَيْفِ ، بِالْجَرُفِ عِنْدَ سَيَا ، وَأَمَّا يَعُوقُ: فَكَانَتْ لِهَمْدَانَ ، وَأَمَّا نَسْرٌ: فَكَانَتْ لِحِمْيَرَ ، لَآلِ ذِي الْكَلَاعِ ، أَسْمَاءُ رِجَالٍ صَالِحِينَ مِنْ قَوْمٍ نُوحٍ ، فَلَمَّا هَلَكُوا أَوْحَى الشَّيْطَانُ إِلَى قَوْمِهِمْ أَنِ انْصِبُوا إِلَى مَجَالِسِهِم الَّتِي كَانُوا يَجْلِسُونَ أَنْصَابًا وَسَمُوهَا بِأَسْمَائِهِمْ فَفَعَلُوا فَلَمْ تُعْبَدْ، حَتَّى إِذَا هَلَكَ أُولَئِكَ وتنسخ العِلم عبدَتْ.
اور سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ جو بت حضرت موسیٰؑ کی قوم میں پوجے جاتے تھے بعد میں وہی عرب میں پوجے جانے لگے۔ ”ود“ دومۃ الجندل میں بنی کلب کا بت تھا۔ ’’سواع‘‘ بنی ہذیل کا۔ ’’یغوث‘‘ بنی مراد کا اور مراد کی شاخ بنی غطیف کا جو وادی جرف میں قوم سبا کے پاس رہتے تھے۔ ’’یعوق‘‘ بنی ہمدان کا بت تھا۔ ’’نسر‘‘ حمیر کا بت تھا جو ذوالکلاع کی آل میں سے تھے یہ پانچوں حضرت نوحؑ کی قوم کے نیک لوگوں کے نام تھے۔ جب وہ فوت ہو گئے تو شیطان نے ان کے دل میں ڈالا کہ اپنی مجلسوں میں جہاں وہ بیٹھتے تھے ان کے بت قائم کر لیں اور ان بتوں کے نام اپنے نیک لوگوں کے نام پر رکھ لیں، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اس وقت ان بتوں کی پوجا نہیں ہوتی تھی لیکن جب وہ لوگ بھی مرگئے جنھوں نے بت قائم کیے تھے اور علم لوگوں میں نہ رہا تو ان کی پوجا ہونے لگی۔
صحيح البخارى، كتاب التفسير، رقم: 4920
قبرستان کی مسجد میں نماز کی ممانعت
حدیث ۲۴
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم نَهَى أَنْ يُصَلَّى عَلَى الْجَنَائِزِ بَينَ الْقُبُورِ.
’’اور سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قبروں کے درمیان نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔“
معجم الأوسط للطبراني : 80/1 ، معجم ابن الأعرابي : 235/1 ، مجمع الزوائد : 36/3
حدیث ۲۵
وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِد، إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ.
”اور سیدنا ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ساری زمین نماز کی جگہ ہے سوائے قبرستان اور حمام کے۔“
سنن ابن ماجه رقم: 745 ، سنن أبو داؤد، رقم: 492، إرواء الغليل، ص 320
حدیث ۲۶
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا.
”اور سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھروں میں بھی ادا کیا کرو اور انھیں قبریں مت بناؤ۔“
صحيح البخاري، كتاب الجمعة، رقم: 1187 ، صحيح مسلم، رقم: 777، سنن أبوداؤد، رقم: 1043 ، سنن الترمذی، رقم: 451.
قبروں پر عرس یا میلوں کا اہتمام کرنا
حدیث ۲۷
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : لَا تَجْعَلُوا بُيُو قُبُورًا وَلَا تَجْعَلُوا قَبْرِى عِيدًا.
اور سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : میری قبر کو عیدمت بنانا۔“
سنن أبو داؤد، كتاب المناسك ، رقم: 2042 ، مسند احمد: 367/2
روضہ اقدس پر درود و سلام
حدیث ۲۸
وَعَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ فِيهِ ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ ؟ يَعْنِي: بَلِيتَ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ.
’’اور سیدنا اوس بن اوسؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمھارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا ہے۔ اس میں آدمؑ کی تخلیق ہوئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا، اسی دن (قیامت کی) بے ہوشی ہوگی، لہذا تم اس دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ تمھارا درود مجھے پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول ! جب آپ کا جسد اطہر خاک ہو جائے گا تب ہمارا درود کیسے آپ پر پیش کیا جائے گا۔ جب کہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء کا جسم کھائے۔‘‘
سنن ابن ماجه ، كتاب الجنائز رقم 1636 ، مسند احمد، رقم:16162
حدیث ۲۹
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةٌ سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ.
’’اور سیدنا ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرشتے زمین میں چلتے پھرتے ہیں اور میری اُمت کی طرف سے بھیجا ہوا سلام مجھے پہنچاتے ہیں۔“
سنن النسائي ، كتاب السهو : 43/3 ، صحیح ابن حبان، رقم: 2293، المستدرك للحاكم: 421/2
فوت شدہ کے لیے مسلمان کی دعا
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠﴾ (الحشر : 10)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جنھوں نے ایمان لانے میں ہم سے پہل کی اور ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لیے کوئی کینہ نہ رکھ جو ایمان لائے ، اے ہمارے رب ! یقیناً تو بے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
حدیث ۳۰
وَعَنْ أُمّ الدَّرْدَاءِ قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لَأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ – مُوَكَّلٌ ، كُلَّمَا دَعَا لَا خِيهِ بِخَيْرٍ ، قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ: آمِينَ، وَلَكَ بِمِثْلِ.
’’اور سیدہ اُم درداءؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان آدمی کی وہ دعا قبول ہوتی ہے جو وہ اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ کے پیچھے کرتا ہے اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہے جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو مقرر فرشتہ کہتا ہے آمین اور تجھے بھی اس کی مثل عطا کیا جائے۔“ ۔
مسلم، كتاب الذكر والدعاء رقم : 2733 ، سنن ابن ماجه ، رقم: 2895.
میت کی طرف سے روزوں کی قضائی دینا فائدہ مند ہے
حدیث ۳۱
وَعَنْ عَائِشَةَؓ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ.
’’اور حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ کچھ روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔“
صحيح البخارى، كتاب الصوم، رقم: 1952 ، صحیح مسلم، رقم: 1147، سنن أبوداؤد، رقم: 2400
میت کی نذر پوری کرنا
حدیث ۳۲
وَعَنْ سَعْدِ بْنَ عُبَادَةَ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ : إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا نَدْرٌ لَمْ تَقْضِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ : اقْضِهِ عَنْهَا.
’’اور سیدنا سعد بن عبادہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ بیشک میری والدہ وفات پاگئی ہے اور اس کے ذے نذر ہے (تو میں کیا کروں)؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم اس کی طرف سے نذر پوری کر دو۔“
سنن أبوداؤد، كتاب الأيمان ، رقم 2828
میت کی طرف سے کوئی بھی شخص قرض ادا کر سکتا ہے
حدیث ۳۳
وَعَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِي اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِي إِذْ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ فَقَالُوا: صَلَّ عَلَيْهَا، فَقَالَ: هَلْ عَلَيْهِ دَيْنُ؟ قَالُوا: لَا قَالَ: فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟ قَالُوا: لَا ، فَصَلَّى عَلَيْهِ ، ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ صَلّ عَلَيْهَا : قَالَ: هَلْ عَلَيْهِ دَيْن؟ قِيلَ: نَعَمْ ، قَالَ: فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟ قَالُوا: ثَلَاثَةَ دَنَانِيـرَ ، فَصَلَّى عَلَيْهَا ، ثُمَّ أُتِيَ بِالثَّالِثَةِ فَقَالُوا: صَلَّ عَلَيْهَا ، قَالَ هَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟ قَالُوا: لَا ، قَالَ: فَهَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ؟ قَالُوا: ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، قَالَ: أَبُو قَتَادَةَ : صَلَّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللهِ وَعَلَيَّ دَيْنْهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ.
’’اور حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ اس پر آپ ﷺ نے پوچھا کیا اس پر قرض ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی قرض نہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : میت نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کوئی مال نہیں چھوڑا۔ آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا تو لوگوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : میت پر کسی کا قرض بھی ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہے۔ پھر آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ اس نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔ آپ ﷺ نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ آپ ﷺ نے اس کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا کہ کیا اس نے کوئی مال ترکے میں چھوڑا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا : اس پر کسی کا قرض بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پھر تم اپنے ساتھی کی خود ہی نماز جنازہ پڑھ لو۔ ابو قتادہؓ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیجئے اس کا قرض میں ادا کروں گا۔ پھر آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔“
صحیح البخاری، کتاب الحوالات ، رقم: 2289، مسند أحمد: 47/4
صالح اولاد کے نیک اعمال کا میت کو فائدہ ہوتا ہے
حدیث ۳۴
وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : إِنَّ اللَّهَ لَيَرْفَعُ الدَّرَجَةُ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَنَّى لِي هَذِهِ؟ فَيَقُولُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ.
’’اور حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بلا شبہ اللہ تعالیٰ جنت میں نیک بندے کا درجہ بلند فرماتے ہیں تو بندہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ ! یہ درجہ مجھے کیوں دیا گیا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ درجہ تجھے تیرے لیے تیرے بیٹے کے استغفار کے ذریعے حاصل ہوا ہے۔“
سنن ابن ماجه ، کتاب الایمان، رقم: 3660 ، سلسلة الصحيحة، رقم: 1598
میت کی طرف سے حج کیا جاسکتا ہے
حدیث ۳۵
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ وَ قَالَ: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ، إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ وَإِنَّهَا مَاتَتْ ، قَالَ: فَقَالَ، وَجَبَ أَجْرُكِ ، وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاتُ ، قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ: صُومِي عَنْهَا ، قَالَتْ: إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ، أَفَأَحُجُ عَنْهَا؟ قَالَ: حُجِيْ عَنْهَا.
”اور سیدنا بریدہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ ﷺ کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا میں نے اپنی والدہ پر ایک لونڈی صدقہ کی تھی لیکن وہ (میری والدہ) فوت ہوگئی۔ راوی نے کہا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تجھے اجر ضرور ملے گا اور اس نے وہ لونڈی تجھے پر میراث کی صورت میں لوٹا دی ہے، پھر اس نے کہا اے اللہ کے رسول ! میری والدہ کے ذمے ایک ماہ کے روزے تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تو اس کی طرف سے روزے رکھ لے۔ پھر اس نے کہا : اس نے کبھی حج نہیں کیا، کیا میں اس کی طرف سے حج کرلوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اس کی طرف سے حج کر لے۔“
صحیح مسلم، کتاب الصيام، رقم: 2697 ، سنن أبوداؤد، رقم: 2877، سنن الترمذی، رقم: 667، سنن ابن ماجه، رقم:1759.
میت کی طرف سے صدقہ نکالنا
حدیث ۳۶
وَعَنْ عَائِشَةَؓ أَنَّ رَجُلا قَالَ لِلنَّبِيِّ : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ.
’’اور سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر اسے بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ ضرور صدقہ وخیرات کرتی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے اجر ملے گا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہاں۔“
صحيح البخارى كتاب الجنائز، رقم: 1388 ، صحیح مسلم، رقم: 1004، سنن ابن ماجه، رقم: 2717.
حدیث ۳۷
وَعَنْ سَعِدِ بنِ عُبَادَةَ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ: نَعَمْ ، قُلْتُ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: سَقَى الْمَاءِ.
’’اور سیدنا سعد بن عبادہؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! میری والدہ فوت ہو گئی ہے کیا میں اس کی طرف سے صدقہ کروں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہاں !، میں نے عرض کیا کہ کونسا صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : پانی پلانا۔“
سنن النسائی، کتاب الوصايا ، رقم: 3694
صدقہ جاریہ اور اچھے اثرات
قَالَ اللهُ تَعَالَى : إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ﴿١٢﴾ (يس : 12)
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ”بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انھوں نے آگے بھیجے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی اور جو بھی چیز ہے ہم نے اسے ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔“
حدیث ۳۸
وَعَنْ أَبِى هُرَيْرَةَؓ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنتَفَعُ بِه ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَه.
اور سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین اعمال کے سوا اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں
[1] صدقہ جاریہ
[2] ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں
[3] نیک وصالح اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔
صحيح مسلم، کتاب الوصية، رقم: 1631 ، سنن أبو داؤد، رقم: 2880
حدیث ۳۹
وعَنْهُؓ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ : إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ، وَمُصْحَفًا وَرَثَهُ ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَيْتًا لابن السَّبِيلِ بَنَاهُ ، أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ ، أَوْ صَدَقَةٌ أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ .
’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مومن آدمی کو وفات کے بعد جن اعمال وحسنات کا ثواب ملتا رہتا ہے ان میں وہ علم ہے جسے اس نے لوگوں کو سکھایا اور اس کی نشر واشاعت کی، نیک اولاد جسے وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا، قرآن جسے دوسروں کو سکھا کر اس کا وارث بنا گیا، وہ مسجد یا مسافر خانہ جسے تعمیر کرا گیا، ایسی نہر جسے وہ جاری کرا گیا اور وہ صدقہ جسے وہ اپنی زندگی میں صحت و تندرستی کی حالت میں نکالتا رہا۔ ان تمام اعمال کا ثواب اسے مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔“
سنن ابن ماجه ، المقدمة ، رقم : 242
حدیث ۴۰
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِهِ ، أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ نَذَرَ الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَنْحَرَ مِئَةَ بَدَنَةٌ ، وَأَنَّ هِشَامَ بْنَ الْعَاصِ نَحَرَ حِصَّتَهُ خَمْسِينَ بَدَنَةٌ ، وَأَنَّ عَمْرُوا سَأَلَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ: أَمَّا أَبُوكَ فَلَوْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ، فَصُمْتَ، وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ ، نَفْعَهُ ذَلِكَ.
’’اور عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت ہے کہ عاص بن وائل نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اونٹ نحر کرے گا۔ ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ نحر کر دیے۔ لیکن حضرت عمرو بن عاصؓ نے رسول الله ﷺ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تمہارا والد توحید کا اقرار کرتا پھر تو اس کی طرف سے روزے رکھتا اور صدقہ کرتا تو اسے ثواب ملتا۔“
مسند احمد : 182/2 ، مصنف ابن أبي شيبة : 386/3 ، 387، سنن أبوداؤد، رقم : 2883
وَصَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَى خَيْرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِيْنَ