مہر ادا کرنا واجب ہے خواہ لوہے کی انگوٹھی یا قرآن سکھانا ہی کیوں نہ ہو
تحریر: عمران ایوب لاہوری

مہر ادا کرنا واجب ہے خواہ لوہے کی انگوٹھی یا قرآن سکھانا ہی کیوں نہ ہو
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً [النساء: 4]
”عورتوں کو ان کے مہر راضی خوشی ادا کرو۔“
فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ اُجُورَهُنَّ فَرِيْضَةً [النساء: 24]
”جن عورتوں سے تم (شرعی نکاح کے بعد ) قائدہ اٹھاؤ انہیں ان کا مقررہ مہر ادا کرو۔“
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنْكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [الممتحنة: 10]
”ان عورتوں (جو کافر شوہروں کو چھوڑ کر آ گئیں) کو ان کے مہر دے کر ان سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں۔“
فَلا تَأخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا [النساء: 20]
”حق مہر (خواہ خزانہ ہو اس) میں سے کچھ واپس نہ لو ۔“
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب بیویوں اور بیٹیوں کو مہر دیا۔
[المغني: 98/10]
➏ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا:
أعطها شيئا
”اسے کچھ دو ۔ “
تو انہوں نے کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تیری حطمی زرع کہاں ہے؟ ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 1865 ، كتاب النكاح: باب فى الرجل يدخل بامرأته قبل أن ينقدها ، ابو داود: 2125 ، نسائي: 3375]
◈ حق مہر کے لیے نو (9) نام استعمال کیے جاتے ہیں۔
➊ صداق
➋ صدقہ
➌ مہر
➍ نحلة
➎ فريضة
➏ اجر
➐ علائق
➑ عقر
➒ حباء
[المغني لابن قدامة: 97/10]
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے خواہش مند ایک شخص سے کہا:
التمس ولو خاتما من حديد
”جاؤ تلاش کر کے لاؤ خواہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی ہو ۔ “
لیکن بسیار تلاش کے بعد کچھ نہ ملا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ تمہیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے؟ اس نے کہا ”ہاں، فلاں اور فلاں سورۃ ۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ملكتكها بما معك من القرآن
”میں نے تمہیں قرآن کی اُن سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں اس عورت کا مالک (یعنی شوہر ) بنا دیا ۔“
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
زوجتكها بما معك من القرآن
”میں نے تمہاری اس سے قرآن کی اُن سورتوں کے بدلے شادی کر دی جو تمہیں یاد ہیں ۔“
[بخاري: 5087 ، 5130 ، كتاب النكاح: باب تزويج المعسر ، مسلم: 1425 ، أحمد: 330/5 ، ابو داود: 2111 ، ترمذي: 1114 ، نسائي: 113/6 ، ابن ماجة: 1889 ، عبد الرزاق: 7592 ، حميدي: 928 ، ابن الجارود: 716 ، ابن حبان: 4093 ، طحاوي: 16/3 ، بيهقى: 144/7]
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی آزادی کو ہی ان کا مہر بنا دیا ۔
[بخاري: 5086]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا مہر بارہ اوقیہ (یعنی 480 درہم) اور ایک نش (نصف اوتی یعنی 20 درہم) تھا (اس طرح یہ کل 500 درہم ہوئے ) ۔
[مسلم: 1426 ، أحمد: 9316 ، ابو داود: 2205 ، نسائي: 116/6 ، ابن ماجة: 1886]
➍ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا بطور مہر دیا ۔
[صحيح: صحيح ابو داود: 1854 ، ابو داود: 2109]
➎ حضرت سعید بن مسیبؒ نے دو درہم (حق مہر ) کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔
[المغنى لابن قدامة: 99/10]
جس روایت میں ہے کہ ”بنو فزارہ کی ایک عورت نے نعلین (جوتیوں) کے عوض نکاح کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قرار دیا۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 413 ، كتاب النكاح: باب صداق النساء ، إرواء الغليل: 1966 ، ابن ماجة: 1888 ، ترمذي: 1113 ، أحمد: 445/3]
معلوم ہوا کہ مہر کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں جیسا کہ کم از کم کے متعلق گذشتہ احادیث اور بالخصوص پہلی حدیث اور زیادہ سے زیادہ کے متعلق قرآن کی یہ آیت:
وَآتَيْتُمُ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا
”اور تم نے ان عورتوں میں سے کسی کو خزانہ بھی (بطور مہر ) دیا ہو تو اس سے (طلاق کے وقت ) کچھ نہ لو ۔ “ شاہد ہے ۔
(احمدؒ ، شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ، امام حسنؒ ، حضرت سعید بن مسیبؒ ، امام ربیعہؒ ، امام اوزاعیؒ اور امام ثوریؒ کا بھی یہی موقف ہے۔
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ) کم از کم دس درہم یا اس کے برابر قیمت کے ساتھ مہر ادا کیا جائے گا۔
[المغنى: 99/10 ، بدائع الصنائع: 275/2 ، الأم: 223/7 ، نيل الأوطار: 250/4]
احناف وغیرہ کی دلیل یہ روایت ہے:
لا مهر أقل من عشرة درهم
”دس درہموں سے کم حق مہر نہیں ۔“
[دارقطني: 244/3 ، بيهقي: 133/7 ، نصب الراية: 196/3]
لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں دو راوی ضعیف ہیں۔ ایک تو حجاج بن ارطاۃ جو تدریس کی وجہ سے مشہور ہے اور دوسرا مبشر بن عبید جو متروک ہے جیسا کہ امام شوکانیؒ نے یہ وضاحت فرمائی ہے۔
[نيل الأوطار: 250/4]
نیز چونکہ یہ روایت خبر واحد ہے لٰہذا اگر یہ صحیح بھی ہو تب بھی احناف کے اپنے اصول و قواعد کے مطابق قرآن کے اطلاق :
أن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ [النساء: 24]
کی تقیید نہیں کر سکتی ۔
[البحر المحيط: 464/3 ، البرهان: 426/1 ، الإحكام للآمدى: 1/2 2 ، منهاج العقول: 166/2 ، التحصيل من المحصول: 390/1]
(شوکانیؒ ، ابن قدامہؒ) انہوں نے امام شافعیؒ کے موقف کو ترجیح دی ہے۔
[أيضا]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں ۔
[الروضة الندية: 75/2]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) یہی موقف رکھتے ہیں ۔
[تحفة الأحوذى: 262/4]
◈ واضح رہے کہ عوام الناس میں مشہور یہ بات کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر ایک عورت کے قرآن کی اس آیت:
وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا
کی وجہ سے اعتراض پر اپنے قول :
لا تغالوا فى صدقات النساء
”عورتوں کے مہر بہت قیمتی مت بناؤ ۔“
سے رجوع کر لیا اور باقاعدہ منبر پر اس کا اعلان کیا۔ انتہائی ضعیف و منکر ہے۔
[إرواء الغليل: تحت الحديث /1927 ، 347/6]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1