مہتمم کا شرعی پردہ نظرانداز کرنا: فتنے کی بنیاد؟
ماخوذ : فتاوی علمیہ (توضیح الاحکام)

مہتمم مدرسہ کی لڑکیوں کو پردہ نہ کرنے کی ترغیب: شرعی رہنمائی

سوال:

ہمارے علاقے میں ایک مولانا صاحب ہیں جو حال ہی میں ایک مدرسہ کے مہتمم مقرر ہوئے ہیں۔ اس مدرسے میں لڑکیاں اور معلمات بھی موجود ہیں۔ مذکورہ مہتمم نہ صرف معلمات بلکہ طالبات سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان کے سامنے بلا جھجک بیٹھا کریں، خاص طور پر جب وہ لڑکوں سے اجتماعی طور پر خطاب کرتے ہیں۔ ان کا اصرار ہوتا ہے کہ لڑکے، لڑکیاں، معلمین اور معلمات سب ایک ہی ہال میں جمع ہوں تاکہ وہ ایک ساتھ گفتگو کرسکیں۔

مہتمم صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ چونکہ وہ مہتمم ہیں، لہٰذا انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ لڑکیوں کی کلاسوں میں داخل ہو کر معلمات سے براہ راست گفتگو کریں۔ معلمات اس بات پر قطعی طور پر آمادہ نہیں ہیں کیونکہ نہ تو اس سے قبل کے کسی مہتمم نے ایسا کیا، اور نہ ہی شہر کے دیگر مدارس میں اس قسم کی روایت ہے۔

قابلِ افسوس امر یہ بھی ہے کہ مذکورہ مہتمم کو مدرسہ کے چیئرمین کی تائید بھی حاصل ہے، حالانکہ چیئرمین صاحب خود تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی تائید تبلیغی اصولوں کے سراسر منافی ہے۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ نئے مہتمم، چیئرمین صاحب کے داماد ہیں۔

مہتمم صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے پاس اس طرزِ عمل کے لیے احادیث سے دلائل موجود ہیں، لیکن معلمات، طالبات اور ان کے والدین سب ان کے ان اقدامات سے سخت نالاں ہیں۔ مہتمم صاحب دو بار خواتین کے ہال میں جا چکے ہیں اور وہاں موجود خواتین سے براہ راست گفتگو کر چکے ہیں، حالانکہ وہ خود جوان ہیں۔ وہ پردے کے اسلامی حکم کو صرف "انڈین، پاکستانی یا ایشین کلچر” قرار دے کر اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:

◈ کیا شرعاً ایسا طرزِ عمل درست ہے؟
◈ کیا ایسے اختلاط کی کوئی گنجائش موجود ہے؟
◈ کیا اسلام میں اس طرح کے ماحول کو اجازت دی جا سکتی ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پردے کا شرعی حکم:

اسلام میں پردہ ایک واضح شرعی حکم ہے، جو قرآن اور احادیث کے مضبوط دلائل سے ثابت ہے۔ پردے کو "ایشین کلچر” کہہ کر اس کی اہمیت گھٹانا نہایت سنگین گناہ اور شرعی حکم کا استخفاف (یعنی اس کی توہین) ہے۔ ایسے نظریات رکھنے والا مہتمم راہِ ہدایت سے بھٹکا ہوا اور گمراہ ہے۔

اہلِ محلہ، معلمات، طالبات اور ان کے والدین کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ:

✿ وہ ایسے شخص کو مزید اس طرزِ عمل سے باز رکھیں،
✿ اگر وہ اپنے موقف پر قائم رہے تو بچیوں کو اس مدرسے میں بھیجنے سے باز آ جائیں،
✿ کیونکہ یہ طرزِ عمل بڑے فتنے کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

قرآن مجید سے پردے کے واضح احکامات:

سورۃ الاحزاب کی آیت:

﴿يـٰأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزوٰجِكَ وَبَناتِكَ وَنِساءِ المُؤمِنينَ يُدنينَ عَلَيهِنَّ مِن جَلـٰبيبِهِنَّ ۚ ذٰلِكَ أَدنىٰ أَن يُعرَ‌فنَ فَلا يُؤذَينَ ۗ وَكانَ اللَّـهُ غَفورً‌ا رَ‌حيمًا ﴿٥٩﴾ … سورة الاحزاب

ترجمہ:
اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کریں، یہ اس کے زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں (کہ یہ پاکدامن آزاد عورتیں ہیں) اور انہیں ایذا نہ دی جائے۔ اور اللہ بڑا بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

سورۃ النور کی آیت:

﴿وَقُل لِلمُؤمِنـٰتِ يَغضُضنَ مِن أَبصـٰرِ‌هِنَّ وَيَحفَظنَ فُر‌وجَهُنَّ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا ما ظَهَرَ‌ مِنها ۖ وَليَضرِ‌بنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلىٰ جُيوبِهِنَّ ۖ وَلا يُبدينَ زينَتَهُنَّ إِلّا لِبُعولَتِهِنَّ أَو ءابائِهِنَّ أَو ءاباءِ بُعولَتِهِنَّ أَو أَبنائِهِنَّ أَو أَبناءِ بُعولَتِهِنَّ أَو إِخوٰنِهِنَّ أَو بَنى إِخوٰنِهِنَّ أَو بَنى أَخَوٰتِهِنَّ أَو نِسائِهِنَّ أَو ما مَلَكَت أَيمـٰنُهُنَّ أَوِ التّـٰبِعينَ غَيرِ‌ أُولِى الإِر‌بَةِ مِنَ الرِّ‌جالِ أَوِ الطِّفلِ الَّذينَ لَم يَظهَر‌وا عَلىٰ عَورٰ‌تِ النِّساءِ ۖ وَلا يَضرِ‌بنَ بِأَر‌جُلِهِنَّ لِيُعلَمَ ما يُخفينَ مِن زينَتِهِنَّ ۚ وَتوبوا إِلَى اللَّـهِ جَميعًا أَيُّهَ المُؤمِنونَ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ ﴿٣١﴾ … سورة النور

ترجمہ:
اور مومن عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو از خود ظاہر ہو جائے، اور وہ اپنی چادریں اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھا کریں۔ وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں، باپوں، شوہروں کے باپوں، بیٹوں، شوہروں کے بیٹوں، بھائیوں، بھائیوں کے بیٹوں، بہنوں کے بیٹوں، اپنی عورتوں، اپنی باندیوں، ایسے تابع مرد جو شہوت نہیں رکھتے، یا وہ بچے جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں ہوئے۔ اور نہ وہ زور سے پاؤں ماریں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت ظاہر ہو جائے۔ اور اے مومنو! تم سب اللہ کے حضور توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔

نتیجہ:

✿ پردہ واضح شرعی فریضہ ہے، جسے ثقافتی رنگ دینا گمراہی اور دین سے انحراف ہے۔
✿ کسی بھی شخص کو، چاہے وہ مہتمم ہو یا کسی اعلیٰ عہدے پر فائز، اسلامی حدود کی خلاف ورزی کا اختیار حاصل نہیں۔
✿ مدارس کا ماحول اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیے، نہ کہ شخصی خواہشات کے تابع۔
✿ والدین، اساتذہ، اور اہلِ محلہ کو چاہیے کہ وہ اس فتنے کا راستہ روکیں۔
✿ اگر اصلاح نہ ہو تو اپنے بچوں کی دینی و اخلاقی حفاظت کے لیے مدرسہ تبدیل کرنا جائز ہی نہیں، بلکہ لازمی ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1