مکلاوہ کی رسم بد
سوال : کیا مکلاوہ جائز ہے؟ یعنی شادی کے دوسرے دن ولیمے کے بعد لڑکی والوں کا لڑکی اور لڑکے کو چند دن کے لیے اپنے گھر لے جانا جائز ہے؟ قرآن وحدیث سے وضاحت کریں۔
جواب : ایک مسلمان کے لیے زندگی گزارنے کا نمونہ و اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، آپ کی سیرت ہمارے لیے ہر مسئلہ میں راہنمائی کا کام دیتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی شادیاں بھی کیں اور اپنی بیٹیوں کی بھی۔ مکلاوے کا جو رواج ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں، لڑکی اور لڑکا شادی کے بعد اپنی مرضی سے جب چاہیں اپنے سسرال یا عزیز و اقارب کو ملنے جائیں، دونوں کی کوئی قید قرآن و حدیث میں نہیں۔ سلف صالحین سے بھی اس طرح شادی کے دوسرے دن ہی لڑکی کو لے جانا ثابت نہیں۔ یہاں صرف ایک واقعہ باعثِ نصیحت درج کرتے ہیں کہ امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ جو اہلِ مدینہ میں سے بڑے عالم اور سید التابعین میں شمار ہوتے ہیں، ان کی بیٹی کا رشتہ خلیفہ عبد الملک نے اپنے بیٹے ولید کے لیے طلب کیا جو انہوں نے دینے سے انکار کر دیا اور انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے ایک شاگرد کثیر بن المطلب بن ابی وداعہ سے کی۔ ابن ابی وداعہ کا بیان ہے کہ میں سعید بن المسیب رحمہ اللہ کے پاس جایا کرتا تھا کہ کچھ دن میں ان کی مجلس میں حاضر نہ ہوا جب دوبارہ ان کی مجلس میں گیا تو انہوں نے پوچھا: ”تم کہاں تھے ؟“ میں نے کہا: ”میری اہلیہ فوت ہو گئی تھی اس وجہ میں سے کچھ مصروف ہو گیا۔“ امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرمانے لگے : ”تم نے ہمیں خبر کیوں نہ دی، ہم اس کے جنازے میں شرکت کرتے۔“ پھر فرمانے لگے : ”کیا تم نے کسی نئی عورت سے شادی کی ہے ؟“ میں نے کہا: ”اللہ آپ پر رحم کرے مجھے کون رشتہ دے گا، میں تو صرف دو یا تین درہموں کا مالک ہوں۔“ امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے کہا: ”میں تمہیں رشتہ دوں گا۔“ میں نے کہا: ”آپ ایسا کریں گے ؟“ انہوں نے کہا: ”ہاں !“ پھر انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھا اور مجھ سے دو یا تین درہم حق مہر کے عوض اپنی بیٹی کا نکاح کر دیا، میں اٹھا اور فرط مسرت کی وجہ سے مجھے کوئی کام نہ سوجھا، میں اپنے گھر گیا اور سوچنے لگا کہ کس سے قرض لوں۔ میں نے مغرب کی نماز ادا کی اور گھر لوٹا اور اکیلا ہی روزے کی حالت میں تھا، میں نے اپنا روزہ روٹی اور زیتون سے افطار کیا تو میرے دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے کہا: ”کون ؟“ اس نے کہا: ”سعید“ میں ہر اس شخص کے بارے میں سوچنے لگا جس کا نام سعید تھا، سوائے سعید بن المسیب رحمہ اللہ کے، اس لیے کہ سعید بن المسیب رحمہ اللہ چالیس سال سے اپنے گھر اور مسجد کے درمیان ہی دیکھے گئے تھے۔ میں باہر نکلا تو سعید بن المسیب رحمہ اللہ کھڑے تھے، میں نے کہا: اے ابومحمد ! (سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی کنیت) آپ مجھے پیغام بھیج دیتے، میں خود حاضر ہو جاتا، تو انہوں نے کہا: ”نہیں تم زیادہ حق رکھتے ہو کہ تمہارے پاس آیا جائے، تم اکیلے آدمی تھے، میں نے تمہارے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کی ہے اور میں نے ناپسند کیا کہ تم اکیلے رات بسر کرو، یہ تمہاری بیوی ہے۔“ وہ ان کے پیچھے کھڑی تھی۔ پھر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر دروازے کے اندر کر دیا، اور دروازہ بند کر دیا عورت شرم و حیا کا پتلا تھی، میں نے دروازہ بند کیا پھر پیالہ چراغ کے سائے تلے رکھ دیا تا کہ وہ اسے نہ دیکھ سکے، پھر میں گھر کی چھت پر چڑھ گیا، پڑوسیوں کو بلایا، وہ آگئے، کہنے لگے : ”تمہاری کیا حالت ہے ؟“ میں نے انہیں بتایا تو وہ اس کے پاس آئے اور میری ماں کو بھی خبر پہنچ گئی وہ آئیں، کہنے لگیں : ”میرا چہرہ تیرے چہرے پر حرام ہو اگر تم اس کے قریب جاؤ تا وقتیکہ میں تین دن اس کا امتحان نہ لے لوں۔“ میں تین دن رکا رہا پھر اس کے پاس گیا۔ وہ تمام لوگوں سے زیادہ حسینہ و جمیلہ اور سب سے زیادہ قرآن کی حافظہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عالمہ اور سب سے زیادہ خاوند کے حق کو پہچاننے والی تھی، پھر میں ایک ماہ تک سعید بن المسیب رحمہ اللہ کے ہاں نہ گیا، ایک ماہ بعد جب ان کے پاس گیا تو وہ اپنے حلقہ درس میں تھے، میں نے سلام کیا انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور اختتام مجلس تک کوئی بات نہ کی۔ جب میرے علاوہ سب چلے گئے تو انہوں نے کہا: ”اس انسان کا کیا حال ہے ؟“ میں نے کہا: بہت اچھا، اے ابومحمد ! جسے دوست پسند کرتا ہے اور دشمن نا پسند کرتا ہے۔ کہنے لگے : اگر تمہیں کوئی چیز نا پسند لگے تو لاٹھی سے کام لو۔ میں اپنے گھر واپس آ گیا، انہوں نے میرے پیچھے 20 ہزار درہم بھیجے۔ [حلية الاولياء : 167/2، 168 سير اعلام النبلاء233/4، 234]
امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ کے اس واقعہ سے پتا چلتا ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر رسم و رواج کا سلف صالحین کے ہاں کوئی تصور نہ تھا۔ بارات، جہیز، مکلاوہ، سہرے گانے اور ڈھول وغیرہ سب ہندوانہ رواج ہیں، جو برصغیر پاک و ہند میں مسلم و ہندو اختلاط کی وجہ سے پھیل چکے ہیں۔ ہمیں ہر قسم کی رسم و رواج اور بدعات و فرافات سے اپنے ماحول کو پاک و صاف رکھنا چاہیے۔ امام سعید بن المسیب رحمہ اللہ کی بیٹی کی شادی ایک بادشاہ کے بیٹے کے بجائے ایک دیندار شخص سے ہوئی اور شادی دوسرے دن بیٹی کو لینے نہیں چلے گئے تھے بلکہ ان کا داماد ایک ماہ بعد اکیلا حاضر خدمت ہو رہا ہے۔ بہرکیف شادی کے بعد لڑکی اور لڑکا باہمی رضا مندی سے جب چاہیں آ جا سکتے ہیں، دوسرے دن جانا رسم ہے اس کو توڑنا چاہیے۔