مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا: قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ مبشر احمد ربانی کی کتاب احکام و مسائل کتاب و سنت کی روشنی میں سے ماخوذ ہے۔

سوال :

مونچھوں والے شخص کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے؟ اس طرح داڑھی کتنی رکھنی چاہیے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم چاہیے، ایک مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ داڑھی صرف ایک مٹھی رکھنی چاہیے، اس سے کم نہ ہو، زیادہ ثواب ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔

جواب :

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس خصلتیں فطرت میں سے ہیں، جن میں سے مونچھیں تراشنا اور داڑھی بڑھانا بھی ہے۔
(مسلم کتاب الطهارة باب خصال الفطرة ح 261)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مشرکوں کی مخالفت کرو، داڑھی کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو پست کرو۔“
اور ایک روایت میں ہے:
”داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو اچھی طرح کاٹو۔“
(بخاری کتاب اللباس باب تعظيم الأظفار ح 5892، 5893، مسلم کتاب الطهارة باب خصال الفطرة ح 259/54)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے کہا: ”اے اللہ کے رسول! اہل کتاب داڑھیوں کو کاٹتے اور مونچھوں کو چھوڑتے ہیں؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔“
(مسند احمد 265/5، 264 ح 22639)
مندرجہ بالا تین احادیث سے معلوم ہوا کہ مونچھیں کاٹنا یا پست کرنا اور داڑھی بڑھانا فطرت اسلام میں داخل ہے اور داڑھی کاٹنا، مونچھیں بڑھانا فطرت اسلامی کو بدلنا اور اہل کتاب یہود و نصاریٰ کی علامت ہے۔ لہذا جو شخص مونچھیں بڑھاتا ہے، کاٹتا نہیں وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتا ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت عذاب الیم کو دعوت دینے کے مترادف ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾
(النور:63)
پس جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آفت آن پڑے، یا ان پر کوئی درد ناک عذاب اترے۔
باقی رہا داڑھی کی مقدار کا مسئلہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور اس کے متعلق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچ الفاظ مروی ہیں، امام نووی رحمہ اللہ نے رقمطراز ہیں:
”پانچ روایات مروی ہیں واعفوا، أو أوفوا، أرجوا، أرخوا، أوفروا ان سب کا معنی یہ ہے کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دو، اس حدیث کے ظاہری الفاظ اسی بات کا تقاضا کرتے ہیں۔“ (شرح مسلم)
لہذا جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی بڑھانے کا حکم دیا ہے اور اسے کاٹنا اہل کتاب کی علامت بنایا ہے تو داڑھی کو اس کے حال پر چھوڑ دینا ہی مشائے نبوی ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، آپ کے فرمان کے ہوتے ہوئے کسی دوسری بات کی طرف توجہ کرنا درست نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے