ادھر دیکھو، تمام موبائل کمپنیوں کے نائٹ پیکج بھی انہی تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بدولت چل رہے ہیں۔ یہ لوگ کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے تو جیسے بنے ہی نہیں ہیں۔
شرم کی بات ہے! کبھی سینما یا تھیٹر کا رخ بھی کر لیا کرو، ہمیشہ مسجد اور منبر کے گرد ہی چکر لگاتے رہتے ہو۔ خالق نے اتنی حسین برہنہ جسموں والی مورتیاں بنایا ہیں، کیا یہ محض جانوروں کے دیکھنے کے لیے ہیں؟ اگر مرد ان پر نظر نہ ڈالیں تو ان آبگینوں کا کیا فائدہ؟!
پرانے خیالات اور روایات کے گڑھ میں تو مقیم ہو ہی، اور فیشن بھی ہمیشہ پرانا ہی اپنا رکھا ہے۔ ان کے ہاتھ میں کبھی وائن شینڈی یا ووڈکا تو نظر نہیں آتی، بس مسواک منہ میں اور شلوار گھٹنوں تک چڑھی ہوئی۔
یہ بھولے لوگو، آج کل کا فیشن تو کچھ اور ہے! ایک عدد سگریٹ منہ میں، لمبی مونچھیں، صاف داڑھی اور شلوار زمین پر گھسٹتی ہوئی۔ سمجھتے ہیں کہ یہ ہی دانشمندی ہے! استاد کو اتنی عزت دیتے ہیں جیسے وہ کوئی دوسرے جہان سے آیا ہوا ہو۔ ارے بھائی، وہ بھی ہمارے جیسا انسان ہے، اس میں ایسی کیا خاص بات ہے؟
دوسری طرف ماں باپ بھی ترستے رہتے ہیں کہ کبھی ہمارا بیٹا بھی جوان ہو اور کسی کی بیٹی سے تعلق بنائے۔ مگر مجال ہے کہ یہ صاحب کبھی جوان ہو جائیں!
میرا دل جلتا ہے کہ ان مولوی حضرات کو اخلاق سکھانے کے لیے تعلیم یافتہ لوگ تھک گئے ہیں، لیکن یہ بیچارے اتنے ڈھیٹ ہیں کہ جیسے ان کے آباؤ اجداد نے بھی اخلاق سے بھاگنے کی قسم کھا رکھی ہو۔
اے فیس بک کے دانشوروں! خدا کے واسطے انہیں سمجھاؤ کہ یہ "اخلاق” ہی سب کچھ ہے، اس کے بغیر نہ زندگی کا لطف ہے، نہ رونق۔ اور یہ عزت کی فکر بھی چھوڑ دو، اب دنیا میں یہ صرف تمہارے یہاں ہی رہ گئی ہے۔ "اہل علم و دانش” تو اس عزت پر کب کے فاتحہ پڑھ چکے ہیں۔