موزوں پر مسح کا حکم احادیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

موزوں پر مسح کا کیا حکم ہے؟

جواب:

موزوں پر مسح جائز ہے، بشرطیکہ باوضو پہنے ہوں۔ اس پر متواتر احادیث اور امت کا اجماع دلیل ہیں۔
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
روى عن النبى صلى الله عليه وسلم المسح على الخفين نحو أربعين من الصحابة واستفاض وتواتر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے موزوں پر مسح کرنا تقریباً چالیس صحابہ نے روایت کیا ہے، پھر یہ عمل متواتر منقول ہوا۔
(التمہید: 11/137)
❀ علامہ ابن مازہ حنفی رحمہ اللہ (616ھ) فرماتے ہیں:
يجب أن يعلم بأن المسح على الخفين جائز عند عامة العلماء بآثار مشهورة قريبة من التواتر
یہ بات معلوم ہونا ضروری ہے کہ موزوں پر مسح کرنا علماء کے نزدیک جائز ہے، اس پر قریب قریب متواتر احادیث ہیں۔
(المحیط البرہانی: 1/166)
❀ حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (702ھ) فرماتے ہیں:
قد اشتهر جواز المسح على الخفين عند علماء الشريعة، حتى عد شعارا لأهل السنة، وعد إنكاره شعارا لأهل البدع
علمائے شریعت کے نزدیک موزوں پر مسح کرنا اس قدر مشہور ہے کہ یہ اہل سنت کا شعار بن چکا ہے اور اس کا انکار کرنا اہل بدعت کا شعار بن چکا ہے۔
(إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام: 1/113)
❀ علامہ عبد القادر حنفی رحمہ اللہ (775ھ) فرماتے ہیں:
جاءتني مثل ضوء النهار يعني الأدلة الساطعة من الكتاب، فإن آية الوضوء مبهمة مجملة باعتبار القراءتين وقد بينها النبى صلى الله عليه وسلم بغسل الرجلين حال كشفهما ومسحهما وقت لبسهما وكادت الآثار فى المسح أن تتواتر بل قد تتواتر معنى لكثرة طرقه ورواته
مجھے قرآن کے روز روشن کی طرح واضح دلائل معلوم ہیں، کیونکہ آیت وضو کا معنی دو قراءات کے اعتبار سے مجمل ہے، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں واضح کیا کہ جب پاؤں کھلے تھے، تو انہیں دھویا اور جب پاؤں میں موزے پہنے تھے، تو ان پر مسح کیا۔ مسح کے بارے میں احادیث متواتر کے قریب ہیں، بلکہ معنوی طور پر متواتر ہیں، کیونکہ اس کی سندیں اور رواۃ بکثرت ہیں۔
(الجواهر المضیئة: 1/470)
❀ علامہ ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ (974ھ) فرماتے ہیں:
جواز مسح الخفين وهو إجماع من يعتد به، وما ورد عن بعض الأئمة مما يخالف ذلك مؤول وقد روى المسح عليهما نحو ثمانين صحابيا، ومن ثمة قال بعض الأئمة: إن أحاديثه متواترة، وأخشى أن يكون إنكاره كفرا
موزوں پر مسح کے جواز پر معتمد علماء کا اجماع ہے، بعض ائمہ سے جو اس کی مخالفت مروی ہے، تو اس کی تاویل کی جائے گی۔ موزوں پر مسح کا جواز تقریباً اسی (80) صحابہ نے نقل کیا ہے، اسی وجہ سے بعض ائمہ نے کہا ہے کہ اس بارے میں متواتر احادیث ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ اس کا انکار کفر ہو۔
(أشرف الوسائل: ص 136)
❀ علامہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ (1014ھ) فرماتے ہیں:
قد تواتر عند أهل السنة حديث المسح على الخفين فى الحضر والسفر
اہل سنت والجماعت کے نزدیک سفر و حضر میں موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں حدیث متواتر ہے۔
(جمع الوسائل: 1/128)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے