مودودی صاحب اپنے عقائد ونظریات کے آئینہ میں
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب ( متوفی : ۲۲ ستمبر، ۱۹۷۹ء) عمومی طور پر اہل سنت میں سے نہیں تھے ۔ بہت سارے معاملات ایسے ہیں، جن میں آپ نے اہل سنت کے عقائد ونظریات سے انحراف کیا حتی کہ عقیدے کے باب میں ایسے بھٹکے کہ معتزلہ اور بسا اوقات جہمیہ کی صف میں نظر آتے ہیں ۔ عقیدہ اسماء وصفات ،عقیدہ توحید کی اساس اور بنیاد ہے۔ موصوف نے اس باب میں خطا کھائی ہے۔ انبیائے کرام کی جناب میں سوئے ادبی بھی مولانا کے حصے میں آئی، نیز صحابہ کرام پر کرم فرمائی تو سب کے سامنے ہی ہے، حدیث کی تصحیح و تضعیف کا منبج بھی محدثین والا نہیں ہے، بلکہ بہت حد تک عقل پرستی پر مبنی ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اہل سنت کا اصل منہج سلف صالحین پر کامل اعتماد ہے ، عقائد ہوں ، نظریات ہوں، اعمال ہوں یا اصول، ہر معاملہ میں سلف کے قدم پر قدم رکھنے کا نام ہی منبج اہل سنت ہے۔ اسلام ہر زمانے میں موجود رہا ہے ، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اسلام بعض زمانوں میں موجود رہے، پھر دوسرے بعض زمانوں میں غائب ہو جائے ، ہر گز نہیں، بلکہ وہ اپنی اصل صورت احوال کے ساتھ ہر زمانے کے لوگوں کے لئے مشعل راہ بنا رہا ہے اور سلف صالحین اس پر چلتے رہے ہیں، لیکن مولانا مودودی صاحب نے سلف کی راہوں کو ٹھکرا کر اپنی نئی راہیں ایجاد کیں اور جادۂ حق سے بھٹک گئے ، ذیل میں آپ کے چند ایک نظریات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، ملاحظہ ہوں ۔
اسما و صفات میں ٹھوکریں
اسما و صفات کا باب مسلمانوں کے عقیدے کا اہم حصہ ہے، مولانا مودودی نے اس باب میں بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں۔ ذیل میں نو ایسے مقامات دیے جارہے ہیں، احباب ان کا مطالعہ کر لیں:
◈مولانا مودودی صاحب (الرحمن الرحيم) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’اس کی مثال ایسی ہے، جیسے ہم کسی شخص کی فیاضی کے بیان میں ’’سخی‘‘ کا لفظ بول کر جب تشنگی محسوس کرتے ہیں، تو اس پر ’’داتا‘‘ کا اضافہ کرتے ہیں۔ رنگ کی تعریف میں جب ’’گورے‘‘ کو کافی نہیں پاتے تو اس پر ’’چھٹے‘‘ کا لفظ اور بڑھا دیتے ہیں ۔ درازئی قد کے ذکر میں جب ’’لمبا‘‘ کہنے سے تسلی نہیں ہوتی ، تو اس کے بعد ’’تڑنگا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ‘‘
🌿(تفہیم القرآن: 44/1)
مولانا (الرَّحِیم) کو ایک مہمل لفظ باور کروا ر ہے ہیں ، جس کا کوئی معنی مفہوم ہی نہ ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر اپنے دو اسماء کو جمع کیا ہے، ان میں سے ایک مقام یہ بھی ہے ۔ (الرَّحْمنِ) فعلان کے وزن پر ہے، یہ وزن کسی چیز کی وسعت کو ظاہر کرنے کے لئے لایا جاتا ہے۔ ﴿الرحمن) کا معنی جس کی رحمت بہت وسیع ہو۔ (الرّحِیم) فعیل کے وزن پر ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ انتہائی مہربان ہے، ہر ایک نام کی الگ الگ دلالت ہے، یہاں گورے چٹے والی کوئی بات نہیں۔
◈(ثم استوى على العرش) کا یوں ترجمہ کرتے ہیں:
’’پھر تخت حکومت پر جلوہ گر ہوا۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن : 282/2)
یه ترجمه قرآن و سنت اور اجماع کے خلاف ہے۔ قرآن، حدیث، اجماع اور فطرت سے ثابت ہے کہ رحمن اپنے عرش پر بلند ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی پہلے عرش پر حکومت نہیں تھی ؟
◈رہا یہ ارشاد کہ خدا کا عرش پہلے پانی پر تھا ، تو اس کا مفہوم ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خدا کی سلطنت پانی پر تھی ۔
🌿(تفہیم القرآن : 325/2)
یہ واضح تاویل اور تحریف ہے۔ علمائے حق میں سے کوئی بھی یہ مراد بیان نہیں کرتا، قرآن وسنت کی وہی تعبیریں اور مفاہیم معتبر ہیں ، جو صحابہ اور ائمہ سلف سے ثابت ہیں۔
حافظ ابن الجوزی رحمتہ اللہ (۵۹۷ھ) لکھتے ہیں :
إجماع السلف منعقد على أن لا يزيدوا على قراءة الآية، وقد شذ قوم فقالوا : العرش بمعنى الملك، وهذا عدول عن الحقيقة إلى التجوز، مع مخالفة الأثر، ألم يسمعوا قوله عز وجل وكان عرشه على الماء أتراه كان الملك على الماء؟
’’سلف صالحین کا اجماع ہے کہ آیت کی قرآت پر زیادتی نہ کی جائے ، بعض لوگوں نے شذوذ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عرش کا معنی بادشاہت ہے۔ یہ حقیقت سے مجاز کی طرف عدول ہے، نیز حدیث کی بھی مخالفت ہے۔ کیا انہوں نے فرمان باری تعالیٰ: ﴿وكان عرشه على الماء﴾ اس کا عرش پانی پر تھا ۔ انہیں سنا؟ کیا اللہ کی ملکیت (بادشاہت) پانی پرتھی ؟‘‘
🌿(زاد المسير : 213/3)
’’خالق بذات خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن : 590/2)
جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق خبر دی ہے کہ وہ عرش پر بلند ہے۔
کسی بچے سے پوچھا جائے کہ اللہ کہاں ہے؟ تو وہ اوپر کو اشارہ کرے گا یا زبان سے کہے گا : ’’اوپر ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے بارے میں بھی یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی خاص مقام پر رہتا ہے، کیوں کہ اس کی ذات زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے۔
🌿(تفہیم القرآن : 87/6)
’’اور ذات باری تعالیٰ کا جو تصور ہم کو قرآن مجید میں دیا گیا ہے، وہ بھی یہ خیال کرنے میں مانع ہے کہ وہ جسم اور جہت اور مقام سے منزہ ہستی کسی جگہ متمکن ہو اور کوئی مخلوق اسے اٹھائے ۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن : 41/6)
اہل سنت صفات باری تعالیٰ کے بارے میں محتاط رہتے ہیں۔ وہ اس باب میں نصوص کو ان کے ظاہری معنی پر رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے متعلق جو خبر دی ہے، اسے ثابت مانتے ہیں، جس کی نفی کی ہے، اس سے نفی کرتے ہیں۔ جس سے سلف نے سکوت اختیار کیا، ہم بھی اس میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ مالٹے (۷۲۸ ھ) فرماتے ہیں:
حقيقة الأمر في المعنى أن ينظر إلى المقصود، فمن اعتقد أن المكان لا يكون إلا ما يفتقر إليه المتمكن، سواء كان محيطا به أو كان تحته فمعلوم أن الله سبحانه ليس في مگان بهذا الاعتبار، ومن اعتقد أن العرش هو المكان، وأن الله فوقه، مع غناه عنه، فلا ريب أنه في مكان بهذا الاعتبار، فمما يجب نفيه بلا ريب افتقار الله إلى ما سواه، فإنه سبحانه غني عن ما سواه، وكل شيء فقير إليه، فلا يجوز أن يوصف بصفة تتضمن افتقاره إلى ما سواه .
’’حقیقت یہ ہے کہ مقصد کو دیکھا جائے گا۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ مکان اسے کہتے ہیں ، جس کا رہنے والا محتاج ہوتا ہے، گو وہ مکان اسے گھیرے ہوئے ہو یا اس کے نیچے ہو ، تو ظاہر ہے اللہ تعالیٰ اس اعتبار سے کسی مکان میں نہیں ہے ۔ جس کا عقیدہ یہ ہو کہ عرش ایک مکان ہے اور اللہ اس کے اوپر بلند ہے، اس کا محتاج نہیں ہے، تو اس اعتبار سے بلا شبہ اللہ تعالیٰ مکان میں ہے۔ لہذا جس چیز کی نفی کرنا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کا محتاج نہیں، ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ اسے کسی ایسی صفت سے متصف کرنا جائز نہیں ، جس سے اس کا محتاج ہونا لازم آئے ۔‘‘
🌿(درء تعارض العقل والنقل : 249/6)
نیز فرماتے ہیں:
لكن قياس الله الخالق لكل شيء الغني عن كل شيء الصمد الذي يفتقر إليه كل شيء بالمخلوقات الضعيفة المحتاجة عدل لها برب العالمين ومن عدلها برب العالمين فإنه في ضلال مبين .
لیکن اللہ تعالی ، جو سب کا خالق ، سب سے غنی اور ایسا بے پرواہ ہے کہ ہر چیز اس کی محتاج ہے، اس کو محتاج اور کمزور مخلوقات پر قیاس کرنا مخلوق کو رب العالمین کے برابر کرنے کے مترادف ہے اور جو مخلوق کو رب العالمین کے برابر کرے ، وہ واضح گمراہی میں ہے ۔
🌿(بیان تلبيس الجهمية : 622/3)
علامہ ابن قیم رحمتہ اللہ (۷۵۱ ھ ) لکھتے ہیں :
استواؤه وعلوه على عرشه سلام من أن يكون محتاجا إلى ما يحمله أو يستوي عليه بل العرش محتاج إليه وحملته محتاجون إليه فهو الغني عن العرش وعن حملته وعن كل ما سواه فهو استواء وعلو لا يشوبه حصر ولا حاجة إلى عرش ولا غيره ولا إحاطة شيء به سبحانه وتعالى بل كان سبحانه ولا عرش ولم يكن به حاجة إليه وهو الغني الحميد بل استواؤه على عرشه واستيلاؤه على خلقه من موجبات ملكه وقهره من غير حاجة إلى عرض ولا غيره بوجه ما ونزوله كل ليلة إلى سماء الدنيا سلام مما يضادما علوه وسلام مما يضاد غناه وكماله سلام من كل ما يتوهم معطل أو مشبه وسلام من أن يصير تحت شيء أو محصورا في شيء تعالى الله ربنا عن كل ما يضاد كماله وغناه وسمعه وبصره سلام من كل ما يتخيله مشبه أو يتقوله معطل وموالاته لاولیائہ، سلام من أن تكون عن ذلك كما يوالي المخلوق المخلوق، بل هي موالاة رحمة وخير وإحسان وبر .
اللہ تعالیٰ کا مستوی ہونا اور اپنے عرش پر بلند ہونا اس سے پاک ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی اٹھانے والے کا محتاج ہو ، یا جس چیز پر بلند ہے، اس کا محتاج ہو، بلکہ عرش اور حاملین عرش اس کے محتاج ہیں ، اللہ تعالی عرش، حاملین عرش اور ہر غیر سے غنی ہے۔ یہ استوا اور علوایا ہے، جس میں کوئی محصور چیز ملی نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کو عرش یا کسی اور چیز کی حاجت نہیں اور نہ اسے کوئی چیز محیط ہے، بلکہ ایک وقت اللہ تعالیٰ تھا، لیکن عرش نہیں تھا اور نہ ہی اسے عرش کی حاجت تھی۔ وہ غنی اور بزرگ ہے۔ اس کا عرش پر مستوی ہونا اور اپنی مخلوق پر بلند ہونا اس کی بادشاہت اور قہر کے موجبات میں سے ہے، جسے کسی صورت بھی عرض (اہل کلام کی اصطلاح ہے، جس کا معنی ہے کہ جو کسی ذات کے ساتھ قائم ہو، بذات خود قائم نہ ہو۔ از ناقل ) وغیرہ کی ضرورت نہ ہو ۔ اس کا ہر رات نزول اس کے علو غنی اور کمال کے مخالف نہیں ہے ۔ اسی طرح معطل اور مشہہ کے جملہ اوہام سے بھی پاک ہے۔ اس سے بھی پاک ہے کہ باری تعالیٰ کسی چیز کے ماتحت ہو یا کسی چیز میں محصور ہو جائے ۔ ہمارا رب ہر اس نقص سے پاک ہے، جس اس سے کمال غنی سمع اور بصر کے مخالف ہو۔ باری تعالیٰ مشیبہ کے خیالات اور معطلہ کے اختراعات سے پاک ہے۔ اس کا اپنے اولیا سے محبت وموالات مخلوق کے مخلوق کے ساتھ محبت کی طرح نہیں ہے، بل کہ یہ محبت رحمت، خیر ، احسان اور نیکی کی وجہ سے ہے ۔
🌿(بدائع الفوائد : 136/2)
صفت ید (اللہ تعالیٰ کے لئے ہاتھ) کا اثبات اہل سنت اور جہمیہ کے مابین ایک معرکۃ الاراء مسئلہ رہا ہے، جبکہ مودودی صاحب اس کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’اس کے ہاتھ میں اقتدار‘‘ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ جسمانی ہاتھ رکھتا ہے، بلکہ لفظ محاورہ کے طور پر ’’قبضہ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی کی طرح ہماری زبان میں بھی جب یہ کہتے ہیں کہ اختیارات فلاں کے ہاتھ میں ہیں ، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہی سارے اختیارات کا مالک ہے، کسی دوسرے کا اس میں دخل نہیں ہے ۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن : 41/6)
نیز لکھتے ہیں:
’’دونوں ہاتھوں کے لفظ سے غالبا اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نئی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کے دو اہم پہلو پائے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسے جسم حیوانی عطا کیا گیا ، جس کی بنا پر وہ حیوانات کی جنس میں سے ایک نوع ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے اندروہ روح ڈال دی گئی، جس کی بنا پر وہ اپنی صفات میں تمام ارضی مخلوقات سے اشرف وافضل ہو گیا۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن: 348/4)
علمائے اہل سنت اس کا رد کرتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ کی طرف منسوب ہے:
له يد ووجه ونفس كما ذكره الله تعالى في القرآن، فما ذكره الله تعالى فى القرآن من ذكر الوجه واليد والنفس فهو له صفات بلا كيف ولا يقال : إن يده قدرته أو نعمته لأن فيه إبطال الصفة وهو قول أهل القدر والاعتزال ولكن يده صفته بلا كيف.
’’اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ، چہرہ اور نفس ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ذکر کیا ہے۔ چہرے، ہاتھ اور میں سے جو رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کیا ہے، وہ اس کی صفات ہیں ، جس کی نہ کیفیت بیان کی جاسکتی ہے اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے ہاتھ سے مراد قدرت یا نعمت ہے، کیوں کہ اس سے صفت کا بطلان لازم آتا ہے، جو کہ قدریہ اور معتزلہ کا عقیدہ ہے، بلکہ ہاتھ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، جس کی کیفیت معلوم نہیں ۔‘‘
🌿(الفقه الأكبر، ص 27)
نیز کہتے ہیں:
لا يوصف الله تعالى بصفات المخلوقين، وغضبه ورضاه صفتان من صفاته بلا كيف وهو قول أهل السنة والجماعة وهو يغضب ويرضى ولا يقال : غضبه عقوبته ورضاه ثوابه ونصفه كما وصف نفسه أحد صمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد حي قيوم قادر سميع بصير عالم، يد الله فوق أيديهم ليست كأيدي خلقه وليست جارحة، وهو خالق الأيدي ووجهه ليس كوجوه خلقه وهو خالق كل الوجوه ونفسه ليست كنفس خلقه وهو خالق كل النفوس ليس كمثله شيء وهو السميع البصير .
’’اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی صفات سے متصف نہیں کیا جائے گا۔ غضب اور رضا دونوں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ، ان کی کیفیت بیان نہیں کی جائے گی، یہ اہل سنت کا منہج ہے۔ اللہ تعالیٰ غصے ہوتے ہیں اور راضی بھی ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ اللہ کے غضب سے مراد اس کی عقوبت اور رضا سے مراد اس کا ثواب ہے۔ ہم اللہ کی وصف ایسے بیان کریں گے جیسے اللہ أحد صمد صمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد حي قيوم قادر سميع بصير عالم نے اپنا وصف بیان کیا ہے۔ ﴿يد الله فوق أيديهم) اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے۔ اللہ کا ہاتھ مخلوق کے ہاتھوں کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی کوئی عضو جسمانی ہے، وہ تو سب ہاتھوں کا خالق ہے۔ اسی طرح اس کا چہرہ مخلوق کے چہروں کی طرح نہیں ہے ، وہ تو سب چہروں کا خالق ہے۔ اس کا نفس (ذات) مخلوق کے نفسوں کی طرح نہیں ہے، وہ تو سب نفسوں کا خالق ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے : (ليس كمثله شيء وهو السميع البصير) ’’اس کی مثل کوئی شے نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے ۔‘‘
🌿(الفقه الأكبر، ص 161)
خطیب ابوبکر بغدادی رحمتہ اللہ (۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:
أما الكلام في الصفات، فإن ما روي منها في السنن الصحاح، مذهب السلف إثباتها وإجراؤها على ظواهرها، ونفي الكيفية والتشبيه عنها، وقد نفاها قوم، فأبطلوا ما أثبته الله، وحققها قوم من المثبتين، فخرجوا في ذالك إلى ضرب من التشبيه والتكييف، والقصد إنما هو سلوك الطريقة المتوسطة بين الأمرين، ودين الله تعالى بين الغالي فيه والمقصر عنه، والأصل في هذا أن الكلام في الصفات فرع الكلام في الذات، ويحتذى في ذلك حدوه ومثاله، فإذا كان معلوما أن إثبات رب العالمين إنما هو إثبات وجود لا إثبات كيفية، فكذالك إثبات صفاته إنما هو إثبات وجود لا إثبات تحديد وتكييف . فإذا قلنا : لله يد وسمع وبصر، فإنما هي صفات أثبتها الله لنفسه، ولا نقول : إن معنى اليد القدرة، ولا إن معنى السمع والبصر العلم، ولا نقول : إنها جوارح ولا نشبهها بالأيدي والأسماع والأبصار التي هي جوارح وأدوات للفعل، ونقول : إنما وجب إثباتها لأن التوقيف ورد بها، ووجب نفي التشبيه عنها لقوله : (ليس كمثله مي ء﴾ (الشورى :۱۱)، (ولم يكن له كفوا أحد﴾ (الإخلاص : ٣)
’’جو صفات باری تعالیٰ صحیح احادیث میں مروی ہیں ، سلف صالحین ان کا اثبات کرتے ہوئے ظاہری معنی مراد لیتے ہیں اور کیفیت اور تشبیہ کی نفی کرتے ہیں۔ بعض گروہوں نے ان صفات کی نفی کرتے ہوئے اسے باطل کر دیا ہے، جسے اللہ نے ثابت کیا تھا۔ بعض لوگوں نے اثبات تو کیا ہے، لیکن تشبیہ و تکلیف کی گمراہیوں میں مبتلا ہوں گئے ۔ جب کہ درست یہ ہے کہ دونوں گروہوں کا درمیانی راستہ اختیار کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غلوا و تقصیر کے مابین ہے ۔ دراصل صفات باری تعالیٰ میں گفتگو کرنا ذات باری تعالیٰ میں ہی گفتگو کرنا ہے۔ ان میں بھی وہی طریقہ کا راختیار کیا جائے گا ، جو ذات باری تعالیٰ کے بارے میں اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ تو بدیہی بات ہے کہ رب العالمین کا اثبات اس کی ذات کا اثبات ہے، نہ کہ اس کی کیفیت کا۔ اسی طرح صفات کا اثبات وجود کا اثبات ہے، نہ کہ کیفیت اور تحدید کا۔ لہذا جب ہم کہیں گے کہ صفت ید، سمع اور بصر اللہ کے لیے ثابت ہے، تو معنی یہ ہوگا کہ یہ صفات ہیں، جنہیں اللہ ، تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے۔ یہ نہیں کہیں گے کہ ید (ہاتھ) کا معنی قدرت ہے اور سمع و بصر کا معنی علم ہے، نہ ہی انہیں جوارح (جسمانی اعضا) قرار دیں گے اور نہ ہی انہیں ہاتھوں، کانوں اور آنکھوں ، جو کہ جسمانی اعضا ہیں اور کام کرنے کے آلہ کار ہیں، کے ساتھ تشبیہ دیں گے، بلکہ ہم کہیں گے کہ ان کا اثبات واجب ہے، کیوں کہ یہ شریعت سے ثابت ہیں اور تشبیہ کی نفی کرنا بھی از حد ضروری ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (ليس كمثله شيء﴾ (الشورى :١) ’’اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں ۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ولم يكن له كفوا أحد ﴾ (الإخلاص : ۳) ’’اور اس کے ہم سر کوئی نہیں ہے ۔‘‘
🌿(سير أعلام النبلاء للذهبي : 284/18 ، وسنده صحيح)
رب تعالیٰ کا آنا قرآن مجید میں ثابت ہے، یہ اس کی صفت ہے۔
مولانا مودودی صاحب لکھتے ہیں :
’’اصل الفاظ ہیں : (جَاءَ رَبُّكَ﴾ جن کا لفظی ترجمہ ہے : ’’تیرا رب آئے گا۔‘‘ لیکن ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن : 333/6)
یہ صراحتا قرآنی الفاظ کا انکار ہے۔
علامہ ابن قیم رحمتہ اللہ (۷۵۱ ھ ) لکھتے ہیں:
مما يوفح لك ذلك أن النزول والمجيء والإنيان، والاستواء، والصعود والارتفاع كلها أنواع أفعال، وهو الفعال لما يريد، وأفعاله كصفاته قائمة به، ولولا ذلك لم يكن فعالا ولا موصوفا بصفات كماله، فتزوله ومجيته واستواؤه وارتفاعه وصعوده ونحو ذلك، كلها أفعال من أفعاله، التي إن كانت مجازا فأفعاله كلها مجان ولا فعل له في الحقيقة، بل هو بمنزلة الجمادات، وهذا حقيقة من عطل أفعاله، وإن كان فاعلا حقيقة فأفعاله نوعان : لازمة ومتعدية، كما دلت النصوص التي هي أكثر من أن تحصر على النوعين . وبإثبات أفعاله وقيامها به تزول عنك جميع الإشكالات، وتصدق النصوص بعضها بعضا وتعلم مطابقتها للعقل الصريح، وإن أنكرت حقيقة الأفعال وقيامها به سبحانه اضطرب عليك هذا الباب أعظم اضطراب، وبقيت حائرا في التوفيق بين النصوص وبين أصول النفاة، وهيهات لك بالتوفيق بين النقيضين والجمع بين الصدين، يوضحه : إن الأوهام الباطلة والعقول الفاسدة لما فهمت من نزول الرب ومجيئه ، وإثيانه وهبوطه ودنوه ما يفهم من مجيء المخلوق وإثيانه وهبوطه ودنوه وهو أن يفرغ مكانا ويشغل مكانا نفت حقيقة ذلك فوقعت في محذورين : محذور التشبيه ومحذور التعطيل، ولو علمت هذه العقول الضعيفة أن نزوله سبحانه ومجينه وإثيانه لا يشبه نزول المخلوق وإنيانه ومجيئه، كما أن سمعه وبصره وعلمه وحياته كذالك، بل يده الكريمة ووجهه الكريم كذلك، وإذا كان نزولا ليس كمثله نزول، فكيف تنفى حقيقته، فإن لم تنف المعطلة حقيقة ذاته وصفاته وأفعاله بالكلية وإلا تناقضوا، فإنهم أي معنى أثبتوه لزمهم في نفيه ما ألزموا به أهل السنة المثبتين لله ما أثبت لنفسه، ولا يجدون إلى الفرق سبيلا .
اس سے واضح ہوا کہ صفات نزول بجی ،، اتیان، استواء، صعود اور ارتفاع تمام صفات فعلیہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کا ارادہ کرتا ہے، اسے بخوبی کر سکتا ہے۔ اس کی صفات فعلیہ صفات ذاتیہ ہی کی طرح ہے۔ اگر ایسے نہ ہوتا ، تو وہ فعال ( ہر کام بخوبی کرنے والا) ہوتا ، نہ ہی صفات کمال سے متصف ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات نزول بجی، اتیان، استوا، صعود، ارتفاع اور دوسری صفات اس کے افعال میں سے افعال ہیں، کہ اگر یہ فعلی صفات مجازی ہیں ،تو اس کے تمام افعال ہی مجاز ہوں گے اور حقیقت میں کوئی فعل بھی باقی نہیں رہے گا، بل کہ سب افعال جمادات کی طرح ہو جائیں گے۔ معطلہ کی یہی حقیقت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو حقیقی فاعل تسلیم کر لیا جائے ، تو اس کے افعال کی دوقسمیں ہوں گی ۔
◈ لازمیہ
◈ متعدیہ
ان دونوں اقسام پر ان گنت نصوص دلالت کرتی ہیں ۔ صفات افعال کے اثبات اور انہیں ذات باری کے ساتھ قائم کرنے آپ کے تمام شکوک و شبہات کا فور ہو جاتے ہیں۔ تمام نصوص ایک دوسرے کی
تصدیق کرتی ہیں اور آپ انہیں عقل صریح کے موافق و مطابق بھی سمجھنے لگیں گے ۔ اگر آپ نے ان صفات کا انکار کر دیا یا انہیں ذات باری تعالیٰ کے ساتھ قائم نہ مانا ، تو آپ اس مسئلہ میں شدید اضطراب کا شکار ہو جائیں گے اور نصوص اور منکرین صفات باری تعالیٰ میں موافقت تلاش کرتے ہی رہ جائیں گے۔ دو نقیض اور ضدوں میں جمع وتوفیق کرنا ناممکن ہے۔
کچھ مزید وضاحت :
جب باطل اوہام اور فاسد عقلیں رب تعالیٰ کے نزول، آنے ، نیچے اترنے اور قریب ہونے سے وہ مفہوم مراد لیں گی ، جو مخلوق کے نزول، آنے ، نیچے اترنے اور قریب ہونے ، جس ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال لازم آتا ہے، سے مراد لیا جاتا ہے، تو ان صفات باری تعالیٰ کی حقیقت کی نفی کر بیٹھیں گی۔ نیز دوگمراہیوں کا شکار ہو جائیں گی۔
◈ تشبیہ
◈ تعطیل عطیل
اگر ان کمزور عقلوں کی سمجھ میں آجاتا کہ اللہ سبحانہ وتعالی کا نزول اور آنا مخلوق کے نزول اور آنے کے مشابہ نہیں ہے، اسی طرح خالق کی سمع ، بصر، علم اور حیات مخلوق کے مشابہ نہیں ہے، بل کہ اس کا ہاتھ اور چہرہ بھی مخلوق کے مشابہ نہیں ہے۔ اگر اللہ کا نزول مخلوق کے مشابہ نہ مانا جائے ،تو اس کی حقیقت کی نفی نہیں ہوگی۔ معطلہ اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور افعال کی حقیقت کی کلیتا نفی کر کے تناقض کا شکار ہو گئے ہیں، کیونکہ وہ جو معنی بھی ثابت کریں، ان پر صفات کی نفی کرنے میں وہی اعتراض وارد ہوتا ہے، جو وہ اہل سنت پر صفات باری تعالیٰ کے اثبات کرنے میں وارد ہوتا ہے اور انہیں اس فرق کا کوئی راستہ نہیں ملتا ۔
🌿(مختصر الصواعق المرسلة، ص 450-451)
نیز فرماتے ہیں:
هذا التزول إلى الأرض يوم القيامة قد تواترت به الأحاديث والآثار ودل عليه القرآن صريحا .
’’روز قیامت زمین کی طرف نزول الہی کی بابت احادیث اور آثار صحابہ متواتر ہیں ، نیز قرآن بھی صراحت کے ساتھ دلالت کناں ہے۔‘‘
🌿(مختصر الصواعق المرسلة ، ص 466)
مولانا سرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں :
’’پروردگار عزوجل کے نزول وغیرہ کے متعلق ایک مسلک متقدمین کا ہے کہ نزول سے حقیقت نزول مراد ہے، مگر کیفیت ہم نہیں جانتے ۔ اسی طرح سمع، بصر، ید، استواء علی العرش کے متعلق متقدمین کا مسلک یہی ہے۔ متاخرین تاویل کر کے فرماتے ہیں کہ اس سے رضائے الہی ، خوش نودی اور توجہ مراد ہے۔ عمدہ قول متقدمین کا ہی ہے ۔‘‘
🌿(خزائن السنن ص 403)
بے شک عمدہ قول متقدمین کا ہی ہے، بعض متاخرین نے جو تاویل کی ہے، وہ سلف کے منہج سے انحراف اور تعطیل کی ایک قسم ہے۔ مولانا مودودی صاحب نسان کی روح کو صفات الہیہ کا عکس یا پر تو قرار دیتے ہیں، یہ وحدت الوجودی عقیدہ ہے۔
لکھتے ہیں :
’’اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے، وہ دراصل صفات الہی کا ایک عکس یا پر تو ہے ۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن : ۵۰۲/۲)
انبیاعلیہ السلام کی جناب میں سوئے ادبی
مولانا مودودی صاحب کا قلم انبیائے کرام کے احترام اور ادب کے تقاضوں سے یک سر نابلد ہے۔ انہوں نے بڑے بڑے انبیا کے متعلق عجیب طرح کی گفتگو کر رکھی ہے۔
نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی ۔‘‘
🌿(الجہاد فی الاسلام، ص 174)
انبیائے کرام علیہ السلام کے متعلق لکھتے ہیں :
’’پیغمبروں تک کو نفس شریر کی راہزنی کے خطرے پیش آئے ہیں، چنانچہ حضرت داود علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو ایک موقع پر تنبیہ کی گئی ہے۔‘‘
🌿(تمھیمات ص 163)
سیدنا نوح علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ واشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہو جاتا ہے لیکن جوں ہی کہ اسے یہ احساس ہوتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جا رہا ہے، وہ فورا تو بہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اسے ایک لمحہ کے لیے تامل نہیں ہوتا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ابھی جان جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آ رہا ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا ، اس کو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے، تو فورا اپنے دل کے زخم سے بے پرواہ ہو کر اس طرز فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں ، جو اسلام کا مقتضا ہے۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن : 344/2)
سیدنا داود علیہ السلام کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’یہ وہ تنبیہ ہے، جو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرنے اور بلندی درجات کی بشارت دینے کے ساتھ حضرت داود کو فرمائی، اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ جو فعل اُن سے صادر ہوا تھا، اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا، اُس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی تعلق تھا اور وہ کوئی ایسا فعل تھا، جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن :327/4)
نیز لکھتے ہیں :
’’مگر اس کی اصلیت صرف اس قدر تھی کہ حضرت داود علیہ السلام نے اپنے عہد کی اسرائیلی سوسائٹی کے عام رواج سے متاثر ہوکر اور یا سے طلاق کی درخواست کی تھی۔‘‘
🌿(تفہیمات : 56/2)
ذمی کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’زمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا حتی کہ جزیہ بند کر دینا ، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبروریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔‘‘
🌿(الجہاد فی الاسلام ص 289)
عصمت انبیا کے متعلق لکھتے ہیں :
’’یہ ایک لطیف نکتہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالا رادہ ہر نبی سے کسی نہ کسی وقت اپنی تفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں سرزد ہونے دی ہیں، تا کہ لوگ انبیاء کو خدا نہ سمجھ لیں اور جان لیں کہ یہ بشر ہیں خدا نہیں ۔‘‘
🌿(تفہیمات :56/2)
تنبیه:
انبیائے کرام علیہ السلام کی عزت اور عظمت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی جناب میں ادنی سی سوئے ادبی سے بھی پر ہیز کیا جائے، قلم کو ان دشوار گزار راہوں سے یوں بحفاظت نکالا جائے کہ نہ تو اصل واقعہ میں تبدیلی آئے اور نہ ہی انبیائے کرام جیسی پاک باز ہستیوں کی ذات پر جرات و بے با کی لازم آئے۔
اس سلسلہ میں علمائے اہل سنت کا کردار ایک قائدانہ کردار ہے، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے نبیوں اور رسولوں کو ان کا کامل احترام بھی دیا، ان کی شان پیمبری کے شایان شان الفاظ سے یاد کیا ، ہر نبی ہمارے لئے محترم ہے، جو شخص کسی ایک نبی کو بھی برا بھلا کہتا ہے، اس کے معاملہ میں سوئے ظنی کا شکار ہوتا ہے یا جان بوجھ کر ان کے احترام کے منافی الفاظ سے انہیں یاد کرتا ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس لیے انبیائے کرام اور رسل عظام کے متعلق الفاظ کا چنا وانتہائی محتاط ہونا چاہیے۔ اسی میں عافیت اور خیر ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ پر الزامات
صحابہ کرام رضی الله عنه روئے زمین کی محترم ترین ہستیاں ہیں، جن پر اللہ رب العزت نے انعام کیا ، وہ ان سے راضی ہوا، ان کے لئے جنت کے وعدے کئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے احترام کا درس دیا، دوسری طرف مودودی صاحب روافض کی صف میں کھڑے ہو کر صحابہ کی ذات ہائے مبارکہ پر ایسے فتیح الزام لگاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔
مولانامودودی صاحب لکھتے ہیں :
’’ان سے بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ بسا اوقات صحابہ پر بھی بشری کمزوری کا غلبہ ہو جاتا تھا اور وہ بھی ایک دوسرے پر چوٹیں کر جاتے تھے، ابن عمر رضی الله عنه نے سنا ، ابو ہریرہ رضی الله عنه وتر کو ضروری نہیں سمجھتے ، فرمانے لگے : ابو ہریرہ رضی الله عنه جھوٹے ہیں ، حضرت عائشہ نے ایک موقع پر انس رضی الله عنه اور ابوسعید خدری رضی الله عنه کے متعلق فرمایا کہ وہ حدیث رسول کو کیا جانیں، وہ تو اس زمانے میں بچے تھے ، حضرت حسن بن علی رضی الله عنه سے ایک مرتبہ شاہد و مشہود کے معنی پوچھے گئے انہوں نے اس کی تفسیر بیان کی، عرض کیا گیا کہ ابن عمر رضی الله عنه اور ابن زبیر رضی الله عنه تو ایسا اور ایسا کہتے ہیں، فرمایا: دونوں جھوٹے ہیں ،حضرت علی رضی الله عنه نے ایک موقع پر مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنه کو جھوٹا قرار دیا، عبادہ بن صامت رضی الله عنه نے ایک ایسا مسئلہ بیان کرتے ہوئے مسعود بن اوس انصاری رضی الله عنه پر جھوٹ کا الزام لگا دیا ، حالاں کہ وہ بدری صحابہ میں سے ہیں ۔‘‘
🌿(تفھیمات 296/1)
ان آثار کے احوال تو جو ہیں سو ہیں، لیکن لفظ ’’کذب‘‘ کا معنی ہمیشہ جھوٹ نہیں ہوتا ، بلکہ اس کو خطا کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ، تو ایک صحابی کی رائے کو دوسر اصحابہ کا خطا قرار دے دیتا ہے، یہ عام ہے۔ مودودی صاحب ان باتوں سے یہ باور کروا رہے ہیں کہ گویا صحابہ ایک دوسرے کو جھوٹا سمجھتے تھے۔
مفتی تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں :
’’واقعہ یہ ہے کہ مشاجرات صحابہ رضی الله عنه کے اس دریائے خون میں داخل ہونے کے لیے بڑی احتیاط کی ضرورت ہے اور صحابہ کے ایک فریق کے دفاع میں دوسرے فریق کو کسی بھی طرح مجروح کرنا وہ طرز عمل ہے، جو انسان کو اہل سنت
کے جادہ اعتدال سے دور لے جاتا ہے ۔‘‘
🌿(تبصرے ، ص 345)
جنگ احد کی شکست کا سبب :
مولانا مودودی صاحب جنگ احد کے متعلق لکھتے ہیں :
’’اُحد کی شکست کا بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمان (صحابہ کرام) عین کامیابی کے موقع پر مال کی طمع سے مغلوب ہو گئے اور اپنے کام کو تکمیل تک پہنچانے کے بجائے غنیمت لوٹنے میں لگ گئے ۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن 287/1)
پھر سود کی مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سود خوری جس سوسائٹی میں موجود ہوتی ہے، اس کے اندر سود خوری کی وجہ سے دو قسم کے اخلاقی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ سود لینے والوں میں حرص وطمع، بخل اور خود غرضی ۔ اور سود دینے والوں میں نفرت، غصہ اور بغض وحسد ۔ اُحد کی شکست میں ان دونوں قسم کی بیماریوں کا کچھ نہ کچھ حصہ شامل تھا۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن :1 /288)
سیدنا عثمان رضی الله عنه پر اقربا پروری کا الزام :
سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه تیسرے خلیفہ راشد اور امیر المومنین ہیں۔ آپ کے بے شمار فضائل و مناقب ہیں ۔ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہرے داماد ہیں ۔ آپ کے دور خلافت پر امن وسکون کی چھاپ تھی۔ اسلام کی سر بلندی اور فتوحات کا دور دورہ تھا۔ عدل وانصاف کا علم بلند تھا۔
امام یحیی بن معین رحمتہ اللہ (۲۳۳ھ) فرماتے ہیں:
كل من يشتم عثمان أو طلحة أو أحدا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم دجال لا يكتب عنه وعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين .
’’جو سید نا عثمان رضی الله عنه ، سیدنا طلحہ رضی الله عنه یا کسی بھی صحابی رسول کو سب و شتم کرے، وہ دجال ہے، اس سے حدیث نہ لکھی جائے ۔ اس پر اللہ کی ،فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔‘‘
🌿(تاریخ ابن معين برواية الدوري : 2670)
مولانا مودودی صاحب نے مستشرقین اور روافض کے نوالے چبا کر سیدنا عثمان رضی الله عنه پر ہمہ قسم کے الزامات وارد کئے ہیں ، مولانا سیدنا عثمان رضی الله عنه کو سرے سے خلافت کا اہل تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں، لکھتے ہیں :
’’حضرت عثمان رضی الله عنه جن پر اس کار عظیم کا بار رکھا گیا تھا، ان تمام خصوصیات کے حامل نہ تھے، جو ان کے جلیل القدر پیش رووں کو عطا ہوئی تھیں ۔ اس لئے ان کے زمانہ خلافت میں جاہلیت کو اسلامی نظام اجتماعی کے اندر گھس آنے کا موقع مل گیا۔ حضرت عثمان رضی الله عنه نے اپنا سر دے کر اس خطرے کا راستہ روکنے کی کوشش کی ، مگر وہ نہ رک سکا، اس کے بعد حضرت علی رضی الله عنه آگے بڑھے انہوں نے اسلام کے سیاسی اقتدار کو جاہلیت کے تسلط سے بچانے کی انتہائی کوشش کی ، مگر ان کی جان کی قربانی بھی انقلاب معکوس کو نہ روک سکی، آخر کار خلافت علی منہاج النبوہ کا دور ختم ہو گیا، ملک عضوض نے اس کی جگہ لے لی اور اس طرح حکومت کی اساس اسلام کے بجائے پھر جاہلیت پر قائم ہوگئی۔‘‘
🌿(تجدید و احیائے دین ، ص 28)
گویا سیدنا عثمان رضی الله عنه کی ردائے خلافت، جسے پہنے رکھنے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا اور اسے اتارنے کا مطالبہ کرنے والوں کو منافقین قرار دیا تھا، مولانا مودودی اس عظیم خلافت کو نا اہل خلافت باور کرواتے ہیں۔ پھر اسی پر بس نہیں کرتے ، بلکہ مزید بہت سارے الزامات عائد کرتے ہیں ۔
لکھتے ہیں :
’’جب حضرت عثمان رضی الله عنه جانشین ہوئے، تو رفتہ رفتہ وہ اس پالیسی سے ہٹتے چلے گئے ، انہوں نے پے در پے اپنے رشتہ داروں کو بڑے بڑے اہم عہدے عطا کیے اور ان کے ساتھ دوسری ایسی رعایات کیں، جو عام طور پر لوگوں میں
ہدف اعتراض بن کر رہیں ۔‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ص 106)
اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ بلکہ سوئے ظنی کا نتیجہ ہے۔ سیدنا عثمان رضی الله عنه نے جسے بھی عہدہ پر فائز کیا، اس میں قابلیت کو مدنظر رکھا۔ اگر وہ اس عہدے کا اہل تھا ، تو اسے عہدہ دے دیا، خواہ رشتہ دار تھا یا غیر ۔ اصل بنیاد قابلیت تھی۔
مودودی صاحب خود لکھتے ہیں:
’’اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ اپنے خاندان کے جن لوگوں کو سیدنا عثمان رضی الله عنه نے حکومت کے یہ مناصب دیے، انہوں نے اعلیٰ درجہ کی انتظامی اور جنگی قابلیتوں کا ثبوت دیا اور ان کے ہاتھوں بہت سی فتوحات ہوئیں۔‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت، ص 108)
اہل سنت میں سے کوئی بھی سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه کے بارے میں یہ رائے نہیں رکھتا کہ انہوں نے اپنوں کو نوازا اور غیروں کو نظر انداز کیا ۔ یا یہ کہا ہو کہ سیدنا عثمان رضی الله عنه اپنوں پر فیاضی کے حوالے سے غیر محتاط تھے۔
نیز خلیفہ کو اختیار ہوتا ہے کہ جسے چاہے کوئی منصب تفویض دے، یا کسی کو معزول کر دے۔ دوسروں کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔ خصوصا خلیفہ راشد جس کی خلافت علی منہاج النبوت ہو ، اس پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
اس پر سہاگہ یہ کہ سیدنا عثمان رضی الله عنه کی خلافت میں اقربا پروری کے حوالے سے کسی صحابی یا تابعی نے اعتراض نہیں کیا۔
مودودی صاحب لکھتے ہیں:
’’جب ولید بن عقبہ کوفہ کی گورنری کا پروانہ لے کر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی الله عنه کے پاس پہنچا، تو انہوں نے فرمایا: معلوم نہیں ، ہمارے بعد تو زیادہ دانا ہو گیا ہے، یا ہم تیرے بعد احمق ہو گئے ہیں؟ اس نے جواب دیا : ابو اسحاق برافروختہ نہ ہو ، یہ تو بادشاہی ہے، صبح کوئی اس کے مزے لوٹتا ہے، تو شام کوئی ۔ اور حضرت سعد نے کہا : میں سمجھتا ہوں ، واقعی تم لوگ اسے بادشاہی بنا کر چھوڑ و گے۔(الاستیعاب لابن عبد البر : ۱۵۵۴/۴، از ناقل)‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ،ص 108)
یہ جھوٹی روایت ہے۔ حکم بن عتیبہ سے نیچے سند معلوم نہیں ۔ حکم مدلس ہیں، سماع کی تصریح نہیں کی۔
نیز لکھتے ہیں:
’’قریب قریب ایسے ہی خیالات حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنه نے بھی ظاہر فرمائے ۔ (الاستیعاب لا بن عبد البر : ۱۵۵۴/۴، از ناقل)‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ،ص 108)
جھوٹی روایت ہے۔ محمد بن سیرین کا سید نا عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنه سے سماع نہیں ۔
جعفر بن سلیمان سے نیچے سند معلوم نہیں ہوسکی۔
ان روایات کی بنا پر سیدنا عثمان رضی الله عنه کے بارے میں غلط تاثر دینا قرینہ انصاف نہیں۔
مودودی صاحب لکھتے ہیں :
’’حضرت عثمان رضی الله عنه نے اپنے حکومت کے آخری چھ سالوں میں اپنے رشتہ داروں اور خاندان کے لوگوں کو حکومت کے عہدے دیے اور مروان کے لیے مصر کا خمس ( یعنی افریقہ کے اموال غنیمت کا خمس، جو مصر کے صوبے کی طرف سے آیا تھا) لکھ دیا اور اپنے رشتہ داروں کو مالی عطیے دیے اور اس معاملہ میں یہ تاویل کی کہ وہ یہ صلہ رحمی ہے، جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ انہوں نے بیت المال سے روپیہ بھی لیا اور قرض رقمیں بھی لیں اور کہا کہ ابوبکر و عمر رضی الله عنه نے اس مال میں سے اپنا حق چھوڑ دیا تھا اور میں نے اسے لے کر اپنے اقربا میں تقسیم کیا ہے۔ اسی چیز کولوگوں نے نا پسند کیا ہے۔ (طبقات ابن سعد :۶۴/۳)‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ، ص 326)
جھوٹی روایت ہے۔
◈محمد بن عمر واقدی ’’متروک وکذاب‘‘ ہے۔
◈زہری مدلس ہیں ، سماع کی تصریح نہیں کی۔
◈زہری نے سیدنا عثمان رضی الله عنه کا زمانہ نہیں پایا۔ امام زہری ۵۸ ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۴ھ میں وفات پائی۔ جبکہ سیدنا عثمان رضی الله عنه کی وفات ۳۵ ھ میں ہوئی ، بھلا وہ سیدنا عثمان رضی الله عنه کے متعلق کیسے خبر دے سکتے ہیں؟
امام یحیی بن معین رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
مرسل الزهري ليس بشيء.
’’زہری کی مرسل کچھ بھی نہیں۔”
🌿(تاریخ ابن معين برواية الدوري : 1027)
امام بیہقی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :
مراسيل الزهري ردينة.
’’زہری کی مراسیل ردی ہیں ۔‘‘
🌿(السنن الكبرى : 107/10)
مودودی صاحب لکھتے ہیں :
’’افریقہ میں عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے وہاں کے بطریق سے تین سو قنطار سونے پر مصالحت کی تھی ۔ فأمر بها عثمان لآل الحكم ’’پھر حضرت عثمان رضی الله عنه نے یہ رقم الحکم یعنی مروان بن حکم کے باپ کے خاندان کو عطا کر دینے کا حکم دیا ۔‘‘ (تاریخ طبری : ۳۱۴/۳)‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ،ص 327)
یہ واقدی کی گھڑ نتل ہے۔ محمد بن کعب قرظی نے سید نا عثمان رضی الله عنه کا زمانہ نہیں پایا۔ محمد بن کعب سن ۴۰ ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ھ میں فوت ہوئے۔ جبکہ سیدنا عثمان رضی الله عنه کی وفات ۳۵ ھ کو ہوئی ۔ یہ سید نا عثمان رضی الله عنه کے متعلق خبر کیسے دے سکتے ہیں؟
مودودی صاحب لکھتے ہیں :
حضرت عثمان رضی الله عنه نے خود ایک موقع پر ایک مجلس میں جہاں حضرت علی ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر، حضرت طلحہ اور حضرت معاویہ رضی الله عنه موجود تھے اور ان کے مالی عطایا پر اعتراضات زیر بحث تھے ، اپنے طرز عمل کی یہ تشریح فرمائی:
’’میرے دونوں پیش رو اپنی ذات اور اپنے رشتہ داروں کے معاملے میں سختی برتتے رہے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے رشتہ داروں کو مال دیا کرتے تھے، میں ایک ایسے خاندان سے ہوں، جس کے لوگ قلیل المعاش ہیں۔ اس وجہ سے میں نے اس خدمت کے بدلے میں، جو میں اس حکومت کی کر رہا ہوں، اس مال میں سے روپیہ لیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسا کرنے کا حق ہے۔ اگر آپ لوگ اسے غلط سمجھتے ہیں ، تو اس روپے کو واپس کرنے کا فیصلہ کر دیجئے۔ میں آپ کی بات مان لوں گا، سب لوگوں نے کہا: آپ نے یہ بات بہت ٹھیک فرمائی۔ پھر حاضرین نے کہا : آپ نے عبد اللہ بن خالد بن اسید اور مروان کو روپیہ دیا ہے، ان کا بیان تھا کہ یہ رقم مروان کو پندرہ ہزار کی اور ابن اسید کو پچاس ہزار کی مقدار میں دی گئی ہے، چنانچہ یہ رقم دونوں سے بیت المال کو واپس دلوائی گئی اور لوگ راضی ہو کر مجلس سے اٹھے ۔ (تاریخ طبری : ۴/ ۳۴۵)‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ،ص 328)
روایت سخت ضعیف ہے، اسحاق بن یحیی بن طلحہ بن عبید اللہ قرشی ’’ضعیف و منکر الحدیث‘‘ راوی ہے۔ اسے احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین ، بخاری، فلاس، ابو حاتم ، ابو زرعہ، نسائی، ترمذی، مجلی ، ساجی ، ابن حبان، محمد بن سعد ، دارقطنی ، ابن عدی اور عقیلی و غیر ہم رحمتہ اللہ نے ضعیف ، منکر الحدیث اور متروک الحدیث قرار دیا ہے۔
مودودی صاحب لکھتے ہیں :
’’حضرت عثمان رضی الله عنه نے فرمایا : جن لوگوں کو میں نے عہدے دیے ہیں، انہیں آخر عمر بن خطاب رضی الله عنه نے بھی تو عہدوں پر مامور کیا تھا، پھر میرے ہی اوپر لوگ کیوں معترض ہیں؟ حضرت علی رضی الله عنه نے جواب دیا : عمر جس کو جس جگہ کا حاکم مقرر کرتے تھے ، اس کے متعلق اگر انہیں کوئی قابل اعتراض بات پہنچ جاتی تھی تو وہ بری طرح اس کی خبر لے ڈالتے تھے، مگر آپ ایسا نہیں کرتے ۔ آپ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نرمی برتتے ہیں ۔ حضرت عثمان رضی الله عنه نے فرمایا : وہ آپ کے بھی تو رشتہ دار ہیں، حضرت علی رضی الله عنه نے جواب دیا : لعمري إن نهم مني لقريبة، ولكن الفضل في غيرهم . ’’بے شک میرا بھی ان سے قریبی رشتہ ہے ، مگر دوسرے لوگ ان سے افضل ہیں ۔‘‘ حضرت عثمان رضی الله عنه نے کہا : کیا عمر رضی الله عنه نے معاویہ رضی الله عنه کو گورنر نہیں بنایا تھا؟ حضرت علی رضی الله عنه نے جواب دیا : عمر رضی الله عنه کا غلام سر فاء بھی ان سے اتنا نہ ڈرتا تھا، جتنے معاویہ رضی الله عنه ان سے ڈرتے تھے۔ اب یہ حال ہے کہ معاویہ رضی الله عنه آپ سے پوچھے بغیر جو چاہتے ہیں، کر گزرتے ہیں اور کہتے ہیں : یہ عثمان رضی الله عنه کا حکم ہے۔ مگر آپ انہیں کچھ نہیں کہتے ۔ (تاریخ طبری :۴/ ۳۳۸)‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ،ص331)
جھوٹی روایت ہے۔
◈واقدی نے اسے گھڑا ہے۔
◈عبداللہ بن مسلم بن عبید اللہ قرشی کا سیدنا عثمان رضی الله عنه سے سماع ولقا نہیں ۔
مودودی صاحب لکھتے ہیں :
’’مدینے میں جب حضرت عثمان رضی الله عنه پر ہر طرف نکتہ چینیاں ہونے لگیں اور حالت یہ ہوگئی کہ چند صحابہ زید بن ثابت، ابواسید الساعدی، کعب بن مالک اور حسان بن ثابت رضی الله عنه کے سوا شہر میں کوئی صحابی ایسا نہ رہا، جو حضرت والا کی حمایت میں زبان کھولتا ۔ (تاریخ طبری : ۳۳۸/۴)‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ،ص 330)
جھوٹی روایت ہے۔
◈واقدی نے اسے گھڑا ہے۔
عبد اللہ بن مسلم بن عبید اللہ قرشی کا سید نا عثمان رضی الله عنه سے سماع ولقا نہیں ۔
لگتا ہے کہ یہ روافض کی گھڑی ہوئی کارستانیاں ہیں ، جن کی بنا پر سیدنا عثمان رضی الله عنه پر اقربا پروری کی تہمت لگائی جاتی ہے۔
مودودی صاحب لکھتے ہیں :
’’حضرت عثمان رضی الله عنه کی پالیسی کا یہ پہلو بلا شبہ غلط تھا اور غلط کام بہر صورت غلط ہے، خواہ وہ کسی نے کیا ہو۔ اس کو خوامخواہ کی سخن سازیوں سے صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرنا نہ عقل وانصاف کا تقاضا ہے اور نہ دین ہی کا یہ مطالبہ ہے کہ کسی صحابی کی غلطی کو غلطی نہ مانا جائے ، مگر واقع یہ ہے کہ اس ایک پہلو کو چھوڑ کر جملہ پہلوؤں سے ان کا کردار بحیثیت خلیفہ ایک مثالی کردار تھا ، جس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں، علاوہ ازیں ان کی خلافت میں بحیثیت مجموعی خیر اس قدر غالب تھی اور اسلام کی سربلندی کا اتنا بڑا کام ان کے عہد میں ہورہا تھا کہ ان کی پالیسی کے اس خاص پہلو سے غیر مطمئن ہونے کے باوجود عام مسلمان پوری مملکت میں کسی جگہ بھی ان کے خلاف بغاوت کا خیال تک دل میں لانے کے لیے تیار نہ تھے ۔‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ص 116)
مودودی صاحب جس پالیسی کا ذکر کر رہے ہیں ، اس کی حقیقت آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں، مزید کہنے کی ضرورت نہیں۔ یہ محض روافض کی وکالت ہے۔ جھوٹی روایات کی بنا پر ایک خلیفہ راشد کی شخصیت کو دبے لفظوں میں داغ دار کرنا ایمان کا نقصان ہے۔
تنبیہ:
عثمان رضی الله عنه پر طعن کی جاتا ہے کہ آپ نے حکم بن ابی العاص اور ان کے بیٹے مروان، جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جلاوطن کر دیا تھا ، انہیں اپنے دورِ خلافت میں مدینہ واپس بلالیا تھا۔ یہ بے سند اور بے بنیاد واقعہ ہے ۔ نہ تو نبی کریم مالی لین نے حکم بن ابی العاص اور ان کے بیٹے مروان کو جلا وطن کیا اور نہ سیدنا عثمان بنی الین نے انہیں مدینہ واپس بلایا۔
یادر ہے کہ اسلامی تاریخ میں روافض کی صدیوں سالوں مداخلت رہی ہے۔ بہت ساری بے سند اور بے سروپا باتیں تاریخ کا حصہ بنا دی گئیں۔ جس کو رجال اور سند سے واسطہ نہیں، وہ آنکھیں بند کر کے تاریخی روایات پر اعتماد نہ کرے۔ جس نے ایسا کیا، وہ سبیل مومنین سے بھٹک گیا۔
مودودی صاحب تو دنیا سے چلے گئے ، اب ان کے ساتھیوں کو چاہیے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی الله عنه کے متعلق اپنے رائے بدل لیں۔ سید نا عثمان رضی الله عنه پر اقربا پروری جیسا سنگین الزام لگانے سے بچیں۔
سیدنا معاویہ رضی الله عنه پر اتهام :
سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے لکھا ہے:
’’ایک اور نہایت مکر وہ بدعت حضرت معاویہ رضی الله عنه کے عہد میں یہ شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے ان کے تمام گورنر، خطبوں میں برسر ممبر حضرت علی رضی الله عنه پر سب و شتم کی بوچھاڑ کرتے تھے حتی کہ مسجد نبوی میں ممبر رسول پر عین روضہ نبوی کے سامنے حضور کے محبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں اور حضرت علی رضی الله عنه کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتہ دار اپنے کانوں سے یہ گالیاں سنتے تھے۔ (الطبری، جلد ۴، ص ۱۸۸ ، ابن الاثیر، ج ۳، ص ۲۳۴ ، ج ۴، ص ۱۵۴، البدایه، ج ۸ ، ص ۲۵۹ ، ج ۹، ص ۸۰) کسی کے مرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا، شریعت تو در کنار انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا اور خاص طور پر جمعہ کے خطبے کو اس گندگی سے آلودہ کرنا تو دین و اخلاق کے لحاظ سے سخت گھناؤنا فعل تھا۔‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ص 174)
قارئین کرام ! طبری کے محولہ صفحہ پر سیدنا معاویہ رضی الله عنه کے بارے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مودودی صاحب تو فوت ہو گئے ، اب ان احباب سے اس کا حوالہ درکار ہے، جو ان کی جراتوں کو سند جواز فراہم کرتے رہتے ہیں۔
جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے ، تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ ایک صحابی پر بہتان ہے، شریعت تو در کنار انسانی اخلاق بھی اس کی اجازت نہیں دیتے۔
مودودی صاحب لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر بن عبد العزیز نے آکر اپنے خاندان کی دوسری غلط روایات کی طرح اس روایت کو بھی بدلا اور خطبہ جمعہ میں ’’سب علی‘‘ کی جگہ یہ پڑھنی شروع کردی:
إن الله يأمر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى وينهى عن الفحشاء والمنكر والبغي يعظكم لعلكم تذكرون ۔
🌿(خلافت و ملوکیت ، ص 174)
سوال یہ ہے کہ وہ کون سی غلط روایات تھیں ، جنہیں عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ نے بدلا ۔ کیا تحقیق اس کا نام ہے کہ جھوٹے قصوں سے استدلال کیا جائے ؟ ائمہ اہل سنت کے منہج سے انحراف، محدثین سے خود کو بے نیاز سمجھنا اور اصحاب پاک مصطفیٰ کے بارے میں بدعقیدگی کا درس پڑھانا ہی اگر تحقیق ہے، تو معاف کیجئے گا حضور! ہمارا ایمان اس تحقیق پر مطمئن نہیں۔
یوم حساب اگر حق ہے، تو ہم اپنے نامہ اعمال میں اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص نہیں لکھوانا چاہتے ، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے نامہ اعمال میں لکھا ہو کہ یہ بندہ نعوذ باللہ سیدنا معاویہ رضی الله عنه اور سیدنا عمرو بن عاص رضی الله عنه کو منافق اور فاسق کہتا تھا۔ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ۔
استلحاق معاویہ رضی الله عنه کی حقیقت:
مودودی صاحب سیدنا معاویہ رضی الله عنه پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’زیاد بن سمیہ کا استلحاق بھی حضرت معاویہ رضی الله عنه کے ان افعال میں سے ہے جن میں انہوں نے سیاسی اغراض کے لیے شریعت کے ایک مسلم قاعدے کی خلاف ورزی کی تھی۔ زیاد طائف کی ایک لونڈی سمیہ نامی کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ لوگوں کا بیان یہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں حضرت معاویہ رضی الله عنه کے والد جناب ابوسفیان رضی الله عنه نے اس لونڈی سے زنا کا ارتکاب کیا تھا اور اسی سے وہ حاملہ ہوئی۔ حضرت ابو سفیان رضی الله عنه نے خود بھی ایک مرتبہ اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ زیادا نہی کے نطفہ سے ہے۔ جو ان ہو کر یہ شخص اعلیٰ درجے کا مدبر منتظم فوجی لیڈر اور غیر معمولی قابلیتوں کا مالک ثابت ہوا۔ حضرت علی رضی الله عنه کے زمانہ خلافت میں وہ آپ کا زبردست حامی تھا اور اس نے بڑی اہم خدمات انجام دی تھیں۔ ان کے بعد حضرت معاویہ رضی الله عنه نے اس کو اپنا حامی و مددگار بنانے کے لیے اپنے والد ماجد کی زنا کاری پر شہادتیں لیں اور اس کا ثبوت بہم پہنچایا کہ زیادانہی کا ولد الحرام ہے۔ پھر اسی بنیاد پر اسے اپنا بھائی اور اپنے خاندان کا فرد قرار دے دیا۔ یہ فعل اخلاقی حیثیت سے جیسا کچھ مکروہ ہے وہ تو ظاہر ہی ہے ، مگر قانونی حیثیت سے بھی یہ ایک صریح ناجائز فعل تھا، کیونکہ شریعت میں کوئی نسب زنا سے ثابت نہیں ہوتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صاف حکم موجود ہے کہ بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر وہ پیدا ہو، اور زانی کے لیے کنکر پتھر ہیں۔ ا ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی الله عنه اسی وجہ سے اس کو اپنا بھائی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس سے پردہ فرمایا ۔‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ، ص 175)
استلحاق:
لغة : مصدر استلحق ، يقال : استلحقه ادعاه .
’’استلحاق استلحق يستلحق باب کا مصدر ہے، کہا جاتا ہے: اس نے اسے پکارا۔‘‘
🌿(لسان العرب، وتاج العروس، والصحاح في مادة لحق)
اصطلاحا : هو الإقرار بالنسب، والتعبير بلفظ الاستلحاق هو استعمال المالكية، والشافعية، والحنابلة، وأما الحنفية فاستعملوه في الإقرار بالنسب على قلة .
’’اصطلاح میں نسب کے اقرار کو استلحاق کہتے ہیں۔ استلحاق کی اصطلاح مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ استعمال کرتے ہیں۔ حنفیہ اس معنی میں بہت کم استعمال کرتے ہیں۔‘‘
🌿(حاشية البجيرمي على شرح المنهج : 91/3 ، فتح العزيز : 61/3 ، الشرح الكبير حاشية الدسوقي : 4121/3)
کسی بچے سے نسبی رشتے کا دعوی کرنا استلحاق کہلاتا ہے۔ استلحاق رشتہ دار بھی کر سکتے ہیں۔
استلحاق کی شرائط :
استلحاق کے جائز ہونے کی چند شرائط ہیں ، جن کے بغیر اس کا اعتبار نہیں۔
◈استلحاق مجبول النسب بچے سے ہو سکتا ہے، اگر اس بچے کا نسب کسی دوسرے شخص سے معروف ہو تو دعوی استلحاق درست نہیں ۔ کیوں کہ آپ اس کا نسب تو ڑ کر اپنے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر لعنت کی ہے، جو اپنے باپ کو چھوڑ کر کسی اور طرف منسوب ہو جائے ۔
◈آپ جس کے ساتھ استلحاق کر رہے ہیں ، آپ کے نسب میں اور اس کے نسب میں ثبوت کا احتمال ہو، نہ تو اس بچے کا کوئی دوسرا دعویدار ہو اور نہ کوئی ایسی راہ ہو جس سے آپ کے اس کے ساتھ نسب کی تکذیب ہو سکے ۔ مثلا : آپ کسی ایسے عارضے میں مبتلا نہ ہوں، جس کی وجہ سے اولاد کا ہونا ممکن نہیں رہتا۔ اسی طرح بچے اور آپ کی عمر میں اتنا تفاوت ہو کہ عقلا آپ کا اس سے استلحاق ممکن نہ ہو۔
◈جس سے استلحاق کیا جا رہا ہے ، وہ اس کی تصدیق کرے۔
◈استلحاق میں بچے کا نسب بدلنا مقصود نہ ہو۔
یادر ہے کہ سچ معلوم ہو، تو استلحاق واجب ہے اور اگر جھوٹ ہو یا نسب کی نفی کی جائے ، تو یہ حرام ہے، کیوں کہ اس میں کفران نعمت ہے۔
استلحاق معاویہ:
رہا مسئلہ سیدنا معاویہ رضی الله عنه کے استلحاق کا ، بیان کیا جاتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی الله عنه نے زیاد بن سمیہ کو اپنے باپ ابوسفیان کی طرف منسوب کیا تھا، جب کہ وہ اس سے قبل زیاد بن عبید ثقفی نام سے مشہور تھا۔ یہ بات بالکل بے حقیقت ہے۔ اس سلسلہ میں جس روایت سے استدلال کیا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے۔
ابو اسحاق سبیعی رحمتہ اللہ کہتے ہیں :
إن زيادا لما قدم الكوفة، قال : قد جئتكم في أمر ما طلبته إلا إليكم، قالوا : ادعنا إلى ما شئت، قال : تلحقون نسبي بمعاوية، قالوا : أما بشهادة النور فلا، فأتى البصرة، فشهد له رجل .
’’ابو اسحاق سبیعی رحمتہ اللہ سے مروی ہے کہ زیاد کوفہ آکر کہنے لگا : میں آپ سے ایک مطالبہ کرنا چاہتا ہوں ۔ اہل کوفہ کہنے لگے : ہم حاضر ہیں، کیا چاہیے؟ کہنے لگا: تم میر انسب معاویہ سے ملا دو۔ کہنے لگے : جھوٹی گواہی سے تو نہیں ملا سکتے ، زیاد بصرہ آیا ، تو ایک بندے نے گواہی دی۔‘‘
🌿(تاریخ الطبري : 215/5)
سند ضعیف ہے۔
◈عمر بن بشیر ہمدانی ضعیف ہے۔ یحیی بن معین رحمتہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
امام ابو حاتم رحمتہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بقوي يكتب حديثه وجابر الجعفي أحب إلي منه۔
’’قوی نہیں ہے، حدیث لکھ لی جائے گی۔ اس سے تو جابر بعضی ( کذاب) مجھے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
🌿(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم : 100/6)
یہ تضعیف نسبی ہے۔
◈ابو اسحاق سبیعی رحمتہ اللہ مختلط ہیں۔ عمر بن بشیر ہمدانی کے متعلق معلوم نہ ہو سکا که یه قبل از اختلاط روایت کرتا ہے یا بعد از اختلاط ۔
بالفرض روایت کو صحیح مان لیں ،تب بھی معاویہ رضی الله عنه کا استلحاق مذکورہ شرائط صحیح ہے۔
◈ استلحاق معاویہ سے قبل زیاد کا نسب مجہول تھا، اس کی ماں کا نام سمیہ ہے، باپ کا نام معلوم نہ تھا۔ اسی لیے اسے زیاد بن ابیہ بھی کہا جاتا تھا۔ زیاد بن عبید ثقفی کہنا صحیح تو کجا کسی ضعیف روایت سے بھی ثابت نہیں ، لہذا (بشرط صحت روایت) معاویہ رضی الله عنه زیاد کا اپنے والد ابوسفیان سے استلحاق صحیح ہے۔
◈زیاد اور ابوسفیان رضی الله عنه کا نسب محتمل الثبوت ہے، کیوں کہ دونوں کی عمر میں وہ تناسب موجود ہے، جو ایک باپ بیٹے میں ہو سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ ابوسفیان رضی الله عنه اس عمر میں نہ خصی تھے اور نہ کوئی عارضہ لاحق تھا، نیز کوئی اور استلحاق کا مدعی بھی نہ تھا۔
◈جب ابو سفیان رضی الله عنه کے متعلق یہ کہہ دیا گیا کہ زیاد ان کا ولد زنی تھا، تو مستلحق لہ یعنی ابوسفیان رضی الله عنه کے اعتراف کی ضرورت نہیں۔
◈استلحاق معاویہ (بشرط صحت روایت) میں مقصود مستلحق زیاد کا نسب بدلنا مقصود نہیں ہے، کیوں کہ نہ تو اس سے قبل وہ معروف النسب ہے اور نہ کوئی اور مدعی ہے ، نیز ابوسفیان رضی الله عنه کا ولد زنی بھی کہا جاتا ہے۔
اولاً تو ایسا کچھ ثابت نہیں ، لیکن اگر ثابت سمجھا جائے ، تو بھی مذکورہ شرائط کی رو سے استلحاق معاویہ درست ہو گا۔ واللہ الحمد
مولانا مودودی سیدنا معاویہ رضی الله عنه کے متعلق لکھتے ہیں:
’’مال غنیمت کی تقسیم کے معاملہ میں بھی حضرت معاویہ رضی الله عنه نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے صریح احکام کی خلاف ورزی کی ۔‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ، ص 174)
سیدنا عمر و بن عاص دنیا کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’حضرت عمرو بن عاص رضی الله عنه سے یہ دو کام ایسے سرزد ہو گئے، جنہیں غلط کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ص 144)
سیدنا مغیرہ بن شعبہ اور سیدنا معاویہ رضی الله عنه کے بارے میں کہتے ہیں :
’’یزید کی ولی عہدی کے لئے ابتدائی تحریک کسی صحیح جذبے کی بنیاد پر نہیں ہوئی تھی، بلکہ ایک بزرگ نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے دوسرے بزرگ کے ذاتی مفاد سے اپیل کر کے اس تجویز کو جنم دیا اور دونوں صاحبوں (سیدنا مغیرہ اور سیدنا معاویہ رضی الله عنه) نے اس بات سے قطع نظر کر لیا کہ وہ اس طرح امت محمدیہ کو کس راہ پر ڈال رہے ہیں ۔‘‘
🌿(خلافت و ملوکیت ،ص 150)
اصول محدثین سے انحراف
حدیث کی تصیح و تضعیف ائمہ محدثین کا فن ہے اور اس میں انہیں کی تحقیقات پر اعتماد کیا جائے گا، یہی اہل سنت کا نظریہ ہے، یہممکن ہے کہ بسا اوقات سند صحیح ہو لیکن متن منکر ہو مگر اس کا فیصلہ صرف محدثین کریں گے۔ وہ کسی روایت کے متن کو منکر قرار دیں تو فبہا لیکن جن روایات کو وہ اجماعی طور پر تسلیم کرتے آئے ہوں ، ان کو منکر قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ کیوں کہ محدثین نے تدوین حدیث کا زمانہ پایا ہے، اس کے راویوں سے ملاقاتیں کی ہیں ، ان سے روابط رکھے ہیں، ان کے احوال کی جانچ پرکھ کی ہے ، پھر کسی فرد واحد کی تحقیق کو حتمی مانے بغیر ہر ایک شخص کو میزان میں تولا گیا ہے۔
اگر جھوٹا ہے، تو اس نے کون کون سے جھوٹ اور کہاں کہاں بولے، اگر سچا ہے، تو کیا حافظہ بھی مضبوط ہے؟ اگر راوی کا حافظہ بھی مضبوط ہے، تو کیا اس نے کوئی منکر روایات بھی بیان کی ہیں؟ کس راوی کی کتنی متابعت ہوتی ہے؟ کیا راوی عمر کے کسی حصے میں اختلاط کا شکار تو نہیں ہو گیا تھا ؟ کیا راوی مدلس تو نہیں ؟ اگر کسی پر تدلیس کا الزام ہے، تو کیا یہ الزام سچ ہے؟ اگر کسی پر کذب کی جرح ہوئی ہے، تو کیا جرح کرنے والے کا ذاتی تعصب تو نہیں تھا ؟ رادی بدعتی ہے؟ کیا بدعتی ہونے کے باوجود وہ سچ بولتا ہے؟
مطلب کہ اس قدر باریک بینی کے ساتھ راویوں کے احوال جمع کئے گئے ، احادیث پر عمل دیکھا گیا، فتاویٰ دیکھے گئے، راویان حدیث کے عمل پر غور کیا گیا، پھر کہیں جا کر احادیث کے احکام مدون ہوئے اور پوری امت میں ایک مسلمہ قانون کی حیثیت سے رائج ہوئے ، یہ کوئی رائی کے پہاڑ نہ تھے کہ جنہیں جو چاہے ہوا میں اڑا دے۔
جبکہ مولانا مودودی صاحب بار ہا محدثین کی اجماعی تحقیقات کو جھٹلا کر بس اس بنیاد پر احادیث کو ٹھکرا دیتے ہیں کہ وہ ان کی سمجھ سے بالا ہوگئی ہیں۔
مولانا مودودی صاحب لکھتے ہیں:
’’ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن: 167/3)
اسی طرح لکھتے ہیں :
’’اگر چہ اس کی سند ضعیف ہے، مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کر دیتی ہے اور یہ دوسری روایات گوسندا قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کر دیتی ہے۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن: 200/3)
مزید لکھتے ہیں :
’’جہاں تک اسناد کا تعلق ہے، ان میں سے اکثر روایات کی سند قوی ہے اور رہا باعتبار روایت ، اس کی صحت میں کلام نہیں کیا جا سکتا ، لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز نہ فرمائی ہوگی ، جس طرح وہ نقل ہوئی ہے۔ ایسی روایات کو محض صحت سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اتر وانے کی کوشش کرنا دین کو مضحکہ بنانا ہے ۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن:337/4)
مزید لکھتے ہیں :
’’اتنی مختلف سندوں سے جو بات محدثین کو پہنچی ہو، اس کے متعلق یہ کہنا تو مشکل ہے کہ وہ بالکل ہی بے اصل ہوگی لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کو سمجھنے میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے کوئی غلطی ہوئی ہے، یا وہ پوری بات سن نہیں سکے ہوں گے ۔‘‘
🌿(رسائل و مسائل ص 832-833)
دجال والی حدیث کو مشکوک قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مثلاً جو احادیث دجال کے متعلق وارد ہوئی ہیں، ان میں سے یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ہی تصریحات سے معلوم ہوتی ہے کہ آپ کو اس کے مقام ، زمانے اور شخصیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم نہیں دیا گیا تھا۔‘‘
🌿(رسائل و مسائل، ج 375)
داڑھی کے متعلق کہتے ہیں:
’’ڈاڑھی کے متعلق شارع نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔‘‘
🌿(رسائل و مسائل ، ص 435)
سنت کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’سنت کے متعلق لوگ عموما یہ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اپنی زندگی میں کیا ہے، وہ سب سنت ہے، لیکن یہ بات ایک بڑی حد تک درست ہونے کے باوجود ایک حد تک غلط بھی ہے۔‘‘
🌿(رسائل و مسائل میں 440)
تفسیر بالرائے
تفسیر بالرائے اہل بدعت کا طریقہ ہے، اہل سنت قرآن کی تفسیر کے لئے قرآن، حدیث اور اقوال سلف سے کرتے ہیں ، مولانا نے اس باب میں اہل بدعت کی راہ اختیار کی ہے۔
لکھتے ہیں :
’’اس جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ اس کی تفصیلی کیفیت ہمارے علم میں نہیں ہے۔ عام طور پر جو بات اہل تفسیر بیان کرتے ہیں اور جو بائبل میں بھی بیان کی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ آدم کی پسلی سے ہوا کو پیدا کیا گیا۔ تلمود میں اور زیادہ تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت حواء کو حضرت آدم علیہ السلام کی دائیں جانب کی تیرہویں پہلی سے پیدا کیا گیا تھا، لیکن کتاب اللہ اس بارے میں خاموش ہے اور جو حدیث اس کی تائید میں پیش کی جاتی ہے، اس کا مفہوم وہ نہیں ہے، جو لوگوں نے سمجھا ہے، لہذا بہتر یہ ہے کہ بات کو اسی طرح مجمل رہنے دیا جائے ، جس طرح اللہ نے اسے مجمل رکھا ہے اور اس کی تفصیلی کیفیت متعین کرنے میں وقت نہ ضائع کیا جائے ۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن 1 / 319-320)
اس باب میں وارد شدہ احادیث واضح ہیں۔ اہل سنت کے مشہور مفسر امام طبری اور حافظ ابن کثیر رحمتہ اللہ نے اس فرمان باری تعالیٰ: ﴿وخلق منها زوجها) کا یہی معنی بیان کیا ہے کہ حواء علیہ السلام کو سیدنا آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا۔
علامہ فخر رازی رحمتہ اللہ نے اس قول کو قومی قرار دے کر لکھا ہے:
هو الذي عليه الأكثرون .
’’اکثر مفسرین یہی کہتے ہیں۔‘‘
🌿(تفسير الرازي : 477/9)
اسماعیل بن عبدالرحمن بن ابی کریمہ ، سدی رحمتہ اللہ (۱۲۷ھ) فرماتے ہیں:
خلقها الله من ضلعه .
’’اللہ نے حواء کو آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا ۔‘‘
🌿(تفسير الطبري : 341/6 ، وسنده حسن)
نیز فرماتے ہیں:
خلق منها زوجها، جعل من آدم حواء .
’’ان سے ان کی بیوی پیدا کی اس کا معنی یہ ہے کہ حواء کو آدم سے پیدا کیا ۔‘‘
🌿(تفسير الطبري : 342/1 ، وسنده حسن)
(وسخرنا مع داود الجبال يسبحن والطير) کی تفسیر کرتے ہیں:
’’ان ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت داود علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے گیت گاتے تھے ، تو ان کی بلند اور سُریلی آواز سے پہاڑ گونج اُٹھتے تھے اور پرندے ٹھہر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا۔‘‘ 🌿(تفہیم القرآن: 175/3)
(ورفعنا فوقكم الطور) کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’لیکن اب اس کی تفصیل کرنا مشکل ہے، بس مجملا یوں سمجھنا چاہئے کہ پہاڑ کے دامن میں میثاق لیتے وقت ایسی خوفناک صورت حال پیدا کر دی گئی تھی کہ ان کو ایسا معلوم ہوتا تھا گویا پہاڑ ان پر آن پڑے گا ۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن 82/1)
یہ قرآنی آیت کی واضح تحریف ہے، گویا مودودی صاحب کو لگا کہ شاید پہاڑ اوپر ہو جانا کوئی ان ہونی بات ہے، اس لئے اس کا معنی ہی بدل دیا جائے لیکن شاید یہ بھول گئے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
و فرمان باری تعالیٰ: ﴿ألم تر إلى الذين خرجوا من ديارهم وهـ ألوف حذر الموتل) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یہ اشارہ بنی اسرائیل کے واقعہ خروج کی طرف ہے۔ یہ لوگ بہت بڑی تعداد میں مصر سے نکلے تھے ۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن :184/1)
کسی مفسر نے یہ بات ذکر نہیں کی۔ یہ مودودی صاحب کی اپنی اختراع ہے۔
’’سات آسمانوں‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’سات آسمانوں کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا تعین مشکل ہے۔ انسان ہر زمانے میں آسمان یا بالفاظ دیگر ماورائے زمین کے متعلق اپنے مشاہدات یا قیاسات کے مطابق مختلف تصورات قائم کرتا رہا ہے، جو برابر بدلتے رہے ہیں، لہذا ان میں سے کسی تصور کو بنیاد قرار دے کر قرآن کے ان الفاظ کا مفہوم متعین کرنا صحیح نہ ہو گا۔ بس مجملاً اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ یا تو اس سے مراد یہ ہے کہ زمین سے ماور جس قدر کائنات ہے، اسے اللہ نے سات محکم طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے، یا یہ کہ زمین اس کائنات کے جس حلقہ میں واقع ہے، وہ سات طبقوں پر مشتمل ہے۔‘‘
🌿(تفہیم القرآن 61/1)
آسمان اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے، جو قرآن ، متواتر احادیث اور عقل صحیح سے مسلم ہے۔ لیکن مودودی صاحب ’’سات آسمانوں‘‘ کی حقیقت میں تشکیک پیدا کر رہے ہیں ۔ یہ ہرگز درست نہیں ہوسکتا۔ معراج کی احادیث واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ مودودی صاحب کی یہ طبقاتی تقسیم بالکل باطل ہے۔
مولانا تقی عثمانی صاحب نے بجا فرمایا ہے:
’’تفہیم القرآن میں بہت سی باتیں جمہور کے مسلمات واقوال کے خلاف ہیں، اس لیے اسے بقول سائل بل تنقید پڑھنا پڑھوانا درست نہیں ہے۔‘‘
🌿(فتاوی عثمانی ، جلد 1 ص 214)
مولانا احمد رضا بجنوری صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں:
’’جن جن مقامات پر وہ جمہور مفسرین اور اکابر امت سے الگ ہو کر اپنے تفردات رقم کر گئے ہیں، وہ ظاہر ہے کہ قابل قبول نہیں ہو سکتے اور ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ میں نے انوار الباری میں کئی مواضع پر نقد کیا تھا۔ مزید نقد انوارالباری سے فارغ ہو کر ہو سکے گا، ان شاء اللہ ۔ ہم نے تفہیم کی چھ جلدوں میں ایک سو مخدوش مقامات پر نشانات لگائے ہیں۔ ہمارے نزدیک تفسیر بالرائے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اولا دوسری آیات اور پھر احادیث و آثار صحابہ و تابعین کی روشنی میں آیات قرآنی کا حل پیش کیا جائے اور دوسرے قرائن و واقعات کو ثانوی درجہ میں رکھا جائے ۔ جن لوگوں نے اس کے برعکس طریقہ اپنایا ہے، وہ تفسیر بالرائے کی غلطی سے نہیں بچ سکے ۔‘‘
🌿(ملفوظات علامہ سیدانورشاہ ، ص 217-218)
مودودی صاحب کے متعلق علما کا نظریہ
شیخ مقبل بن ہادی ، وادعی رحمتہ اللہ لکھتے ہیں:
الذي يظهر أن به شيئا من التشيع، وهو يعتبر من أئمة البدع، فجزى الله بعض الإخوة خيرا فقد ألف كتابا بعنوان زوابع في وجه السنة وبين حال أبي الأعلى المودودي وغيره من أولئك الذين يهاجمون سنة رسول الله وتضعيفهم أحاديث صحيحة في الصحيحين من أجل الأهواء .
’’ظاہر ہے کہ مودودی میں کچھ تشیع پایا جاتا تھا، اسے ائمہ اہل بدعت میں شمار کیا جائے۔ اللہ ہمارے ایک بھائی کو جزائے خیر دے، انہوں نے زوابع فی وجہ النبی کے نام سے ایک کتاب تالیف کی ہے، جس میں انہوں نے ابوالاعلیٰ مودودی وغیرہ کو ان لوگوں میں شمار کیا ہے، جو سنت رسول پر حملہ آور ہوتے ہیں اور صحیحین کی احادیث کو محض اپنی خواہشات کی پیروی میں ضعیف قرار دیتے ہیں۔‘‘
🌿(فضائع ونصائح ، ص 165 ، إجابة السائل، ص 494)
مولا ناحسین احمد مدنی صاحب مودودی صاحب کے بارے میں کہتے ہیں:
’’تکفیر نہیں کرتا ، ضلال سمجھتا ہوں۔‘‘
🌿(مکتوبات شیخ الاسلام، ج 3 ص 95)
مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحب کہتے ہیں:
’’بندہ کی اس تحریر کے بعد مودودی صاحب نے کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ لکھی ہے ، جس میں بعض صحابہ رضی الله عنه کے زہر کو اعلانیہ اگل دیا ہے۔ اس کتاب کو دیکھنے کے بعد بھی اگر کسی کو مودودی صاحب کے بعض صحابہ رضی الله عنه پر یقین نہیں آتا، تو یہ اس کی دلیل ہے کہ خود اس کے دل میں بھی صحابہ کرام رضی الله عنه سے بغض اور عداوت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے قلوب سے حضرات صحابہ رضی الله عنه کی عظمت مٹانے اور اس مقدس جماعت سے متعلق دلوں میں شکوک و شبہات اور بغض و نفرت پیدا کرنے کا جو کارنامہ تنہا مودودی صاحب نے انجام دیا ہے، شیعہ کی پوری جماعت اپنی پوری مدۃ العمر میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکی۔ مودودی صاحب سے قبل کوئی ایک مسلمان بھی ایسا نظر نہیں آتا، جو کسی صحابی سے بغض رکھتا ہو، مگر آج مودودی صاحب نے مسلمانوں کی ایک جماعت کو اس مہلک زہر سے مکمل طور پر پُر مسموم کر دیا ہے۔‘‘
🌿(احسن الفتاویٰ ، ج 1 ، ص 210-211)
مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب لکھتے ہیں :
’’احقر کے نزدیک مولانا مودودی صاحب کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ عقائد واحکام میں ذاتی اجتہاد کی پیروی کرتے تھے، خواہ ان کا اجتہاد جمہور علمائے سلف کے خلاف ہو، حالاں کہ احقر کے نزدیک منصب اجتہاد کے شرائط ان میں موجود نہیں، اس بنیادی غلطی کی بنا پر ان کے لٹریچر میں بہت سی باتیں غلط اور جمہور علمائے اہل سنت کے خلاف ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی تحریروں میں علمائے سلف یہاں تک کہ صحابہ کرام رضی الله عنه پر تنقید کا جو انداز اختیار کیا ہے ، وہ انتہائی غلط ہے۔ خاص طور پر ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں بعض صحابہ کرام رضی الله عنه کو جس طرح تنقید ہی نہیں بلکہ ملامت کا بھی ہدف بنایا گیا ہے اور اس پر مختلف حلقوں کی طرف سے توجہ دلانے کے باوجود اصرار کی جو روش اختیار کی گئی ہے ، وہ جمہور علمائے اہل سنت کے طرز کے بالکل خلاف ہے۔ نیز ان کے عام لٹریچر کا مجموعی اثر بھی اس کے پڑھنے والوں پر بہ کثرت یہ محسوس ہوتا ہے کہ سلف صالحین پر مطلوب اعتماد نہیں رہتا۔‘‘
🌿(جواہر الفقہ ، ج2 ، ص 172/17)
تنبیہ:
شیخ حماد انصاری رحم اللہ (۱۳۴۳ھ) فرماتے ہیں :
’’ایک دفعہ میں اور میرے کچھ دوست مودودی صاحب سے ملنے گئے، اس وقت وہ ریاض کے ’’بطحاء‘‘ نامی ہوٹل میں مقیم تھے۔ عصر کا وقت تھا ، ہم پہنچے ، تو وہ نماز عصر ادا کر رہے تھے ، میں بغور ان کی نماز کی طرف دیکھنے لگا۔ نماز کے بعد میں نے ان سے پوچھا: آپ کو نماز پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے ، آپ نہ تو رفع الیدین کرتے ہیں اور نہ آپ کی نماز میں ٹھہراؤ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ کہنے لگے : میرا مذہب حنفی ہے۔‘‘
🌿(المجموع في ترجمة الشيخ حماد بن محمد الأنصاري لابن عبد الأول : 604/2)